اِس دستاویز کو 9 ستمبر کو اپ ڈیٹ کیا گیا تھا، یہ جائزہ لینے کے لیے کہ کابل کے ہوائی اڈے سے اقوامِ متحدہ نے اپنی عالمی کارروائیاں شروع کی ہیں اور کچھ ملکی پروازیں بھی فعال ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق، 9 ستمبر کو قطر ایئرویز کی پرواز لگ بھگ 200 مسافروں کو لے کر کابل کے عالمی ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی۔
اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے نے لاکھوں افغانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ کئی دیگر جو چھوڑنا چاہتے ہیں ابھی بھی ملک سے باہر نکلنے کا محفوظ راستہ پانا چاہتے ہیں۔ بے شمار افغان ماضی میں اتحادی افواج، افغانستان کی سابق حکومت، عالمی ترقیاتی اسکیموں، ذرائع ابلاغ، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے کوشاں تنظیموں کے لیے کام کرنے یا اُن کے ساتھ وابستگی کی بدولت نشانہ بننے کی خطرے سے دوچار ہیں۔ ایسی عورتیں اور لڑکیاں خاص طور پر وہ جنہیں ڈر ہے کہ وہ اب اپنا کام یا تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں گی اور اُن کے اہلِ خانہ بھی ملک چھوڑنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کا اندازہ ہے کہ پانچ لاکھ افغان 2021 کے اختتام تک افغانستان چھوڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کئی افغانوں کو طالبان کی حکومت کے تحت ایذارسانی اور انتقامی کاروائیوں کا خدشہ ہے اور وہ پناہ لینے یا محفوظ طریقے سے بیرون ملک مقیم ہونے کے دیگر ذرائع پانے کے لیے پُرامید ہیں۔
سوال و جواب پر مشتمل اِس دستاویز میں افغانوں کی ہجرت کے بحران پر حکومتوں کی پالیسیوں کا انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔
- اگست میں افغانستان سے کسے نکالا گیا؟ اور کون ابھی باقی ہے؟
- کیا افغان ملک چھوڑنے کا حق رکھتے ہیں؟
- کیا ملک چھوڑنے والے تمام افغان مہاجر کا درجہ پانے کے مستحق ہیں؟
- کن حکومتوں نے افغانوں کو بطور مہاجرین کو پناہ دینے کا عہد کیا ہے؟
- ویزہ کے خواہشمند افغانوں کے لیے حکومتوں نے دیگر کونسے راستے تجاویز کیے ہیں؟
- حکومتوں نے کچھ افغانوں کو تیسرے ممالک کیوں بھیج دیا ہے؟
- حکومتوں کو اپنے ملک میں مقیم افغانوں کے حوالے سے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟
- حکومتیں اور دیگر برادریاں نئے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور اپنے سماج میں سمونے کے لیے کیا کر سکتی ہیں؟
اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد، امریکہ کی قیادت میں عالمی فضائی آپریشن نے متعدد عالمی پاسپورٹ یافتہ افراد اور افغانوں کو حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ایسی سینکڑوں پروازوں کے ذریعے نکالا جن کا انتظام وانصرام انتہائی جلدبازی میں کیا گیا تھا۔ امریکی پینٹاگان کے اہلکاروں کا کہنا تھا کہ امریکہ کے زیرِاہتمام چلنے والی پروازوں نے لگ بھگ 125,000 افراد کو نکالا ہے۔ نکالے جانے والے افراد میں سفارت خانوں اور غیرسرکاری تنظیموں کا عملہ، اور ملک میں رہائش پذیر دیگر ایسے لوگ تھے جن کے پاس غیرملکی پاسپورٹ تھے۔ ملک چھوڑنے کے خواہاں کئی ہزار افغانوں کو نہیں نکالا گيا۔ اُن میں سے کئی طالبان کے نظام کے تحت اپنی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہیں۔ باوثوق اطلاعات ہیں کہ کئی سو غیرملکی شہری بھی ابھی تک ملک میں ہی ہیں۔
اپنے اہلِ خانہ سمیت نکالے جانے والے افغانوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہیں اتحادی عسکری افواج کے لیے کام کرنے کی وجہ سے ویزے جاری ہوئے تھے یا جنہوں نے غیرملکی سرمائے سے چلنے والے پروگراموں کے لیے کام کیا تھا۔ ایسے افغانوں کی ایک قلیل تعداد کو بھی بطورِ مہاجر طیاروں میں سوار کر لیا گیا جنہوں نے اپنی شاخت کی بنیاد پر ظلم و زیادتی کے خوف سے ویزوں یا پناہ کی درخواست دی تھی، جس طرح اُن لوگوں کو اپنے خاندان سے دوبارہ میلاپ کی بنیاد پر سوار کیا گیا جن کے اہلِ خانہ بطورِ شہری دیگر ممالک میں مقیم تھے۔
