لوگ کراچی سنٹرل جیل، کراچی کے داخلے دروازے سے باہر آر ہے ہیں، 28 جنوری 2021،

ہر ایک کے لیے ڈراؤنا خواب

پاکستان کی جیلوں میں صحت کا بحران

لوگ کراچی سنٹرل جیل، کراچی کے داخلے دروازے سے باہر آر ہے ہیں، 28 جنوری 2021، © اے پی فوٹو/ فرید خان

خلاصہ

تقریباُ اپنی قید کے آغاز سے ہی، میرا جسم درد، سوزش، اور تناؤ کا شکار  رہاہے۔ میری شکایات یا تو نظرانداز کی گئیں یا جیل کے عملے نے کہا کہ ''مرد بنو' اور 'اسے برداشت کرو'، یا بعض مواقع پر مجھے درد سے وقتی طور پر افاقے کی دوائی دی گئی۔ صبح کے وقت میں بڑی مشکل سے  اُٹھتا اور میں مسلسل ایم آئی آئی یا الٹراساؤنڈ کروانے کی التجا کرتا رہا ، مگر میری التجائیں نظرانداز کی جاتی رہیں۔ بالآخر جب میں رِہا ہوا تو اُس وقت تشخیص ہوئی کہ مجھے جوڑوں کی سوزش کی بیماری لاحق ہے۔

  • 54 سالہ اسلم جو 2017 سے 2020 تک لاہور کی جیل میں قید رہے۔

پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں کی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زيادہ لوگ قید ہیں۔ 2022 تک،  ملک کی 91 جیلوں اور قید خالوں میں گنجائش سے 100 فیصد سے زیادہ لوگ قید تھے۔ شدید بھیڑ بھاڑ نے جیلوں میں صحت کی سہولیات کے فقدان میں مزید اضافہ کیا ہے جس سے قیدی متعدی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور صحت کی بنیادی ضروریات کے لیے ادویات اور علاج تک رسائی سے بھی محروم رہتے ہیں۔ 2020 میں کوویڈ 19 کے پھیلاؤ نے ان بدسلوکیوں میں سے کچھ کو بے نقاب کیا، جو وباء سے بہت پہلے سے موجود تھیں اور ان کا کچھ علاج نہیں کیا جا رہا تھا۔ 2022 کے وسط میں پاکستان کو تباہ کرنے والے سیلاب نے بہت سے مراکز صحت کو مزید نقصان پہنچایا، خاص طور پر صوبہ سندھ میں، اور جیلوں کی آبادی کو اور بھی الگ تھلگ کیا اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماری کا شکار بنا دیا۔

صحت کی ناقص دیکھ بھال قیدیوں کے حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں، بشمول تشدد اور بدسلوکی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور یہ ٹوٹ پھوٹ کے شکار نظامِ انصاف کی ایک بڑی علامت ہے۔ جیل کے اہلکاروں اور محافظوں کی بدعنوانی اور بدسلوکی پر قانونی کارروائی سے استثنیٰ کی بدولت جیلوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ان سنگین خلاف ورزیوں میں ناکافی اور غیر معیاری خوراک، غیر صحت مند طرزِ زندگی، اور ادویات اور علاج تک رسائی نہ ہونا شامل ہے۔ جیلوں میں صحت کی دیکھ بھال کا بحران پاکستان بھر میں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے حوالے سے پائے جانے والے سنگین مسائل کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ حال ہی میں ایک معاشی بحران جس نے 2022 میں پاکستان کی معیشت کو شدید مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا  تھا، نے حالات اور زيادہ گھمبیر بنا دیے ہیں۔ پاکستان نے اپنے خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا تین فیصد سے کم بجٹ صحت کے لیے مختص کیا ہے جو کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے معیارات سے کہیں کم ہے۔

