(نیو یارک) – ہیومن رائٹس واچ کی عالمی رپورٹ 2020 کے مطابق، افغانستان کے مسلح تصادم میں 2019 کے دوران سب فریقین کے حملوں نے شہریوں کی ہلاکتوں میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے۔
امریکی حملوں میں اضافے کے باعث، 2019 کے پہلے نصف میں، پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ افغان حکومت اور امریکہ کے حملوں میں ہونیوالی اموات طالبان کے حملوں کی اموات سے بڑھی ہیں اور اس کی وجہ امریکی حملوں میں تیزی سے اضافہ ہے۔ طالبان نے بلاامتیاز حملے کیے، خاص کر ستمبر کے صددارتی انتخابات سے پہلے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں شہری زخمی ہوئے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر برائے ایشیا پیٹریشیا گوسمین نے کہا ہے کہ جیسے جیسے لڑائی طول پکڑ رہی ہے افغانستان میں کشیدگی کے تمام فریقین جنگی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں اور شہریوں کو تشویشناک حد تک نقصان پہنچایا رہے ہیں۔ '' اگرچہ 2020 میں امن پر مذاکرات ہو رہے ہیں مگر عام افغانوں کی زندگیوں کے تحفظ کا دارومدار اس بات پر ہے کہ متحارب فریق شہریوں کے تحفظ اور انسانی حقوق کی پاسداری کا عزم کرتے ہيں کہ نہیں۔''
652 صفحات پر مشتمل اپنی تیسویں سالانہ عالمی رپورٹ 2020 میں ہیومن رائٹس واچ نے لگ بھگ 100 ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ اپنے تعارفی مضمون میں، ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینیتھ روتھ نے کہا ہے کہ چینی حکومت جو اقتدار میں رہنے کے لیے جبر کے ذرائع پر منحصر ہے، کئی عشروں سے انسانی حقوق کے عالمی نظام پر سب سے شدید حملے کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ کے اقدامات دنیا بھر میں عوامیت پسند جابر حکمرانوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں اور ان سے مدد بھی لے رہے ہیں۔ اس حملے کی مزاحمت ضروری ہے جو انسانی حقوق اور ہمارے مستقبل کے لیے عشروں کی پیش رفت کے لیے خطرے کا موجب ہے۔
افغان عورتوں کے حقوق کی کارکنان اور دیگر کارکنوں نے مطالبہ کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں افغانوں کو مؤثر نمائندگی دی جائے اور کسی بھی طرح کے سمجھوتے میں عورتوں کی برابری کی آئینی ضمانتوں سمیت انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
دسمبر میں عالمی فوجداری عدالت کے اپیلیٹ ایوان نے افغانستان کی مسلح کشیدگی کے تناظر میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کی استغاثہ کی درخواست کے استرداد کی خلاف اپیل کی سماعت کی۔ انسانی حقوق کی نو افغان و عالمی حقوق کی تنظیموں نے مقدمے میں عدالتی معاون کی حیثیت سے ایک مشترکہ بیان جمع کروایا جس میں اپیل کی اہمیت اجاگر کی گئی۔
افغان اسپیشل فورسز نے امریکی سنٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کی مدد سے کیے جانے والے نام نہاد رات چھاپوں کے دوران لوگوں کو موقع پر قتل کیا اور کئی کو اٹھا کر غائب کر دیا۔ مثال کے طور پر، 12 اگست کو ''02'' کے نام سے معروف ایک اسپیشل فورسز یونٹ جسے سی آئی اے کی مدد حاصل ہے، نے ضلع زرمت، ننگرہار میں رات کے چھاپے کے دوران 11 افراد کو موقع پر ہلاک کیا جن میں سے زیادہ تر ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
طالبان نے شہریوں کو نشانہ بنایا بشمول عبدالصمد امیری کے جو صوبہ گھور میں افغان آزاد ہیومن رائٹس کمیشن کے دفتر کے قائم مقام سربراہ تھے۔ انہیں ایک سرکاری ملازم کے ہمراہ 3 ستمبر کو گرفتار کیا گیا۔ 05 ستمبر کو دونوں افراد کی لاشیں میدان وردک صوبے کے ضلع جلریز سے ملیں جو کہ طالبان کے زیرکنٹرول علاقہ ہے۔
افغان حکومت نے بعض حراستی مراکز میں تشدد کم کرنے میں کچھ پیش رفت کی مگر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور نامور سیاسی شخصیات کو زیادتیوں بشمول جنسی حملوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہی ہے۔
افغانستان کے اٹارنی جنرل نے افغان فٹبال فیڈریشن (اے ایف ایف) کے صدر کریم الدید کریم پر 2017 میں خواتین فٹبال کھلاڑیوں کے ساتھ جنسی تشدد، جنسی حملے اور ہراسانی کی فرد جرم عائد کی تھی۔ فٹبال کے انتظامات کی دیکھ بھال کرنے والی عالمی تنظیم فیفا نے کریم پر زندگی بھر کی پابندی عائد کی تھی۔ مگر، کریم جو کہ سابق گورنر ہیں، کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
وسیع پیمانے کی دھوکہ دہی کے الزامات نے ستمبر 2019 کے صدارتی انتخابات کی شفافیت کو متاثر کیا ہے اور انتخابات کے دو ماہ بعد بھی نتائج کا اعلان نہیں ہوا۔