اِس معیار پر پورا اترنے والے کئی افغان ویزہ یا پرواز کے حصول میں یا ہوائی اڈے پر بروقت پہنچنے میں ناکام رہے۔ 27 اگست کو ہوائی اڈے کے باہر بم دھماکوں کے حملے کے بعد شہریوں کے انخلاء کی کئی کارروائیں بند ہو گئیں۔
- کیا افغان ملک چھوڑنے کا حق رکھتے ہیں؟
انسانی حقوق کے عالمی قانون کے تحت، ہر ایک فرد کو اپنا ملک چھوڑنے کا حق ہے، اور کسی بھی ملک میں قانونی طور پر مقیم ہر ایک فرد کو ملک کے اندر نقل و حرکت کا حق ہے۔ ان حقوق پر پابندیاں صرف قانون کی طرف سے، کسی جائز مقصد کی خاطر، اور جائز سرکاری مقصد کے حصول کے لیے ضروری ردِعمل کی بنیاد پر ہی لاگو ہو سکتی ہیں۔
طالبان حکام کو یہ کہتے ہوئے رپورٹ کیا گیا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ افعان ملک چھوڑیں۔ اُنہوں نے یقین دہانیاں کروائیں تھیں کہ غیرملکی سفر کے اجازت نامے رکھنے والے افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت ہو گی، البتہ اِس شرط کا اطلاق بذاتِ خود نقل و حرکت کے حق کی پامالی ہے۔
30 اگست کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اِس توقع کا اظہار کیا گيا کہ ''طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے''، اور طالبان کے وعدوں کا حوالہ دیا گیا:
افغانوں کو بیرون ملک سفر کرنے، جب چاہیں افغانستان چھوڑنے کی اجازت ہو گی، کسی بھی سرحدی راستے چاہے فضائی یا زمینی بشمول دوبارہ کھلنے والے اور محفوظ کابل ایئرپورٹ کے ذریعے۔ کسی فرد کی طرف سے سفر بشمول افغانستان سے افغانوں اور دیگر تمام غیرملکی شہریوں کی بحفاظت، محفوظ اور منظم روانگی پر پابندی عائد نہیں ہو گی۔
یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ طالبان اِن وعدوں کی پاسداری کرتے کہ نہیں۔ کابل کا ہوائی اڈہ اِس وقت غیرفعال ہے۔ قطر اور ترکی کابل کے ہوائی اڈے جس کے پاس ہوائی ٹریفک کنٹرول کرنے کی سروسز نہیں ہیں، کے انتظام و انصرام کے حوالے سے طالبان سے بات چیت جاری کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی امداد کی حامل فضائی سروس نے عالمی سطح پر اپنی سرگرمیاں شروع کی ہیں اور کچھ ملکی پروازیں چل رہی ہیں، اور ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق، 9 ستمبر کو، قطر ایئرویز کی پرواز لگ بھگ 200 مسافروں کو لے کر کابل کے عالمی ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی۔
بصورت دیگر، ملک سے روانگی زيادہ تر زمینی راستوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ متصل افغانستان کی مشرقی و جنوبی سرحدیں 21 اگست کو دوبارہ کھولی گئیں۔ مگر پاکستانی حکام نئے افغان مہاجرین کو پاکستان داخلے کی اجازت دینے سے گریزاں ہیں جس کی وجہ سے سرحد کے دروازوں پر بڑے ہجوم داخلے کے منتظر ہیں۔ پاکستان نے تجویز دی ہے کہ یو این سی ایچ ار افغان حدود میں سرحد پر خیمے بنائے۔
افغانستان کے ساتھ منسلک ایران کی مغربی سرحد پر، ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق، حکام نے افغانوں کے لیے عارضی خیمے قائم کیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، دوغرون سرحد کے ذریعے کم از کم ایک ہزار افغان داخل ہوئے ہیں، مگر ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ داخل ہونے والوں کو حالات بہتر ہونے پر اُن کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔
ترکمانستان، اُزبکستان اور تاجکستان افغانستان کے شمال میں واقع ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق، پناہ کے خواہشمند افغان فوجی پائلٹ ہیلی کاپٹرز اور ہوائی جہاز اُزبکستان اور تاجکستان اڑا لے گئے۔ سابق افغان سرکاری فورسز ایک پُل کے ذریعے اُزبک علاقے میں داخل ہوئیں جسے تین عشرے قبل سوویت فورسز نے انخلا کے لیے استعمال کیا تھا۔ اُزبک حکام کہ کہنا تھا کہ وہ افغانوں کو صرف عارضی راہداری کا مقام پیش کر رہے ہیں، اور مہاجرین کو قبول نہیں کر رہے، اور تب سے اُنہوں نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر رکھی ہے۔ اِسی طرح، تاجکستان نے افغانوں کے لیے ایک خیمہ بنایا ہے مگر صرف عارضی بنیاد پر۔