اِس رپورٹ میں پاکستان کی جیلوں میں صحت کی دیکھ بھال میں وسیع پیمانے پر پائے جانے والے نقائص قلمبند ہیں اور یہ بھی بتایا گيا ہے کہ اس سے 88,000 سے زائد قیدیوں کی کل آبادی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ صوبہ سندھ اور پنجاب، اور  دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے میں سابق قیدیوں کے 34  بالمشافہ اور ٹیلی فون انٹرویوز پر مبنی ہے۔ ان میں خواتین اور نوعمر بچوں، نیز قبل از ٹرائل قیدیوں اور سزایافتہ قیدیوں کے تقریباً دو درجن وکلاء، جیل میں صحت کے اہلکاروں، اور قیدیوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندوں کے انٹرویوز بھی شامل ہیں۔ اگرچہ ہم نے پاکستان کی تمام جیلوں اور قیدخانوں کا مکمل سروے نہیں کیا، لیکن ملک بھر میں جیلوں کی متنوع آبادیوں کے ساتھ کام کرنے والے وُکلاء کے انٹرویوز، بشمول دیہی علاقوں میں، ہمارے نتائج کی تصدیق کرتے ہیں۔ سرکاری اداروں اور قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کی حالیہ رپورٹس سے بھی ہماری رپورٹ کے نتائج کی توثیق ہوئی ہے۔ اگرچہ پولیس اور جیل حکام کی طرف سے تشدد بڑے پیمانے پر ہوتا ہے اور اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف شاذ و نادر ہی مقدمہ چلایا جاتا ہے، لیکن اس رپورٹ کی بنیادی توجہ تشدد پر نہیں بلکہ قیدیوں اور زیرِ حراست لوگوںکو صحت کی دیکھ بھال تک رسائی میں درپیش رکاوٹوں پر توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے۔

پاکستان میں جیلوں کے حالات نوآبادیاتی دور سے ہی خراب ہیں، جیلوں کا زیادہ تر قانون اُس دور کا ہے۔ تاہم، جیل کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی جیلوں کی آبادی زیادہ تر معاشرے کے غریب ترین طبقوں سے تعلق رکھتی ہے، جو رشوت دینے، ضمانت حاصل کرنے، یا ایسے وکیلوں کی خدمات حاصل کرنے سے قاصر ہیں جو اُنہیں قید کے متبادل حل تلاش کرنے میں مدد  دیں سکیں۔ نقصان دہ حکومتی اور معاشرتی رویے جو قیدیوں کو "سزا کا مستحق" تصور کرتے ہیں، بے حسی اور بدسلوکی کا باعث بنتے ہیں۔

پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے جیلوں میں اصلاحات کی ضرورت کو نظر انداز کیا ہے۔ یہاں تک کہ بدسلوکی کی بھیانک مثالیں شاذ و نادر ہی پارلیمان کی کی توجہ حاصل کر سکیں یا کسی تبدیلی کو جنم دے سکیں۔

ناقص انفراسٹرکچر اور بدعنوانی نے جیل میں صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کو شدید متاثر کیا ہے۔ جیل کے زیادہ تر ہسپتالوں میں طبی عملے کے لیے مناسب بجٹ، ای کے جی مشینوں جیسے ضروری آلات اور مناسب مقدار میں ایمبولینسز کی کمی ہے۔ غفلت کی ایک واضح مثال میں، دسمبر 2021 میں لاہور کی کیمپ جیل میں چھ قیدیوں کی طبیعت خراب ہونے پر حراست میں لیے جانے کے 12 دنوں کے اندر ہی موت ہو گئی۔ اُس وقت اس جیل میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی اہلکار موجود نہیں تھا، اور منجمد درجہ حرارت کے باوجود بیرکوں میں حرارت کی کمی تھی اور جیل نے قیدیوں کے لیے گرم کپڑے فراہم نہیں کیے تھے۔  اس کے باوجود، اُن کی موت کے بعد بھی اصلاحات یا احتساب نہیں ہوا۔

وسیع پیمانے پر بدعنوانی نے پاکستان کے سرکاری اداروں کو کئی دہائیوں سے متاثر کر رکھا ہے، فوجداری انصاف اور جیلوں کے نظام کو عام طور پر بدعنوان ترین اداروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ رشوت ستانی کے کلچر نے دولت اور اثر و رسوخ رکھنے والوں اور دیگر تمام قیدیوں کے لیے دو الگ الگ نظام بنائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر پاکستانی قیدیوں کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال سے محروم رکھا جاتا ہے جس کے وہ قانون کے تحت حقدار ہیں، لیکن امیر اور بااثر قیدیوں کا ایک چھوٹا گروپ جیل سے باہر نجی ہسپتالوں میں اپنی سزا کاٹتا ہے۔ غریب قیدیوں کو درد کش ادویات کے حصول کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔

