(جکارتہ)۔ ہیومن رائٹس واچ نے آج جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ انڈونیشیا میں عورتوں اور لڑکیوں کے لیے لباس کے ضوابط طالبات، خواتین سول سرونٹس اور سرکاری دفتروں میں آنے والے ملاقاتیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔ حکومت کو فروری 2021 کا حکمنامہ مکمل طور پر لاگو کرنا چاہیے جس کی رࣳو سے انڈونیشیا کے ریاستی اسکولوں میں طالبات اور خواتین اساتذہ کے لیے لباس کے ظالمانہ ضوابط پر پابندی عائد ہے۔ اور عورتوں و لڑکیوں کے خلاف امتیاز کے خاتمے کے لیے اضافی قانونی اقدامات بھی ضروری ہیں۔
98 صفحاتی رپورٹ ''میں بھاگنا چاہتی ہوں': انڈونیشیا میں عورتوں اور لڑکیوں کے لیے لباس کے ظالمانہ ضوابط''، میں اࣳن سرکاری ضوابط کو قلمبند کیا گیا جو لڑکیوں اور عورتوں سے جلباب پہننے کا تقاضا کرتے ہیں۔ جلباب ایک ایسا مسلم لباس ہے جو سر، گردن اور چھاتی ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے لباس سے متعلق امتیازی ضوابط کے اطلاق کا تاریخی جائزہ لیا ہے اور حجاب کے لیے دی گئی وسیع تر دھونس و دھمکیوں کا ذکر کیا ہے جو لڑکیوں اور عورتوں کو نفسیاتی دباؤ میں مبتلا کرتی ہیں۔ پاسداری نہ کرنے والی لڑکیوں کو اسکول چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے، یا دباؤ کی وجہ سے وہ خود ہی اسکول جانا چھوڑ دیتی ہیں، جبکہ خواتین سول سرونٹس اپنی ملازمت سے محروم ہو جاتی ہیں یا پھر ضوابط کی پاسداری کے لگاتار مطالبات سے بچنے کے لیے مستعفی ہو جاتی ہیں۔
آسٹریلیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر ایلن پیرسن نے کہا ہے،''انڈونیشی ضوابط اور پالیسیاں طویل عرصہ سے اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں عورتوں اور لڑکیوں کے لیے لباس کے امتیازی ضوابط لاگو کر کے مذہبی عقائد کے معاملے میں جبر سے آزادی کے حق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہی ہیں۔ ''انڈونیشیا کی قومی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کو ان امتیازی اقدامات کو فی الفور ترک کر کے لڑکیوں کو یہ آزادی دینی ہو گی کہ وہ اپنی تعلیم یا روزگار کے حق کی قربانی دیے بغیر اپنی مرضی سے اپنے لباس کا انتخاب کر سکیں۔
پڑانگ، مغربی سوماترہ میں ثانوی اسکول کی ایک طالبہ کے والد کی شکایت سوشل میڈیا پر عام ہونے کے بعد، وزیرؚ تعلیم و ثقافت ندیم مکرم، وزیرؚداخلہ ٹیٹو کارناویان اور وزیرؚمذہبی امور یاقوت چولیل قوماس نے 3 فروری کو ایک حکمنامے پر دستحظ کیے جس کی رࣳو سے اسکول میں کسی بھی طالبعلم یا استاد کو 'مذہبی نشانات''، کے ساتھ یا بغیر اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت ہے۔ مکرم کا کہنا تھا کہ ریاستی اسکولوں نے وردی سے متعلق 2014 کے ضابطے کی ''غلط تشریح'' کی تھی۔ قوماس نے کہا کہ پڑانگ کا واقعہ ''بہت بڑے مسئلے کا چھوٹا سا حصّہ ہے''، اور یہ کہ جلبات ضابطہ اسکول کی لڑکیوں کے ساتھ امتیاز برتنے، انہیں ڈرانے دھمکانے اور ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔''
ہیومن رائٹس واچ نے ایسے کئی واقعات قلمبند کیے ہیں جن میں مسیحی اور دیگر غیرمسلم طالبات کو جلباب پہننے پر مجبور کیا گیا۔ جلباب کے ساتھ عموماً ایک لمبے لہنگے اور مکمل بازوؤں والی لمبی قمیض پہنی جاتی ہے۔ انگریزی میں، سر ڈھانپنے والے لباس کو عام فہم زبان میں حجاب کہتے ہیں۔
2001 کے بعد سے مقامی حکام نے 60 سے زائد مقامی و صوبائی حکمنامے صادر کیے ہیں جن کا مقصد بقول ان کے ''مسلم لڑکیوں اور عورتوں کے لیے اسلامی لباس'' لاگو کرنا ہے۔ انڈونیشیا کے لگ بھگ 300,000 ریاستی اسکول، خاص طور پر 24 مسلم اکثریتی صوبوں میں، پرائمری اسکول کی سطح سے ہی مسلم لڑکیوں سے جلباب پہننے کا تقاضا کرتے ہیں۔