- کیا ملک چھوڑنے والے تمام افغان مہاجر کا درجہ پانے کے مستحق ہیں؟
فی الوقت کسی ایک افغان کو بھی افغانستان واپس نہیں بھیجنا چاہیے، اور تمام افغانوں کو اگر مستقل طور پر نہ بھی سہی تو کم از کم عارضی طور پر قانونی تحفظ کی ضرورت ہے۔
مہاجرین کنونشن 1951 کے تحت، مہاجر وہ فرد ہے جو نسل، مذہب، قومیت، یا کسی سماجی گروپ کی رکنیت یا کسی سیاسی رائے کی بنیاد پر ظلم و زیادتی کے خوف کی وجہ سے اپنے اصلی وطن واپس آنے کے قابل نہیں یا اس کے لیے رضامند نہیں۔ صنف کی بنیاد پر ظلم و ستم بشمول صنفی امتیاز اور ہم جنس پرستی، لواطت، دو جنسی رجحان اور خواجہ سراء(ایل جی بی ٹی) ہونے کی شناخت بھی مہاجر درجے کی بنیاد ہو سکتی ہے۔
اکثر بحرانی حالات میں، لوگوں کے بڑے گروپ ظاہری حالات کی بنیاد پر مہاجرین تسلیم کیے جاتے ہیں، مطلب یہ کہ اُن کا مہاجر درجہ صرف اُن کی قومیت یا دیگر مشترکہ خاصیتوں کی بنیاد پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ممالک لوگوں کو مہاجر درجے کا تعین کیے بغیر عارضی حفاظت بھی فراہم کرتے ہیں۔
پناہ کے خواہشمند تمام افغانوں کو ظاہری بنیاد پر مہاجر کا درجہ دیا جائے یا اُن کے درجے اور حفاظت کی ضروریات کے تعین کے لیے منصفانہ اور مؤثر طریق ہائے کار لاگو کیے جائیں۔ درجے کے تعین تک کم از کم اُنہیں عارضی حفاظت ضرور مہیا کی جائے۔
افغانوں نے 40 برسوں تک جنگ کا سامنا کیا ہے اور کئی ملک سے بھاگنے پر مجبور ہوئے، بعض اوقات کئی دفعہ، اُن عشروں کے دوران۔ کم از کم 26 لاکھ افغان پہلے سے ہی بطورِ رجسٹرڈ مہاجرین بیرونی ممالک میں رہ رہے ہیں، زیادہ تر ہمسایہ پاکستان، ایران اور ترکی میں۔ 2020 کے اختتام تک، 30 لاکھ سے زائد لوگ اندرون ملک نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اور اقوامِ متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین کے اندازے کے مطابق سال کے شروع سے 10 اگست تک ساڑے پانچ لاکھ سے زائد افغان ملک کے اندر بے دخل ہوئے ان میں دو لاکھ چالیس ہزار وہ بھی تھے جو مئی میں اتحادی افواج کے انخلا کے آغاز کے بعد بے دخل ہوئے۔
کئی برسوں سے زیادہ تر ملک چھوڑنے والے افغانوں کی میزبانی ہمسایہ ممالک ایران اور پاکستان کر رہے ہیں۔ دیگر نے ترکی، جرمنی اور ہندوستان کا رُخ کیا۔ ماضی میں کچھ مواقع پر، ایران اور پاکستان میں افغانوں کو اُن کی بادی النظر حالت کی بنیاد پر مہاجرین تسلیم کیا گیا۔ مگر اُن کے درجے کو تسلیم کرنے کے حوالے سے غیرمستقل پالیسی کی وجہ سے، اِن دونوں اِن ممالک میں آنے والے زیادہ تر افغانوں کو مہاجرین تسلیم نہیں کیا جاتا۔
جولائی تک ایران آٹھ لاکھ رجسرڈ مہاجرین اور 30 لاکھ تک دیگر بے دخل افغانوں کی میزبانی کر رہا تھا۔ افغانستان سے مہاجرین اور پناہ کے درخواست گزاروں نے ایران میں مظالم کا سامنا بھی کیا ہے، بشمول کئی صوبوں میں غیر شہریوں کے لیے ممنوع علاقوں میں رہائش پر پابندی؛ تعلیم تک رسائی سے انکار؛ اور باضابطہ کاروائی کے بغیر حراست اور ملک بدری۔ 2019 سے 2020 کے اوائل تک، ایران نے لگ بھگ پندرہ لاکھ افغانوں کو واپس افغانستان دھکیلا، زيادہ تر کو اُن کی رضامندی کے بغیر۔
پاکستان میں چودہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور بیس لاکھ تک دیگر بے دخل افغان مقیم ہیں۔ پاکستان میں مقیم افغان کئی برسوں سے پولیس کی زيادتی اور جبری وطن واپسی کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگرچہ پناہ گزینوں کو جبری وطن واپس نہ بھیجنے کے مسلمہ اصول (نان ریفاؤلمنٹ) کے ضمن میں ممالک کی ذمہ داریوں کی تشریح کے حوالے سے اُن کے دائرہ اختیارات مختلف ہیں، مگر ہیومن رائٹس واچ کا خیال ہے کہ یہ اصول تشدد اور غیرمعمولی حالات سے جنم لینے والے جان لیوا خطرات اور جسمانی وقار پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ افغانوں کی میزبانی کرنے والی ریاستوں کو ایسے ضوابط اپنانے کی ضرورت ہے جو بچوں کو ان کے خاندانوں سے علیحدہ ہونے سے بچائے اور خاندان کے سراغ رسانی اور خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے دوبارہ ملانے میں مدد کریں۔
