(بنکاک) – ہیومن رائٹس واچ نے آج کہا کہ، تھائی حکومت نے کم از کم 40 ایغور مردوں کو زبردستی چین بھیج کر ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، جہاں انہیں تشدد، بلاجواز حراست، اور طویل مدت قید کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ ایک دہائی سے زائدعرصے سے تھائی امیگریشن کی حراست میں تھے۔
27 فروری 2025 کو صبح 2:14 بجےکئی ٹرک جن کی کھڑکیاں سیاہ ٹیپ سے ڈھکی ہوئی تھیں، بنکاک کے سوان پفو امیگریشن حراستی مرکز سے روانہ ہوئے، جہاں 40 سے زائد ایغور مردوں کو قید رکھا گیا تھا۔ صبح 4:48 بجے، چائنا سدرن ایئرلائنز کی ایک غیر طے شدہ پرواز ڈان میوانگ بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی اور چھ گھنٹے بعد کاشغر پہنچی، جو چین کے سنکیانگ ایغور خودمختار علاقے کا ایک شہر ہے۔ کچھ دیر بعد، چینی سرکاری میڈیا چائنا سینٹرل ٹیلی ویژن (سی سی ٹی وی) نے ایک نیوز کانفرنس کی رپورٹ دی، جس میں عوامی سلامتی کی وزارت نے تصدیق کی کہ غیر قانونی طور پر ملک سے نکلنےوالے 40 چینی شہری جوتھائی لینڈ میں حراست میں لیے گئے تھے، واپس [چین] بھیج دیے گئے ہیں۔ تھائی لینڈ کے نائب وزیر اعظم اور وزیر دفاع، پمتھم ویچایاچی نےاُسی دن بعد میں ایک میڈیا انٹرویو میں تصدیق کی کہ ایغوروں کو چین بھیج دیا گیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا ڈائریکٹر ایلیئن پیئرسن نے کہا،" تھائی لینڈ نے ان ایغور افراد کو زبردستی چین بھیج کر اپنے ملکی قانون اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو کھلم کھلا نظر انداز کیا ہے، وہاں انہیں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. تھائی لینڈ کے امیگریشن حراستی مرکز میں 11 سال کی غیر انسانی قید کے بعد، یہ افراد اب شدید خطرے میں ہیں کہ انہیں چینی حکومت کی جانب سے تشدد، جبری گمشدگی اور طویل مدت کے لیے قید کا سامنا کرنا پڑےگا۔"
مارچ 2014 میں، تھائی پولیس نے ملائیشیا کی سرحد کے قریب واقع صوبہ سونگکھلا سےتقریباً 220 ایغور مردوں، خواتین اور بچوں کو گرفتارکر کے ان پر امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا، اوربنکاک میں انہیں ایک امیگریشن حراستی مرکز میں منتقل کر دیا تھا۔ حکام نے اسی عرصے کے دوران الگ الگ واقعات میں درجنوں دیگر ایغوروں کو بھی گرفتار کیا اور انہیں ملک بھر کے امیگریشن حراستی مراکز میں رکھا۔ جولائی 2015 میں، سونگکھلا میں زیر حراست تقریباً 170 ایغور خواتین اور بچوں کو ترکی بھیج دیا گیا۔ ایک ہفتہ بعد تھائی حکام نے زبردستی 100 سے زائد ایغور مردوں کو چینی حکام کے حوالے کر دیا، جو انہیں بنکاک سے چین لے گئے۔
باقی ماندہ ایغور مردوں کو غیر معینہ مدت کی حراست میں مشکلات برداشت کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، جبکہ تھائی حکام چینی حکومت کے دباؤ میں تھے۔ چین بھیجے جانے کے خدشے کے پیش ِنظر، ان مردوں نے 10 جنوری کو بھوک ہڑتال شروع کر دی۔ تاہم، تھائی حکام کی جانب سے انہیں چین نہ بھیجنے کی یقین دہانی کروائی گئی جس کے بعد، انہوں نے 29 جنوری کو دوبارہ کھانا شروع کیا۔
ایغور ترک زبان بولنے والے مسلمان ہیں، جن کی اکثریت چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں آباد ہے۔ چینی حکومت طویل عرصے سے ایغور شناخت کے اظہار کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ سنہ 2016 کے اواخر سے، چینی حکام نے ایغور آبادی کے خلاف وسیع پیمانے پر اور منظم انداز میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مہم کو مزید تیز کر دیا ہے، جس میں انسانیت کے خلاف جرائم بھی شامل ہیں۔