زیادہ بِھیڑ

 پاکستانی جیلوں میں حد سے کہیں زیادہ بِھیڑ ہے، جہاں زیادہ سے زیادہ تین افراد کے لیے بنائی گئی بیرکوں میں 15  افراد تک قید ہیں۔ پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کی اکثریت کے مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ وہ ٹرائل کا انتظار کر رہے ہیں یا ٹرائل کے درمیان ہیں – اور ابھی تک سزا سنائی جانی ہے۔ تاخیر نظام کو متاثر کرتی ہے، اور ملزمان کے جیل میں رہتے ہوئے ٹرائلز کو مکمل ہونے میں عام طور پر کئی سال لگ جاتے ہیں۔ نوآبادیاتی دور کے وسیع تر قوانین کی وجہ سے پولیس کو بین الاقوامی معیارات کی پاسداری کیے بغیر لوگوں کو اکثر گرفتار کرنے کے لیے بلا روک ٹوک اختیارات حاصل ہیں۔ مشتبہ افراد کواُن کے خلاف مجرمانہ الزامات کی نوعیت اور وجہ کے بارے میں فوری طور پر  اورتفصیل سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔ اور بین الاقوامی قانونی اصولوں کا تقاضا ہے کہ عدالتیں عام اصول کے طور پر مشتبہ افراد کو ضمانت فراہم کریں، مگر پاکستانی عدالتیں اکثر زير ِحراست افراد کو ضمانت دینے سے انکار کر دیتی ہیں یا ضمانت کی رقم ان کی مالی پہنچ سے زیادہ مقرر کرتی ہیں، ایسی صورت حال میں جب قیدی کے فرار ہونے یا مقدمے میں مداخلت کا کوئی خطرہ نہ ہوتا۔

فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے زیادہ تر غریب ہیں اور ریاست کی طرف سے فراہم کردہ قانونی امداد کے لیے ایک مضبوط طریقہ کار کی عدم موجودگی میں، مناسب قانونی نمائندگی کا فقدان ہے۔ سزا سنانے کے رہنما خطوط کے فقدان اور عدالتوں کی جانب سے حراست میں دینے کی بجائے دیگر متبادل سزائیں دینے سے گریز حتیٰ کہ معمولی جرائم کے لیے بھی،  جیلوں میں بھِیڑ کا سبب ہے۔

خوراک، پانی اور صفائی ستھرائی تک رسائی

 اِس رپورٹ کے لیے انٹرویو کیے گئے تقریباً تمام سابق قیدیوں نے غیر صحت بخش اور ناکافی خوراک، گندے پانی اور غیر صحت مند حالات کی شکایت کی۔ پاکستان میں نلکے کا پانی عام طور پر پینے کے قابل نہیں ہے کیونکہ اس میں آرسینک کی مقدار زیادہ ہے۔ تاہم، ایک طبی افسر نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ جب اُنہوں نے قیدیوں کے لیے صاف پانی کا مطالبہ کیا، تو انہیں جواب دیا گیا: "یہ مجرم ہیں جنہیں سزا دی جا رہی ہے۔ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنا بند کرو جیسے وہ چھٹی پر ہیں''۔ جیل حکام قیدیوں کو کھانے کی ادائیگی پر بھی مجبور کرتے ہیں حالانکہ  وہ  مفت کھانے کے حقدار ہیں۔ جہاں امیر قیدیوں کو صحت بخش خوراک اور تازہ پھل میسر ہیں، وہیں اکثریت کو ان کے لیے مقرر کردہ غیر معیاری کھانا بھی فراہم نہیں کیا جاتا۔

حد سے زیادہ بھیڑ، نظر انداز کرنے کے رویے اور ٹوٹتے ہوئے انفراسٹرکچر نے جیلوں اور قیدخانوں کو رہائش کے لیے کافی حد تک غیر موزوں بنا دیا ہے۔ قیدیوں کو خود بیرکوںکو صاف کرنے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے، مگر گنجائش سے کہیں زيادہ لوگوں کی موجودگی سے صفائی کا کام بیکار ہو جاتا ہے۔ خارش اور جلد کی دیگر بیماریاں عام ہیں، اور بیرکیں اکثر چوہوں، چھپکلیوں اور دیگر کیڑوں سے متاثر  ہیں۔

مارچ 2020 میں ایک تاریخی فیصلے میں، عدالتِ عالیہ اسلام آباد نے فیصلہ دیا کہ قیدیوں کو "ہجوم سے بھری جیل میں رکھنا اور صفائی کا فقدان، ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک کے مترادف ہے جس کے لیے ریاست کو جوابدہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ عمل دیکھ بھال کی لازمی ذمہ داری کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔" تاہم، عدالتی فیصلے کے باوجود کسی قسم کی بامعنی اصلاحات نہیں ہوئیں۔