- کن حکومتوں نے افغانوں کو بطورِ مہاجرین پناہ دینے کا عہد کیا ہے؟
کئی حکومتوں نے افغانستان سے مہاجرین کی نوآبادکاری کا عہد کیا ہے:
- کینیڈا نے بیس ہزار تک غیرمحفوظ افغانوں بشمول عورتوں، رہنماؤں، ایل جی بی ٹی افراد، صحافیوں اور ایسے لوگوں کی نوآبادکاری کا عہد کیا ہے جنہوں نے کینیڈین صحافیوں کی مدد کی تھی اور انسانی حقوق کے اُن کارکنان کی نوآبادکاری کا بھی جو پہلے سے ہی ملک سے باہر ہیں اور جو کسی تیسرے ملک میں پائیدار حل سے محروم ہیں۔
- برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ پہلے سال میں پانچ ہزار غیرمحفوظ افغانوں کو قبول کرے گا، اور طویل مدت کے ضمن میں زيادہ سے زیادہ بیس ہزار کو اور یہ کہ وہ عورتوں، لڑکیوں، بچوں اور طالبان کے ہاتھوں مظالم کے خطرے سے دوچار لوگوں کی نوآبادکاری کو ترجیح دے گا۔
- آسٹریلوی حکومت نے موجودہ سالانہ 13,750 مہاجرین میں تین ہزار افغان مہاجرین کی جگہ رکھی ہے۔
- میکسیکو نے 100 صحافیوں اور عورتوں کی فاتح روبوٹکس ٹیم کے اراکین کی نوآبادکاری کا عہد کیا ہے۔
- کوسٹا ریکا نے اعلان کیا تھا کہ وہ افغانستان سے عورتوں اور لڑکیوں کو خوش آمدید کہے گا اور یہ کہ اقوامِ متحدہ آبادی فنڈ سے منسلک عورتوں کا ایک گروپ پہلے سے ملک میں آ چکا ہے۔
- امریکہ نے افغان مہاجرین کی نوآبادکاری کے لیے ابھی تک کوئی عہد نہیں کیا مگر اس نے امریکی ذرائع ابلاغ یا غیرسرکاری تنظیموں کے ساتھ یا امریکی حکومت کی مالی معاونت سے چلنے والے پروگراموں میں کام کرنے والے کچھ افغانوں کو اُن کی مہاجرین کی درخواستوں کے ضمن میں ترجیح 2 (پی 2) طریقہ کار کی پیشکش کی ہے۔ مالی سال 2021 جو 30 ستمبر کو ختم ہوتا ہے، میں دنیا بھر سے مہاجرین کو قبول کرنے کی امریکی حکومت کی حد 62,500 ہے۔ 31 جولائی تک اس سال کے پروگرام میں صرف 494 افغانوں کا داخلہ ہوا ہوا تھا۔
اِس وقت تک، اگرچہ تھوڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو یورپی یونین کے ممالک تک رسائی دی گئی ہے، مثال کے طور پر، آئرلینڈ نے اعلان کیا تھا کہ اس نے اپنے مہاجر تحفظ پروگرام میں 150 افغانوں کی جگہ رکھی ہے، مگر ای یو نے افغان مہاجرین کی نوآبادکاری کے لیے کوئی عہد نہیں کیا۔ اس کی بجائے یورپی کونسل نے 31 اگست کو کہا تھا کہ وہ پہلے سے بہت زيادہ مہاجرین کی میزبانی کرنے والے افغانستان کے ہمسایہ ممالک سے تعاون کرنے کے خواہاں ہیں تاکہ ''علاقے سے غیرقانونی ہجرت کو روکا جا سکے، سرحدوں کے بندوبست کی صلاحیت کو مستحکم کیا جائے اور مہاجرین کی اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔'' کونسل کا مزید کہنا تھا کہ ''جہاں کہیں قانونی شرائط پوری ہوں وہاں ای یو اور بعض ٹرانزٹ ممالک کے درمیان دوبارہ داخلے کے معاہدوں میں تیسرے ملک کی قومی دفعات کو استعمال کیا جائے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ای یو رکن ممالک کو پناہ کے درخواست گزار افغانوں کو اُس تیسرے ملک بھیجا جا سکے گا جس سے وہ وہ ای یو میں داخل ہوئے ہوں گے۔
یو این ایچ سی آر نے کہا ہے '' تاہم، انخلا کے دوطرفہ پروگرام کسی فوری اور وسیع تر عالمی انسانی ردِعمل کی اہمیت کم نہیں کر سکتے یا اس کا متبادل نہیں ہو سکتے۔'' یواین ایجنسی برائے مہاجرین کو اور زیادہ مہاجرین کو قبول کرنے کی کاوشوں کو مربوط بنانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے کام میں قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ پناہ کے خواہشمند زيادہ تر افغان ہمسایہ ممالک اور ترکی میں رہیں گے، مگر قدرے زیادہ خوشحال مغربی حکومتوں کی افغانوں کو بطورِ مہاجرین خوش آمدید کہنے میں ناکامی صفِ اول کے ممالک کی رضامندی کو بھی کمزور کر رہی ہے۔ ڈونرممالک کو افغانستان کے ہمسایہ ممالک اور ترکی میں خدمات اور معاونت کے لیے مالی امداد کی فراہمی اور ذمہ داری کا بوجھ بانٹنے کا عہد کرنا چاہیے۔
فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، یورپی یونین افغانستان کے ہمسایہ ممالک بشمول ایران، پاکستان، تاجکستان اور اُزبکستان کے لیے 600 یورو ملین مختص کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ وہ افغانوں کی آمد سے جنم لینے والے اخراجات پورے کر سکیں، اور 300 یورو ملین ملک میں انسانی امداد کی مد میں، زيادہ تر عورتوں اور لڑکیوں اور دیگر غیرمحفوظ گروپوں کے لیے مختص کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ البتہ، یہ انتہائی ضروری امداد یورپ کی اپنی سرحدوں کے اندر افغان مہاجرین کی قبولیت سے انکار کے جواز کے طور پر استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
- ویزہ کے خواہشمند افغانوں کے لیے حکومتوں نے دیگر کونسے راستے تجاویز کیے ہیں؟
ویزہ کے لیے باضابطہ طریق ہائے کار افغانوں کے لیے موجود ہیں مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ اُن کے لیے سفر کے لیے درکار دستاویزہت کا حصول ناقابلِ یقین حد تک مشکل ہے۔ طالبان کی چیک پوسٹیں، قونصلیٹس کی بندش اور سیکیورٹی کے تناظر میں دستاویزات کی تباہی ایسے عوامل ہیں جنہوں نے افغانوں کے لیے ویزہ کے حصول کے روائتی طریقے مشکل بنا دیے ہیں۔ مگر ہجرت کے خواہاں اب بھی دیگر ممالک میں داخلے کا قانونی حق لینے کے لیے ان راستوں کا انتخاب کر سکتے ہیں جن میں تعلیم کا ویزہ، فنکاروں کا ویزہ، دانشوروں کے دورے کا ویزہ، اور خاندان کے دوبارہ میلاپ کے پروگرام شامل ہیں،
کچھ حکومتوں نے خاص طور پر افغانوں کے لیے نئے یا ہنگامی ویزے کا اعلان کیا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان نے افغانستان چھوڑنے کے خواہشمند صحافیوں اور میڈيا ورکرز کو ویزوں کی پیشکش کی ہے۔ ہندوستان نے تمام افغانوں کے لیے ایک ہنگامی ویزہ درخواست کا نظام فراہم کیا ہے جس کی بدولت ماضی میں جاری کیے گئے ویزے رد کیے گئے۔ کینیڈا کا خصوصی پروگرام اُن افراد پر توجہ مرکوز کرتا ہے جنہوں نے بطورِ مترجم کام کیا یا ملک سے باہر سفارت خانے کے ملازمین طور پر کرتے رہے۔ یو کے نے موجودہ اور سابقہ مقامی ملازمین کے لیے نوآبادکاری معاونت کی پیشکش کی ہے۔ اُنہیں بھی جنہیں کارروائیوں میں کمی کی بدولت اپنی ملازمتیں کھونا پڑیں۔
جنوبی کوریا نے ایسے سینکڑوں افغانوں کو 'خصوصی میرٹ'' کا درجہ دے کرافغانستان سے نکالا اور اُن کی نوآبادکاری کی جنہوں نے افغانستان میں جنوبی کوریا کے لیے کام کیا تھا۔ جرمن حکومت نے ایسے افراد اور اُن کے خاندان کو جرمنی میں رہائش دینے کا ایک پروگرام شروع کیا ہے جو 2013 سے جرمن وزارتوں، ترقیاتی ایجنسیوں اور فوج کے مقامی عملے کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔
دیگر کیسز میں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جرمنی میں رہائش کے حصول کے معاملے میں صحافیوں، انسانی حقوق کے دفاع کاروں اور حزبِ مخالف کے اراکین سمیت غیرمحفوظ افراد کی مدد کی جائے گی۔ برلن کے اندازے کے مطابق، ہزاروں ایسے افراد جرمنی میں رہائیش کے اہل ہیں جو ابھی بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ اُسے قطعی تعداد معلوم نہیں۔ بیک وقت، یورپی کونسل نے کہا ہے کہ اُن کی توجہ '' بڑے پیمانے پر بے قابو غیرقانونی ہجرت کی روک تھام ہو گی جس کا اُنہیں ماضی میں سامنا کرنا پڑا ہے۔''
یوکے نے تسلیم کیا ہے کہ عام امیگریشن ضوابط سے ہٹ کر ہمدردی کی بنیاد پر پناہ کی درخواست دائر کرنے کا طریقہ کار موجود ہے۔ یوکے کو اہلیت کا زمرہ 5 شامل کرنے کے لیے افغان نوآبادکاری و امدادی پالیسی کو باضابطہ طور پر توسیع دینی چاہیے تاکہ اہلیت کا زمرہ 5 اس کا حصہ بن سکے اور یوں طالبان کے ظلم و ستم کے خطرے سے دوچار تمام افراد اس میں شامل ہو سکیں۔ اس طرح کے پروگراموں کی توسیع سے اور زیادہ یقینی صورتحال جنم لے گی اور نافذالعمل اسکیم اور معیار میں اور زیادہ شفافیت پیدا ہو گی۔