''جب کبھی بھی مذہبی موضوع کی کلاس ہوتی، اور جب کبھی اس کا استاد اس کی طرف رجوع ہوتا، وہ کہتا کہ اس نے حجاب کیوں نہیں پہنا''، یوگیاکارٹا میں ایک اسکول طالبہ کی والدہ نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا۔ ''حتیٰ کہ وہ کہتا، 'کیا تم کل پہنو گی؟' میری بیٹی صرف یہ کہتی 'ہاں، ٹھیک ہے۔' مگر جوں ہی وہ گھر آتی، وہ مجھے اپنی بےاطمینانی کے بارے میں بتاتی، 'والدہ، وہ اس طرح کیوں ہیں؟'''
2014 میں وزارتؚ تعلیم و ثقافت نے ریاستی اسکولوں کے لیے وردی متعارف کروائی جس میں ایک تصویر کے ذریعے،''ایک لمبا لہنگا اور لمبی آستین کی قمیض اور جلباب پر مشتمل مسلم لباس'' دکھایا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ مسلمان لڑکیاں صرف اسی لباس کا انتخاب کر سکتی ہیں۔ اس سے مقامی تعلیمی دفاتر کو نئے ضابطے متعارف کرنے کی ترغیب ملی اور نتیجتاً پرائمری سے لے کر ہائی اسکول تک ہزاروں ریاستی اسکولوں کو مسلمان لڑکیوں سے جلباب کا تقاضا کرنے کے لیے اسکول وردی کی پالیسیاں دوبارہ مرتب کرنی پڑیں۔
2014 کے ضابطے پر دستخط کرنے والے وزیرؚ تعلیم محمد نوح نے رپورٹ کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ ضابطے نے دو وردیاں متعارف کروائی تھیں: ایک لمبی آستین والی قمیض، لمبا لہنگا، اور جلباب؛ یا جلباب کے بغیر وردی۔ انہوں نے کہا، ''وہ ضابطہ میں نے تحریر کیا تھا۔ مگر اس کا اطلاق لازمی نہیں تھا۔'' انہوں نے کہا کہ ہر مسلمان عورت کو یہ فیصلہ کرنے کی آزادی ہونی چاہیے کہ آیا وہ جلباب پہنے گی یا نہیں۔ حالانکہ اسکولوں کے عہدیداروں نے تسلیم کیا تھا کہ ضابطہ قانونی لحاظ سے جلباب کا تقاضا نہیں کرتا مگر ضابطے کی موجودگی نے اسکولوں کو جلباب پہننے کے لیے لڑکیوں پر دباؤ ڈالنے کا موقع ضرور فراہم کیا تھا۔
نئے حکمنامے کی رࣳو سے مقامی حکومتیں اور اسکولوں کے پرنسپل 5 مارچ تک جلباب سے متعلق لازمی ضوابط منسوخ کرنے کے پابند تھے اور جو مقامی حکومتیں یا اسکول کے پرنسپل 25 مارچ تک پاسداری کرنے میں ناکام رہیں گے انہیں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیرؚ تعلیم حکمنامے کو نظرانداز کرنے والے اسکول کے فنڈز روک سکتے ہیں۔
حکمنامے کا اطلاق صرف ریاستی اسکولوں پر ہے جو مقامی حکومتوں اور وزارتؚ تعلیم و ثقافت کے ماتحت ہیں۔ یہ وزارتؚ مذہبی امور کے تحت آنے والے اسلامی ریاستی اسکولوں اور یونیورسٹیوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ صوبہ آچے بھی اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے کیونکہ اسے خصوصی بندوبست کے ذریعے دیگر صوبوں سے زيادہ خودمختاری حاصل ہے اور وہ وہ واحد صوبہ ہے جہاں باقاعدہ سرکاری سطح پر شریعہ یا اسلامی قانون نافذ ہے۔
رپورٹ کے ایک ضمیمے میں لباس سے متعلق لازمی مذہبی ضوابط کا ذکر ہے جو آجکل روس کے علاقے چچنیا، فرانس، جرمنی، ایران، سعودی عرب، دولتؚ اسلامیہ کے زیرؚکنٹرول شامی علاقوں، ترکی اور چین کے علاقے شنجیانگ میں رائج ہیں۔
انسانی حقوق کا عالمی قانون فرد کو کسی قسم کے امتیاز کے بغیر اپنے مذہبی عقائد کے آزادانہ اظہار، اظہارؚ رائے اور تعلیم کا حق فراہم کرتا ہے۔ عورتوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔ ان میں اپنی مرضی کا لباس پہننے کا حق بھی شامل ہے۔ ان حقوق پر کسی قسم کی قدغنیں جائز مقصد کے لیے ہونی چاہییں اور ان کا اطلاق جائز اور غیرامتیازی انداز میں ہونا چاہییے۔ لازمی جلباب کے ضوابط بشمول وہ جو آچے میں نافذ ہیں، لڑکیوں اور عورتوں کو ''کسی بھی قسم کی وجوہ پر مبنی امتیازی سلوک سے'' آزادی کے آئینی حق کی پامالی کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔
''لباس سے متعلق انڈونیشی ضوابط صنفی مساوات، اور تعلیم، روزگار اور سماجی فوائد کے حقوق سے مستفید ہونے کی عورتوں و لڑکیوں کی استعداد پر قدامت پسند مذہبی طاقتوں کے وسیع تر حملوں کا حصہ ہیں''، پیرسن نے کہا۔ ''جوکوئی انتظامیہ کو ایک نئے فرمان کے ذریعے جلباب پہننے کی شرط ختم کر کے اسکول یا جائے ملازمت پر صنف کی بنیاد پر ہر قسم کے امتیازی ضوابط کے خاتمے کی جانب پیش رفت کرنی چاہیے۔''