خواتین قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک

خواتین قیدیوں کا شمار سب سے زیادہ خطرے سے دوچار قیدیوں میں ہوتا ہے۔ پدرانہ سماجی رویے، مالی خودمختاری کی کمی، اور خاندانوں کی طرف سے چھوڑ دیے  جانے کی وجہ سے خواتین قیدیوں کے لیے اضافی مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ فوجداری نظامِ انصاف میں خواتین کو عام طور پر تعصب، امتیازی سلوک اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں صحت کی دیکھ بھال تک رسائی میں بہت زیادہ مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔

 لاہور کی جیل میں تین سال گزارنے والی ایک خاتون نے کہا:

جیل میں اپنے پورے قیام کے دوران، میں شدید سر درد اور ہارمونل مسائل کا شکار رہی جس کی وجہ سے درد اور ماہواری کی بے قاعدگی ہوتی ہے۔ مجھے ایک بار بھی کسی ڈاکٹر سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی اور صرف درد کش دوا دی گئی۔ ہمارے لیے سماجی روایات اور شرمندگی کی وجہ سے جیل کے مرد اہلکار سے ماہواری کے بارے میں بات کرنا انتہائی مشکل ہے۔ خواتین قیدیوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں انہیں ان کے اہلِ خانہ چھوڑ دیتے ہیں اور کوئی بھی ان سے ملنے نہیں آتا اور اسی وجہ سے جیل حکام جانتے ہیں کہ ان کے بہتر علاج کے لیے کوئی بھی رقم [رشوت] دینے کو تیار نہیں ہے۔

پاکستان کی وزارت برائے انسانی حقوق نے 2020 میں رپورٹ کیا کہ خواتین قیدیوں کو غیرمؤثر طبی دیکھ بھال کا سامنا ہے اور حکام نے خواتین قیدیوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے قوانین کو زیادہ تر نظرانداز کیا ہے۔ پاکستانی جیلوں میں بند خواتین میں سے تقریباً دو تہائی ایسی ہیں جن کے مقدمات کی سماعت ابھی شروع نہیں ہوئی اور انہیں کسی جرم میں سزا نہیں ہوئی۔

جیل میں صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں فنڈز کی شدید کمی کا مطلب یہ ہے کہ جن ماؤں کے بچے جیل میں اُن کے ساتھ ہوتے ہیں اُنہیں اکثر صحت کی ضروری سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں، جس سے خواتین اور بچوں دونوں کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ ایک قیدی نے بتایا کہ اُس کے بچے، جس کی نشوونما معذوری کی وجہ سے رُکی ہوئی ہے، کوچھ سال کی قید کے دوران کوئی امدادی خدمات یا طبی دیکھ بھال مہیا نہیں کی گئی حالانکہ اس کے لیے بار بار درخواست دی گئی تھی۔

معذوریوں سے متاثرہ قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک

معذوریوں سے متاثرہ قیدی بدسلوکی، امتیازی سلوک اور برے رویے کے خطرے کا شکار رہتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی کا فقدان نفسیاتی معذوریوں سے متاثرہ لوگوں (ذہنی صحت کے  مسائل سے دوچار لوگ) کے ساتھ بدسلوکی کو جنم دیتا ہے اور جو قیدی ذہنی صحت کی مدد کے لیے کہتے ہیں اُن کا اکثر مذاق اڑایا جاتا ہے اور ان کی خدمات سے انکار کیا جاتا ہے۔ جیل کے نظام میں دماغی صحت کے پیشہ ور افراد کی کمی ہے، اور جیل حکام ذہنی صحت کی حالت کی کسی بھی رپورٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ نئے قیدیوں کے نفسیاتی معائنے یا تو بے کار ہوتے ہیں یا بالکل کیے ہی نہیں جاتے۔ 2018 میں لاہور کی جیل میں چار ماہ گزارنے والے ایک قیدی نے بتایا کہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور اپنی زندگی ختم کرنے کا سوچ رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہوں نے پیشہ ورانہ مدد کی درخواست کی تو ایک اہلکار نے انہیں کہا، "یہاں ہر کوئی افسردہ ہے۔ یہاں تک کہ میں افسردہ ہوں۔ تم نماز شروع کرو۔"

نوآبادیاتی دور کے جیل کے قوانین

پاکستان کے فوجداری نظامِ انصاف سے متعلق بنیادی قوانین، بشمول تعزیرات، فوجداری طریقہ کار، اور جیل کے قوانین، انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے تحت نافذ کیے گئے تھے، اور ان میں 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے کوئی   بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ جیل کے ایک ڈاکٹر کے بقول، اس نظام کے تحت جیل سپرنٹنڈنٹ تقریباً آمرانہ طاقت کے ساتھ "وائسرائے" کے طور پر کام کرتا ہے، خاص طور پر صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کے حوالے سے۔ نوآبادیاتی دور کی پولیس اور جیل کے قوانین سیاست دانوں اور دیگر طاقتور افراد کو پولیس اور جیل کے کاموں میں معمول کے مطابق مداخلت کا موقع فراہم کرتے ہیں، جو بعض اوقات حکام کو ہدایت دیتے ہیں کہ وہ اُن کے اتحادیوں کو نوازیں اور مخالفین کو ہراساں کریں۔

