(نیویارک) ۔ ہیومن رائٹس واچ نے آج کہا ہے کہ افغانستان کے ڈونرز کو افغانوں کی انتہائی ضروری مدد کے لیے فوری قدم اٹھانا ہو گا جنہیں 15 اگست، 2021 کو طالبان کے قبضے کے بعد غربت اور شعبہ صحت کی تباہ حالی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اُنہیں تعلیم، بینکاری کے نظام اور ایسی دیگر بنیادی ضروریات کے حوالے سے بھی ایک مربوط حکمتِ عملی طے کرنی کی ضرورت ہے اور اِس عمل میں اُنہیں طالبان حکام کے تعاون کی بھی ضرورت ہے جن سے انسانی حقوق، خاص طور پر عورتوں و لڑکیوں کے حقوق خطرے سے دوچار ہیں۔
افغان حکومت کے بیشتر شعبے مالی امداد کے غیریقینی حالات کی وجہ سے غیرفعال ہیں جبکہ اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں اور غیرسرکاری تنظیموں کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد اور دیگر معاونت سلامتی سے متعلق مسائل، عملے کے انخلاء، بندشوں اور قانونی اعتبار سے غیریقینی صورتحال کے باعث بہت زیادہ محدود ہو گئی ہے۔ 31 اگست کو یواین کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں ''انسانی بحران منڈلا رہا ہے'' اور ڈونر حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر مدد کی فراہمی کے لیے''سرمائے کا بندوبست'' کریں۔ امریکہ اور یورپی یونین کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کو انسانی امداد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ایشیا ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین نے کہا کہ 'انسانی حقوق کے میدان میں طالبان کی بُری شہرت اور حال ہی میں مظالم سامنے آنے کی وجہ سے ڈونر حکومتوں کی جانب سے طالبان کے زیرِکنٹرول افغانستان کو امداد دینے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ قابلِ فہم ہے۔ تاہم،'' پہلے سے بگڑی صورتحال کو مزید گھمبیر ہونے سے بچانے کے لیے، ڈونرز فوری طور پر ایسی عالمی ایجنسیوں اور غیرسرکاری تنظیموں کی مدد پر متفق ہوں جو خوراک، صحت، اور تعلیم کے شعبوں میں ہنگامی مدد دے سکتی ہیں، اور طالبان کی شمولیت سے براہ راست امداد کا منصوبہ بھی بنائیں۔''
افغانستان معاشی تباہی سے دوچار ہے۔ خوراک اور دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی کی قیمیتیں بڑھ گئی ہیں، جبکہ زيادہ تر بینک بند ہیں اور اقوامِ متحدہ کے مطابق، لوگوں کی نقد رقم تک رسائی بہت کم ہے اور خوراک کی قلّت کا اندیشہ ہے۔ طالبان کے قبضے سے قبل، 30 فیصد ملک شدید غذائی عدمِ تحفظ سے دوچار تھا؛ اب یہ 40 فیصد سے زیادہ ہے۔ دسمبر 2020 میں، یواین چلڈرن فنڈ، یونیسیف نے کہا کہ افغانستان میں 5 سال سے کم عمر تقریباﹰ 70 لاکھ بچوں میں سے اندازاﹰ 31 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ ''پانچ سال سے کم عمر ہر 2 میں سے ایک بچے کو زندگی بچانے کے لیے غذائی قلّت کے علاج معالجے کی خدمات کی ضرورت ہے۔''
ڈونرز نے طالبان کے قبضے سے فوری قبل اور بعد میں افغانستان کی سرکاری تنظیموں اور اداروں کو عالمی امداد روک دی تھی۔ سنٹرل بینک افغانستان، جو اب طالبان کے کنٹرول میں ہے، کو بینکاری کے عالمی نظام سے منقطع کر دیا گیا ہے اور ملک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر تک اُس کی رسائی روک دی گئی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے بھی امریکی درخواست پر، افغانستان کے قرضوں اور اثاثوں پر پابندی لگا دی ہے بشمول 440 ملین امریکی ڈالر کی رقم کے جو بینک نے کوویڈ 19 وباء کے ردِعمل میں اسپشل ڈرائنگ رائٹس کی مد میں افغانستان کے لیے وقف کی تھی۔ یواین سلامتی کونسل کی سابقہ قراردادوں اور طالبان پر دہشت گردی سے متعلقہ دیگر پابندیوں کی وجہ سے سنٹرل بینک افغانستان یورپ میں چھپنے والی نئی کاغذی کرنسی کے حصول سے محروم ہے۔
طالبان پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی پچیدہ پابندیوں، نیز امریکہ، ای یو اور کئی حکومتوں کی پابندیوں پر نظرثانی ہونی چاہیے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ اُن پابندیوں کی وجہ سے غیرسرکاری تنظیموں کی طرف سے انسانی امداد کی فراہمی متاثر نہ ہو۔
تعلیمی نظام جس میں اِس وقت لگ بھگ 70 لاکھ طالبعلم درج ہیں جن میں سے 38 فیصد لڑکیاں ہیں، کے لیے غیرملکی مالی
امداد کا جاری رہنا ضروری ہے۔ غرسرکاری اداروں نے شعبہ تعلیم میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر وہ صرف ریاستی نظام سے باہر لاکھوں طالبعلموں کو تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔ طالبان کو مالی امداد دینے والی ڈونرحکومتیں اُن پر دباؤ ڈالیں کہ وہ تمام اسکولوں کو چلنے دیں، نیز کسی قسم کے خوف یا دھمکیوں کے بغیر تمام سطحوں پر لڑکیوں اور عورتوں کو تعلیمی اداروں میں جانے کی اجازت دیں۔
شعبہ صحت میں، غیرسرکاری تنظیموں کا بنیادی کام حکومت کے ایماء پر خدمات کی فراہمی ہے۔ وہ ریاستی نظام کی جگہ نہیں لے سکتیں جو اُس عالمی مالیاتی امداد پر منحصر ہے جوصوبوں میں تنظیموں کو منتقل ہونے سے قبل عالمی بنیک کی قیادت میں حکومت کو ملتی ہے۔ طالبان کو چاہیے کہ وہ اس نظام کو چلنے دیں اور خدمات کی فراہمی میں امتیاز نہ برتنے کا عہد کریں۔
'' افغانستان اِس وقت ایسے معاشی بحران سے دوچار ہے جو کروڑوں افغانوں کی بنیادی ضروریات کو متاثر کر رہا ہے''، گوسمین نے کہا۔ '' ڈونرز شدید ضرورت مند افغانوں کو ہنگامی امداد کی فراہمی کے مشکل ہدف کو حاصل کرنے کے لیے فوری اقدام کریں، نیز اِس دوران یہ بھی یقینی بنائیں کہ اُن کے اقدامات سے طالبان کے مظالم کو کسی قسم کی معاونت نہ ملے۔''