(نیو یارک) - ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان حکام نے 15 اگست 2021 کو افغانستان پر قبضے کے بعد سے عورتوں و لڑکیوں کے حقوق اور ذرائع ابلاغ پر اپنی پابندیوں میں مزید سختی برتی ہے۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران، طالبان حکام نے عورتوں اور لڑکیوں کو اُن کا تعلیم، ملازمت، نقل و حرکت اور اجتماع کا حق استعال نہیں کرنے دیا۔ طالبان نے ذرائع ابلاغ اور معلومات تک رسائی پر وسیع تر پابندیاں عائد کیں، اور صحافیوں و ناقدین کی گرفتاریوں کا دائرہ بڑھایا ہے۔
افغانستان دنیا کے بدترین بحرانوں سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے جہاں دو کروڑ، اسّی لاکھ افراد، دو تہائی آبادی کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری مدد کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پانچ برس سے کم عمر بتیس لاکھ بچوں سمیت چالیس لاکھ لوگ شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
افغانستان کے لیے ہیومن رائٹس واچ کے محقّق فرشتہ عباسی نے کہا کہ '' طالبان کے دورِ حکومت میں افغانستان میں لوگ انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کے حوالے سے ڈراؤنا خواب دیکھ رہے ہیں۔ طالبان کی قیادت کو اپنےظالمانہ ضابطے اور پالیسیاں فی الفور ترک کرنے کی ضرورت ہے، اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ موجودہ بحرانوں کے لیے طالبان کو جوابدہ ٹھہرائے۔''
کئی دہائیوں کی جنگ، انتہائی سخت موسمی واقعات اور وسیع تر بے روزگاری کے علاوہ، طالبان کے قبضے کے بعد سے غدائی عدمِ تحفظ کے بنیادی اسباب عورتوں اور لڑکیوں پر سخت پابندیاں ہیں۔ اس کا نتیجہ کئی ملازمتوں کے خاتمے، اور خاص طور پر کئی عورتوں کی ملازمتوں کے خاتمے، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے والی تنظیموں ، ماسوائے چند شعبوں کے، میں عورتوں کے کام پر پابندی کی صورت میں نکلا۔ عورتیں اور لڑکیاں ثانونی اور اعلیٰ تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔
24 دسمبر 2022 کو طالبان نے شعبہ صحت، خوراک اور تعلیم کے سوا اقوامِ متحدہ کے اداروں سمیت تمام مقامی و عالمی غیر سرکاری تنظیموں میں عورتوں کے کام کرنے پر پابندی کا اعلان کیا۔ طالبان حکومت کے اس اقدام سے عورتوں کے ذرائع آمدن بُری طرح متاثر ہوئے، کیونکہ اگر عورتیں تقسیم و نگرانی کے عمل میں شریک نہیں تو یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ آیا وہ امداد وصول کر رہی ہیں کہ نہیں۔ اس بحران نے عورتوں اور لڑکیوں کو شدید نقصان پہنچایا جو پہلے ہی خوراک، صحت کی دیکھ بھال اور رہائش تک رسائی میں مردوں سے زیادہ مشکلات سے دوچار تھیں۔
عباسی کا کہنا تھا کہ ''طالبان کی عورت دشمن پالیسیوں نے عورتوں کے بنیادی حقوق کو مکمل طور پر پس پشت ڈال دیا ہے۔ '' اُن کی پالیسیوں اور پابندیوں نے نا صرف اُن افغان عورتوں کو متاثر کیا جو سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی دفاع کار ہیں بلکہ معمول کی زندگی بسر کرنے والی عام عورتوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ''
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ ڈونر ممالک کو ایسے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے وہ طالبان کی عورتوں کے خلاف ظالمانہ پالیسیوں کو تقویت دیے بغیر حالیہ انسانی بحران میں کمی لا سکیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ بشمول عالمی ذرائع ابلاغ کی نشریات پر طالبان کی سخت پابندیوں نے افغانستان میں معلومات کی رسائی کو متاثر کیا ہے۔ ملک میں موجود کوئی بھی فرد بے جا گرفتاری اور حراست کے خوف کے بغیر اہم معلومات فراہم نہیں کر سکتا۔
طالبان سیکیورٹی فورسز نے سابق سیکیورٹی افسران اور مسلح مزاحمتی گروہوں کے اراکین اور حامیوں کی بے جا گرفتاری، حراستوں، ان پر تشدد اور فی الفور قتل کا سلسلہ جاری رکھا۔ طالبان کے دورِ حکومت سے، دولتِ اسلامیہ (آئی ایس آئی ایس) کی افغان شاخ دولتِ اسلامیہ خراسان نے اسکولوں اور مساجد پر کئی حملے کیے ہیں جن میں سے زيادہ تر حملے ہزارہ شیعہ برادری پر کیے گئے جنہیں ریاست کا تحفظ حاصل نہیں اور نا ہی اُنہیں طبی دیکھ بھال یا دیگر قسم کی مدد حاصل ہے۔
ملک چھوڑ کر پاکستان، متحدہ عرب امارات، ایران اور ترکی سمیت دیگر ممالک جانے والے ہزاروں افغان بے یقینی کی صورتِ حال سے دوچار ہیں، اور اُن میں سے کئی بہت برے حالات میں رہ رہے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ روابط رکھنے والی حکومتیں یہ یقینی بنانے کی ذمہ دار ہیں کہ ظلم و زيادتی یا نقصان کے خطرے سے دوچار افغانوں کو قانونی اور حفاظتی بندوبست تک بامعنی رسائی ہو۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ حکومتوں کو اپنے وعدے نبھانا ہوں گے اور خطرے میں گھرے ان گروہوں کو دوبارہ آباد کرنا ہو گا۔
''عباسی نے کہا کہ ''افغانستان کے بہت بڑے انسانی بحران پر طالبان نے اپنے ردِعمل میں عورتوں کے حقوق اور ہر قسم کے اختلافِ رائے کو اور زيادہ سلب کیا ہے۔ '' طالبان کے ساتھ مل کر کسی قسم کی سرگرمیاں کرنے والی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ طالبان پر اپنی روش بدلنے اور تمام افغانوں کے بنیادی حقوق بحال کرنے پر زور ڈالیں اور اِس کے ساتھ ساتھ افغان عوام کو ضروری امداد پہنچائیں۔