امریکی اسپیشل امیگریشن ویزہ (ایس آئی وی) اُن لوگوں کے لیے متعارف ہوا جنہوں نے ماضی میں امریکی فوج یا حکومت کے ساتھ کام کیا تھا۔ امریکی قانون کے تحت، ہیومینیٹیرین پیرول ایک متبادل ہے جس کی بدولت کچھ پناہ گزین عارضی طور پر ملک میں داخل ہو سکتے ہیں اور پھر پناہ کی درخواست دائر کر سکتے یا ویزہ کی دیگر درخواستیں مکمل کر سکتے ہیں۔ 23 اگست کو، امریکی محکمہ برائے ہوم لینڈ سیکیورٹی نے اعلان کیا تھا کہ '' یہ ہر ایک انفرادی کیس کی بنیاد پر بعض افغانوں کو دو برس کے لیے امریکہ میں آزادی دے گا اور اس مدت میں بعدازاں غوروفکر کے بعد توسیع ہو سکتی ہے بشرطیکہ امریکہ میں ان کی منتقلی آپریشن الائیز ریفیوج (اگست 2021 میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے 125,000 افراد کے انخلاء)۔'' کی مطابقت میں ہوئی ہو۔'' امریکی حکومت کو اپنی پالیسیوں میں ضروری ردوبدل کرنا ہو گا تاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امریکہ داخل ہونے کی اجازت پانے والے افغانوں کو خودبخود کام کرنے کی اجازت مل جائے اور اُنہیں سماج میں گھل مل جانے اور روزگار پانے کے مواقع مل سکیں۔
افغانوں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے پرغوروفکر کرنے والے ممالک کو یہ اجازت صرف سیکیورٹی اہلکاروں یا مترجموں تک محدود نہیں کرنی چاہیے جنہوں نے امریکہ اور اتحادی افواج کے ساتھ کام کیا ہے بلکہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہونے چاہییں جو اپنی سرگرمیوں، عقائد، یا شناخت کی بدولت طالبان حکومت کے تحت ظلم و ستم یا ایذارسانی، غیرانسانی یا ذلت آمیز سلوک یا اپنی زندگیوں یا جسمانی وقار کو دیگر سنگین خطرات کی وجہ سے ملک سے فرار ہوئے ہیں۔ ای یو، امریکہ اور دیگر حکومتوں کو توسیع شدہ ویزوں، ویزہ سے استثنیٰ جیسے طریق ہائے کار کے ذریعے افغانوں کی میزبانی اور مستقل نوآبادکاری کے عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور افغانوں کی مدد کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ وہ اُن ممالک میں محفوظ طریقے سے پہنچ جائیں۔
- حکومتوں نے کچھ افغانوں کو تیسرے ممالک کیوں بھیج دیا ہے؟
امریکی قیادت میں افغانستان سے لوگوں کو نکالنے کے لیے کابل کے ہوائی اڈے سے ہونے والی فضائی کاروائی کے ذریعے افغانستان سے نکالے جانے والے لوگوں کو دیگر ممالک میں'' پراسیسنگ اسٹیشنز'' پر چھوڑا گیا ہے جن میں البانیہ، کوسووو، شمالی مقدونیا، کولمبیا، ایکوا ڈور، کمبوڈیا اور يوگنڈا شامل ہیں۔ بعض کیسز میں، نکالے گئے لوگوں کی جلدازجلد جانچ پرکھ کے لیے قطر، جرمنی، اسپین، کویت اور اٹلی میں امریکی یا مشترکہ فوجی اڈوں پر چھوڑا گیا ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے نکالے جانے والے افغانوں کو رسمی کارروائی مکمل کرنے کے لیے زیادہ تر اسپین میں چھوڑا گیا ہے۔ امریکی حکومت ان مقامات پر افغانوں کو اس لیے رکھ رہی ہے تاکہ اس دوران نوآبادکاری کے ضمن میں ضروری کاغذی کارروائی یا ویزہ کی درخواستیں مکمل ہوجائیں بشمول پس منظر کی جانچ پڑتال اور سیکیورٹی کے معائنے۔ یہ واضح نہیں کہ یہ افغان اِن ممالک میں جانے جو اُنہیں مسقتل طور پر آباد کرنے کے لیے رضامند ہیں سے پہلے کتنا عرصہ تیسرے ممالک میں رہیں گے۔
ہیومن رائٹس واچ نے ماضی میں، پناہ گزینوں کو آفشور پراسسنگ مقامات پر بھیجے جانے کے عمل پر تنقید کی ہے، مثال کے طور پر آسٹریلیا کی طرف سے نائورو کا استعمال، کیونکہ ان پالیسیوں نے پناہ گزینوں کو ملک میں داخل ہونے سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا ہے اور پناہ گزینوں کو ٹرانزٹ ممالک میں پھنسوا دیا ہے، جو وہاں اکثر من مانی حراست اور اپنے دیگر انسانی حقوق کی پامالیوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ البتہ، موجودہ وقت میں تیسرے ممالک کے استعمال نے افغان فضائی انخلاء کے عمل کو تیز کیا ہے جبکہ اس دوران امریکہ سمیت دیگر ممالک میں نوآبادکاری کے وعدے کیے جا رہے ہیں۔
