Skip to main content

افغانستان: داعش گروپ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا رہا ہے

طالبان کو ہزارہ اور خطرے سے دوچار دیگر برادریوں کی حفاظت، مدد کرنے کی ضرورت ہے

لوگ اسکول پر ایک مہلک بم دھماکے کے دوسرے دن پھول رکھ رہے ہیں۔ کابل، افغانستان اتوار، 9 مئی 2021 © © اے پی فوٹو/ مریم زوہیب

(نیویارک) ہیومن رائٹس واچ نے آج کہا ہے کہ افغانستان میں دولتِ اسلامیہ (آئی ایس آئی ایس) کی ذیلی تنظیم دولتِ اسلامیہ خراسان صوبہ (آئی ایس کے پی) نے ہزارہ اور دیگر مذہبی اقلیتوں کی مساجد، اسکولوں اور کام کی جگہوں پر لگاتار حملے کیے ہیں، طالبان حکام نے ان برادریوں کو خودکش بم دھماکوں اور دیگر غیر قانونی حملوں سے بچانے یا متاثرین اور ان کے خاندانوں کی ضروری طبی دیکھ بھال اور دیگر مدد کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔

اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے، دولتِ اسلامیہ سے منسلک تنظیم نے ہزارہ برادری کے خلاف 13 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کم از کم 3 مزید حملوں میں ملوث ہے، جن میں کم از کم 700 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ذرائع ابلاغ پر طالبان کے بڑھتے ہوئے جبر، خاص طور پر صوبوں میں، کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کئی حملے رپورٹ ہی نہیں ہوئے ہوں گے۔ افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن (UNAMA) نے اطلاع دی ہے کہ کابل میں شیعہ اجتماعات پر گروپ کے حالیہ حملوں میں 120 سے زائد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

افغانستان میں ہیومن رائٹس واچ کے محقّق فرشتہ عباسی نے کہا، "طالبان کے قبضے کے بعد سے، داعش سے منسلک جنگجوؤں نے ہزارہ برادری کے افراد پر متعدد وحشیانہ حملے کیے ہیں جب وہ اسکول جاتے ہیں، کام کرنے جاتے ہیں، یا نماز پڑھنے جاتے ہیں، اور ان حملوں پر طالبان حکام کی جانب سے کوئی سنجیدہ ردِعمل سامنے نہیں آیا"۔ طالبان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خطرے سے دوچار برادریوں کی حفاظت کریں اور حملوں کے متاثرین اور ان کے خاندانوں کی مدد کریں۔"

ہزارہ بنیادی طور پر شیعہ مسلم نسلی گروہ ہے جنہیں ایک صدی سے زائد عرصے سے یکے بعد دیگرے بننے والی افغان حکومتوں کی طرف سے امتیازی سلوک اور بدسلوکی کا سامنا ہے۔ 1990 کی دہائی کے دوران، طالبان فورسز نے شیعہ کو بڑے پیمانے پر قتل اوردیگر سنگین زیادتیوں کا نشانہ بنایا۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد، ہزارہ اپنی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہیں اور یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ کیا نئے حکام ان کی حفاظت کریں گے۔ صوبہ بامیان میں ہزارہ برادری کے ایک رکن نے کہا، "طالبان نے ہزارہ کو کبھی پسند نہیں کیا۔" "پچھلی بار جب وہ اقتدار میں تھے، انہوں نے ہم میں سے بہت سے لوگوں کو مار ڈالا۔"

اکتوبر 2021 میں، طالبان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان، سعید خوستی نے کہا کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے: "ایک ذمہ دار حکومت کے طور پر، ہم افغانستان کے تمام شہریوں، خاص طور پر ملک کی مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔" تاہم، ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے صوبہ کابل، مزار شریف اور قندوز میں سیکیورٹی میں اضافہ نہیں کیا، جہاں جنوری 2022 سے جاری حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے محفوظ مواصلات کا استعمال کرتے ہوئے اپریل اور جولائی کے درمیان صوبہ کابل اور مزار میں حملوں میں بچ جانے والے 21 افراد اور متاثرین کے کے اہلِ خانہ کا دور دراز مقام سے انٹرویو کیا۔

دولتِ اسلامیہ کے گروپ نے 19 اپریل کو کابل کے مغربی محلے دشت برچی جو کہ ہزارہ اور شیعہ اکثریتی علاقہ ہے، میں عبدالرحیم شاہد ہائی اسکول میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی۔ حملے میں 20 طلباء، اساتذہ اور عملے کے اراکین ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک شخص نے کہا، ’’ہر طرف لاشیں پڑی تھیں۔ "لاشیں ٹکڑوں میں بٹ گئیں، اور ان سے خون کی بو آ رہی تھی۔"