چینی حکام نے ایغوروں کو بلاجواز حراست میں لیا اور ناجائز طور پر قید کیا، انہیں اپنی ثقافت پر عمل کرنے کی پاداش میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، اور وسیع پیمانے پر نگرانی اور جبری مشقت کا نشانا بنایا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، تقریباً پانچ لاکھ ایغور اب بھی جاری کریک ڈاؤن کے تحت قید ہیں، جہاں حکام نے معمول کے مطابق روزمرہ کی پُرامن سرگرمیوں، جیسے نماز پڑھنا یا بیرون ملک رشتہ داروں سے رابطہ کرنے کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جوڑ رکھا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا، مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے چین چھوڑنے والے ایغوروں کو اگر واپس بھیجا جائے تو انہیں شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور وہ حراست، تفتیش، تشدد اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنتے ہیں۔ حکام نے بیرون ملک مقیم ایغور گھرانوں کے ساتھ بھی کئی بار ناروا سلوک کیا ہے۔
سنہ 2022 کی ایک رپورٹ میں، اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر نے ان بڑھتے ہوئے مظالم کو دستاویزی شکل دی اور نتیجہ اخذ کیا کہ چین کے اقدامات "بین الاقوامی جرائم، خاص طور پر انسانیت کے خلاف جرائم، کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔"
تھائی لینڈ 1951 کے پناہ گزین کنونشن کا فریق نہیں ہے اورنہ ہی اس کے پاس پناہ کے دعووں کا جائزہ لینے کے لیے کوئی مؤثر قومی نظام موجود ہے۔ تھائی امیگریشن حکام نے بارہا اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کو ان افراد تک رسائی دینے سے انکار کیا اور اس طرح انہیں پناہ گزین کی حیثیت تسلیم کروانے کا حق استعمال نہیں کرنے دیا۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے 27 فروری کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا: "ایجنسی نے بارہا اس گروہ تک رسائی کی کوشش کی اور تھائی حکام سے یقین دہانی کروائی کہ واپسی کے خوف کا اظہار کرنے والوں کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔ ایسی کوئی رسائی فراہم نہیں کی گئی، اور جب وضاحت کے لیے رابطہ کیا گیا تو شاہی تھائی حکومت کے حکام نے کہا کہ گروہ کو ملک بدر کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔"
تھائی حکومت پر بین الاقوامی قانون کے اصول نان ریفولمنٹ (Non-Refoulement) کا احترام کرنا لازم ہے، جو ممالک سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ کسی بھی فرد کو ایسی جگہ واپس نہ بھیجیں جہاں اسے ظلم و ستم، تشدد یا دیگر سنگین بدسلوکی، جان کے خطرے، یا دیگر اسی نوعیت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ریفولمنٹ کو اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسدادِ تشدد، جس کا تھائی لینڈ فریق ہے، اور روایتی بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
ریفولمنٹ پر پابندی تھائی لینڈ کے 2023 کے انسدادِ تشدد اور جبری گمشدگیوں کی روک تھام کے قانون میں شامل کی گئی ہے۔ وزیراعظم پٹونگٹرن شیناواترا نے 27 فروری کو ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ ایغور مسلمانوں کی واپسی قانون، بین الاقوامی طریقہ کار اور انسانی حقوق کے اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے۔
پیئرسن نے کہا: "متعلقہ حکومتوں کوچینی حکومت پر زور دینا چاہیے کہ وہ واپس بھیجے گئے افراد کو اپنے خاندانوں سے ملنے کے ساتھ ساتھ آزاد مبصرین اوراقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں تک رسائی کی اجازت دے۔ چین کا ایغوروں کے خلاف خوفناک مظالم کا ریکارڈ اور تھائی لینڈ پر دباؤ ڈال کران افراد کی تحویل حاصل کرنے کی کوشش ان کی بھلائی کے حوالے سے شدید تشویش کا باعث ہے۔"