افغانستان سے نکالے گئے لوگوں کو امریکی فوجی اڈوں یا دیگر سرکاری مراکز میں رکھنا مناسب ہو سکتا ہے اگر یہ محدود وقت کے لیے ہو اور اُس دوران اُن کے انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے۔ اِن پراسسنگ اسٹیشنز پر رکھے گئے افغانوں کو کوویڈ 19 کی پابندیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے نقل و حرکت کی آزادی دی جائے، صحت کی سہولیات، مناسب خوراک، پانی اور رہائش تک رسائی دی جائے۔ دوحا، قطر میں ہوائی اڈے پر گنجائش سے کہیں زیادہ لوگوں کی موجودگی اور حفظانِ صحت کے ناقص انتظامات نے سنگین تحفظات کو جنم دیا ہے۔
- حکومتوں کو اپنے ملک میں مقیم افغانوں کے حوالے سے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے؟
تمام حکومتوں کو اپنے ملک میں مقیم افغانوں کے رہائشی درجے کو توسیع دینی چاہیے تاکہ وہ ملک بدری یا حراست کے خوف سے آزاد ہو کر وہاں رہ سکیں۔ یواین ایچ سی آر کی 16 اگست کی غیرواپسی ہدایت کی رُو سے کسی ملک کو اِس وقت لوگوں کو افغانستان واپس نہیں بھیجنا چاہیے۔ امریکی حکومت کو افغانستان کو ایک ایسے ملک کا درجہ دینا چاہیے جس سے عارضی حفاظتی درجے تک رسائی میں آسانی پیدا ہو سکتی ہو تاکہ امریکہ میں پہلے سے مقیم افغانوں کو قانونی طور پر کام کرنے کی اجازت ملے اور اُنہیں امیگریشن کے نفاذ اور حراست سے استثنی ملے چاہے وہ اپنے ویزوں کی مدت مکمل ہونے کے بعد ہی کیوں نہ رہ رہے ہوں۔ ای یو کو افغانوں کے لیے عارضی حفاظتی ہدایت کا اطلاق کرنا چاہیے تاکہ وہ کام اور تعلیم کے حق کے ساتھ تین سال تک قیام کر سکیں۔ کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ وہ اُن افغانوں کی عارضی رہائش کو توسیع دینے کی درخواستوں کو ترجیح دے گا جو وِزٹرز، طالبعلم، یا عارضی مزدور کی حیثیت سے پہلے سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔
عالمی پناہ گزین قانون نان ریفاؤلمنٹ کے اصول پر مبنی ہے جو لوگوں کو ایسے حالات میں واپس کرنے کی ممانعت کرتا ہے جہاں وہ ظلم، ایذارسانی، یا دیگر تشویش ناک نقصان سے دوچار ہو سکتے ہوں۔ کسی بھی ملک کی سرحد یا داخلے کے کسی دوسرے مقام پر موجود افغان پناہ گزينوں کو اُس وقت تک واپس نہ بھیجا جائے جبتکہ کہ اُن کے دعوے کی مکمل اور منصفانہ طریقہ کار کے تحت جانچ پرکھ نہ ہو جائے۔
کوئی بھی فرد جو پناہ کی خواہش ظاہر کرے یا افغانستان واپسی پر اپنی سلامتی کے متعلق خوف کا اظہار کرے اُسے پناہ کے حصول کا موقع دیا جائے قطع نظر اُس کے کہ اُن کے نام کی باضابطہ درخواست دائر ہوئی ہے کہ نہیں یا لاحق خوف کا اظہار کس طرح کیا گیا تھا۔ پناہ کے درخواست گزاروں کو کم از کم عارضی حفاظت کا درجہ ضرور دیا جائے تاکہ یہ امر یقینی ہو جائے کہ اُنہیں ملک بدر نہیں کیا جائے گا اور کام کی اجازت مل جائے گی۔
تمام ممالک کو ملک بدری پر عارضی پابندی عائد کرنی چاہیے اور پناہ کے خواہشمند جن افغانوں کی درخواستیں ماضی میں مسترد ہو چکی ہیں اُنہیں بدلتے حالات کے پیشِ نظر دوبارہ اپنا مؤقف دوبارہ پیش کرنے کا موقع دیا جائے۔ ای یو کے زيادہ تر ممالک نے افغانوں کی واپسی پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔ جاپان نے بھی کہا ہے کہ وہ افغانوں کو ملک بدر نہيں کرے گا، کم از کم اِس وقت۔ اِس کے برعکس، ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ طالبان سے یقین دہانیاں ملنے کے بعد اُزبکستان افغانوں کو واپس افغانستان بھیج رہا ہے۔
حکومتوں کو اُن افغانوں کی حالتِ زار کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جو دو ممالک کی سرحدوں کے درمیان بےیقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ درجنوں افغان پولینڈ اور بیلارس کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں اور یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے اُن لوگوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کا عارضی حکمنامہ جاری کیا ہے۔ ترکی، بذریعہ قانون کسی غیریورپی کو مہاجر تسلیم نہیں کرتا، مگر لگ بھگ 120,000 افغانوں کو نقل و حرکت، رہائش اور کام کے محدود مواقع کے ساتھ ''مشروط مہاجرین'' کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اندازے کے مطابق، اڑھائی لاکھ غیررجسٹرڈ افغان ترکی میں ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یورپی اور دیگر حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیرونی سرحدوڈ پر پناہ کے خواہشمند افغانوں کو پناہ کے طریق ہائے کار تک رسائی دیں اور اُنہیں ممالک کے درمیان بے یقینی کی صورتحال سے دوچار نہ کریں۔