کلیدی سفارشات

 پاکستانی جیلوں اور قیدخانوں میں ابتر صورت حال اور حقوق کی خلاف ورزی کی کئی وجوہات ہیں اور مسائل کو حل کرنے کے لیے وسیع تر ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔ بہر حال، وفاقی اور صوبائی سطحوں پر حکومت بعض خاص اقدامات کر سکتی ہے جن  سےجیلوں کے حالات میں نمایاں تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے اور خاص طور پر قیدیوں کی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اب تک، مختلف ادوار میں بننے والی حکومتوں کی جانب سے مناسب وسائل مختص کرنے اور ان کی نگرانی اور مؤثر طریقے سے استعمال میں ناکامی نے جیلوں کے نظام کی خستہ حالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ صحت کی دیکھ بھال پر توجہ دینے، اور صحت سے متعلق زندگی کے حالات اور مناسب خوراک کو یقینی بنانے کے علاوہ، سب سے اہم اصلاحات میں ضمانت کے قوانین کو تبدیل کرنا، مقدمے کی سماعت کے عمل کو تیز کرنا، اور قیدیوں کی بھِیڑ کو کم کرنے کے لیے غیر حراستی سزاؤں کو ترجیح دینا شامل ہیں۔

اِن اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت پاکستان کو درج ذیل اقدامات کرنا ہو ں گے:

  • پاکستانی جیلوں میں گنجائش سے زیادہ بھیڑ کو کم کریں۔ اس مقصد کے لیے:
     
  • موجودہ قوانین کے نفاذ اور جلد رہائی کو یقینی بنایا جائے؛
  • ضمانت کے قانون کو بین الاقوامی معیار کے مطابق لانے کے لیے اس میں اصلاحات لا ئی جائیں؛
  • ججوں کے لیے سزا سنانے سے متعلق رہنما اصولوں کا اطلاق کیا جائے تاکہ وہ ملزم کی ضمانت منظور کریں جب  یہ یقین کرنے کے لیے معقول بنیادیں نہ ہوں کہ قیدی فرار ہو جائے گا یا مزید جرائم کا ارتکاب کرے گا؛
  • غیر متشدد معمولی نوعیت کے جرائم اور پہلی بار جرم سرزد کرنے والے مجرموں کے لیے سزا کے ڈھانچے میں اصلاح کی جائے تاکہ غیر حراستی متبادل طریقہ کار کو شامل کیا جا سکے؛
  • اُن قیدیوں کو مفت اور مناسب قانونی امداد کا طریقہ کار نافذ کیا جائے جن کے پاس نجی قانونی نمائندگی حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہیں؛ اور

اس بات کو یقینی بنائے جائے کہ ٹرائل سے قبل حراست میں رکھے گئے قیدیوں کا ٹرائل جلدازجلد شرو ع ہو، لیکن انہیں ضرورت سے زیادہ دیر تک حراست میں نہ رکھا جائے

  • جیلوں میں صحت کی دیکھ بھال کے لیے وقف طبی پیشہ ور افراد کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، تمام موجودہ آسامیوں کو فوری طور پر پُر کیا جائے۔
  • جیل کے قوانین اور طرزِ عمل کو بین الاقوامی معیارات جیسے کہ نیلسن منڈیلا رولز اور بنکاک رولز کے مطابق لانے کے لیے اصلاحات کی جائیں اور خواتین و بچوں کو درپیش مخصوص چیلنجوں سے نمٹا جائے۔ عورتوں کے ماہواری اور تولیدی صحت کے مسائل بھی حل کیے جائيں۔
  • جیل انتظامیہ اگر قیدیوں کے حقوق کو تحفظ دینے اور اور طے شدہ اصولوں کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے تو اسے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے ایک آزاد، مؤثر، اور شفاف طریقہ کار اپنایا جائے۔
  • تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی یا توہین آمیز سلوک یا سزا کے خلاف کنونشن کے اختیاری پروٹوکول کی توثیق  کی جائے، اور تمام حراستی مراکز کے غیر اعلانیہ معائنے کے لیے ایک طریقہ کار متعارف کیا جائے۔