- حکومتیں اور برادریاں نئے افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے اور آباد کرنے کے لیے کیا کر سکتی ہیں؟
افغان مہاجرین کو قبول کرنے والی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اُن کی میزبانی کرنے والی مقامی کمیونٹی گروپوں کی معاونت کے لیے مناسب فنڈز مختص کریں۔ مہاجرین کے لیے پروگراموں میں نفسیاتی (ذہنی صحت) ضروریات جیسے کہ نئے آنے والوں کی ضروریات بشمول جبری پرواز کا صدمہ اور ایسی خاص مشکلات کو مدِنظر رکھا جائے جو اُنہیں افغانستان چھوڑنے سے قبل اور بعد میں پیش آئی ہوں گی۔ میزبان ممالک کو مہاجر بچوں کو آمد کے تین ماہ کے اندر تعلیم دینے کا کام شروع کرنا ہو گا اور ان کے داخلے کی راہ میں ہر قسم کی مشکلات جیسے کہ دستاویزی شرائط کو دور کرنا ہو گا۔ ڈونر ممالک کو ہنگامی تعلیم کے لیے مناسب مالی امداد کا بندوبست کرنا چاہیے۔ جن کمسن بچوں کے ساتھ کوئی نہیں اُنہیں اُن کے اہلِ خانہ سے دوبارہ ملانے کے لیے مدد فراہم کی جائے۔
آسٹریلیا، برازیل، کمیرون، کنیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، نیپال، نیدرلینڈ، فلسطین، پُرتگال، سکاٹ لینڈ، سیرا لیون، سوئزلینڈ، یوگنڈا، یو کے اور امریکہ کے شہروں اور قصبوں کے مئیرز نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ قومی حکومتیں افغانوں کی ہجرت کے لیے قانونی راستے کھولیں، انخلاء کی مدد کریں، افغان مہاجرین کے سفر کو جرم قرار نہ دیں، افغانوں کو زبردستی اُن کے ملک واپس نہ بھیجیں، اور افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے والے شہروں کی مالی امداد کریں۔
امریکی حکومت کو ایمرجنسی ریفیوجی اینڈ مائگریشن اسسٹنس (ای آر ایم اے) کے اکاؤنٹ سے مناسب مالی امداد کا عہد کرنا ہو گا تاکہ امریکہ میں نئے آنے والے افغانوں کو خوش آمدید کہنے اور اُنہیں بسانے کے لیے افغان کمیونٹی تنظیموں اور باہمی امداد کی انجمنوں کی مؤثر طور پر مدد ہو سکے۔ ماضی ميں، شام، صومالیہ اور جنوبی سوڈان سے آنے والے مہاجرین اور اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے افراد کی معاونت کے لیے امریکی حکومت کو ای آر ایم اے کے فنڈز سے بہت زیادہ مدد ملی تھی۔ ای آر ایم اے فنڈنگ '' مہاجرین اور تارکینِ وطن کی غیرمتوقع فوری ضروریات'' کو پورا کرنے کے لیے مختص کی گئی ہے اور اسے اُس وقت صرف کیا جاتا ہے جب کبھی صدر کہیں کہ ایسا کرنا ''قومی مفاد کے لیے بہت ضروری'' ہے۔
حکومتوں کو چاہیے کہ وہ متعلقہ ممالک کے اجتماع کے لیے یواین ہائی کمشنر برائے مہاجرین سے جلدازجلد ایک ہنگامی اجلاس منعقد کرنے کا مطالبہ کریں تاکہ افغانوں، خاص طور پر انتہائی خطرات میں گھرے لوگوں اور اُن کے اہلِ خانہ کی نوآبادی کاری کے لیے مربوط منصوبہ بندی اور پاکستان، ایران اور ترکی سمیت اُن ممالک میں انسانی ضروریات کے لیے مالی امداد کے بندوبست پر بحث ہو سکے جہاں افغانوں کی زیادہ تعداد منتقل ہوئی ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وون ڈر لئین نے کہا ہے کہ یورپی کمیشن یورپی یونین کی اُن ریاستوں کی مالی امداد کے لیے تیار ہے جو افغان مہاجرین کو قبول اور آباد کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ ستمبر میں۔ ای یو کمشنر داخلہ امور 'بڑے پیمانے کی نوآباکاری فورم'' کی میزبانی کریں گے تاکہ ''انتہائی غیرمحفوظ'' افغانوں خاص طور پر عورتوں، بچوں، انسانی حقوق کے کارکنان، صحافیوں اور وکیلوں کے لیے ''پائیدار حل'' کی نشاندہی ہو سکے۔