اس گروپ نے 21 اپریل کو افغانستان کی سب سے بڑی شیعہ مساجد میں سے ایک، مزار شریف میں واقع سہ دوکان مسجد میں خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کی، جس میں 31 افراد ہلاک اور 87 زخمی ہوئے تھے۔ 27 اپریل کو صوبہ سمنگان میں نامعلوم افراد نے درہ صوف میں کوئلہ کی کان جانے والے 5 ہزارہ افراد کو قتل کر دیا۔ اگلے دن، مزار شریف میں ہزارہ مسافروں کو لے جانے والی ایک چھوٹی بس میں بم دھماکے میں 9 افراد ہلاک اور 13 زخمی ہوئے۔

کابل کے ایک ہزارہ باشندے نے جو پچھلے کئی حملوں کا مشاہدہ کر چکے ہیں نے کہا: "ہمارے بچوں کو اسکول جانے کی ضرورت ہے، ہماری خواتین کو اسپتالوں میں جانے کی ضرورت ہے، ہم مساجد میں جانا چاہتے ہیں۔ ان سب کے لیے ہمیں احساسِ تحفظ کی ضرورت ہے۔ خدا کے لیے، یہ جگہیں نشانہ نہیں بن سکتیں - ہمیں ہر جگہ مارنا بند کرو۔"

افغانستان میں انسانی حقوق پر اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے 26 مئی کو ہزارہ، شیعہ اور صوفی برادریوں پر حملوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حملے "اپنی نوعیت میں تیزی کے ساتھ منظم ہوتے جا رہے ہیں اور ظاہر ہوتا ہے کہ تنظیم کی پالیسی ہے، اس طرح انسانیت کے خلاف جرائم کی خصوصیات کے حامل ہیں۔"

حملے، اپنی فوری تباہی کے علاوہ، زندہ بچ جانے والوں اور متاثرین کے خاندانوں پر دیرپا خوفناک اثرات مرتب کرتے ہيں ، انہیں کمانے والوں سے محروم کرتے ہیں، اکثر شدید طبی بوجھ ڈالتے ہیں، اور روزمرہ کی زندگی تک ان کی رسائی متاثر کرتے ہیں۔ سہ دوکان مسجد حملے میں اپنے 45 سالہ بھائی کو کھونے والے ایک شخص نے کہا، ’’ہم اب اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیجتے، اور ہم اپنی دکانیں جلد بند کر دیتے ہیں۔‘‘ حملے کے بعد سے مسجد کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

خاندان کے ایک مرد رکن کو کھونے کے خواتین پر خاص طور پر سنگین سماجی اور معاشی نتائج مرتب ہوتے ہیں، خاص طور پر ان نوجوان عورتوں پر جو اچانک بیوہ ہو جاتی ہیں۔ خواتین کے کام کرنے اور آزادانہ نقل و حرکت کے حقوق پر طالبان کی پابندیوں نے کچھ خواتین کے لیے روزی کمانا اور مالی طور پر خود مختار ہونا ناممکن بنا دیا ہے۔ سفر کے دوران خواتین کے ساتھ محرم (مرد، خونی رشتہ دار) کے ساتھ جانے کے ضوابط نے خواتین کے لیے روزمرہ کے کاموں کو انجام دینا اور اس صدمے میں اضافہ کر دیا ہے جو انہیں پہلے ہی لاحق ہے۔

طالبان کے قبضے کے فوراً بعد کابل کے علاقے دشت برچی میں ایک مقناطیسی بم دھماکے میں اپنے شوہر کو کھونے والی خاتون نے کہا، "میرا پیارا مارا گیا ہے۔" "اگرچہ میرے پاس ڈگری ہے، اب خواتین کے لیے طالبان کے تحت ملازمت تلاش کرنا اور مالی آزادی حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔"

ہیومن رائٹس واچ نے جن لوگوں کا انٹرویو کیا ان میں سے اکثر نے یہ بھی کہا کہ انہیں حملوں کے نتیجے میں ذہنی دباؤ اور شدید صدمے کا سامنا کرنا پڑا۔

ہزارہ اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر دولتِ اسلامیہ خراسان صوبہ کے حملے مسلح تصادم سے متعلق بین الاقوامی قانون جو کہ افغانستان پر لاگو ہے، کی خلاف ورزی بھی ہے ۔ شہریوں پر منصوبہ بند حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ فوری طور پر جانی نقصان کے علاوہ، اس طرح کے حملے طویل مدتی معاشی مشکلات کا باعث بنتے ہیں، جسمانی اور ذہنی صحت کو دیرپا نقصان پہنچاتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں تعلیم اور عوامی زندگی کی راہ میں نئی ​​رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔

خطرے سے دوچار آبادیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور زندہ بچ جانے والوں اور متاثرہ خاندانوں کو طبی اور دیگر امداد فراہم کرنے میں طالبان کی ناکامی ، نیز طالبان کی پالیسیاں جو انسانی حقوق خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو پامال کرتی ہیں، ان حملوں کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی شدت کو بڑھا رہیں ہیں۔

عباسی نے کہا، "مسلح گروپ کے رہنماؤں کو ہزارہ اور دیگر برادریوں پر مظالم کے لیے ایک دن انصاف کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔" "مذہبی اقلیتوں کو حملوں سے بچانے کے لیے کارروائی کرنے میں ناکام رہنے والے طالبان کے اہلکار ان سنگین جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
 

تفصیلی نتائج کے لیے، براہ کرم درج ذيل ملاحظہ کریں۔

انٹرویو دینے والوں کی حفاظت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔

زندگیوں اور معاش پر حملوں کے طویل مدتی اثرات

حملوں کے متاثرین کے اہلِ خانہ نے اپنے پیاروں کی جانوں کے ضیاع پراپنے غم اور اپنی بچوں اور خود اپنی کفالت کی فکر کا اظہار کیا۔ جب کمانے والے مارے گئے، جیسا کہ زیادہ تر واقعات سے معلوم ہوا ہے، تو طالبان کے دورِ حکومت میں زندہ بچ جانے والے رشتہ داروں، خاص طور پر خواتین کی مشکلات بڑھ گئیں۔ زیادہ تر خاندانوں کا کہنا تھا کہ انہیں طالبان حکام کی طرف سے بہت کم مد یا کوئی مدد نہیں ملی۔

فائزہ، جن کا شوہر سہ دوکن مسجد حملے میں مارا گیا تھا، نے کہا:

میرے سات بچے ہیں۔ میں گھریلو اخراجات پورا کرنے کی غرض سے اپنے شوہر کی مدد کے لیے صفائی ستھرائی کا کام کرتی تھی، لیکن جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے، تب سے یہ ممکن نہیں رہا۔ میرے پاس کوئی اور ہنر نہیں ہے، اور اگر ہنر ہوتا تو بھی میں کام نہیں کر سکتی تھی۔ طالبان اب خواتین کو زیادہ تر پیشوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہماری پڑوسن جو پہلے استانی تھی اب گھر کا کام کرتی ہے۔ اگر وسائل یا ملازمت کے مواقع دستیاب نہ ہوں تو سات بچوں کو کھانا کھلانے کا تصور کرنا بھی بہت محال ہے ۔

27  سالہ نعیم، جو سہ دوکن مسجد کے قریب رہتے ہیں اور دھماکے کے چشم دید گواہ ہیں، نے کہا کہ وہ اب مساجد میں جانا محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ ’’میں نے اپنی والدہ سے قسم کھائی ہے کہ میں کبھی کسی مسجد میں نہیں جاؤں گا تاکہ میں دھماکے سے محفوظ رہ سکوں۔‘‘

42  سالہ گل احمد، جو سہ دوکن مسجد بم دھماکے میں مارا گیا تھا، ان کے پانچ بچے تھے، جن کی عمریں 18 سال سے کم تھیں۔ خاندان میں کوئی کمانے والا نہيں جس کے باعث ان کے 15 سالہ بیٹے کو محنت مزدوری کے لیے اسکول چھوڑنا پڑا۔ احمد کی بیوی نے کہا، ’’ہم ایک ڈراؤنے خواب میں جی رہے ہیں، کوئی سہارا نہیں، وہ چلا گیا، اب ہمارے لیے کچھ نہیں بچا،‘‘

53 سالہ شیر محمد، جو مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں بھی مارے گئے تھے، مزار شریف میں ایک چھوٹا سا کاروبار چلاتے تھے۔ انہوں نے اپنے تمام بچوں کی تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے بہت سخت محنت کی تھی۔ لیکن ان کی موت کے بعد سے وہ بچے نہ تو اسکول جا سکے اور نہ ہی کورسز جاری رکھ سکے۔ ان کی بیوی نے کہا، خاندان بمشکل کھانا یا کپڑے خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ "ہمیں اس درد کے ساتھ جینا پڑے گا،"۔

جب بیوائیں اسپتال سے اپنے شوہروں کی لاشیں جمع کرتی تھیں تو اس وقت طالبان حکام نے ہر ایک خاندان کو 100,000 افغانی (1,100امریکی ڈالر) فراہم کیے۔ یہ رقم خاندانوں کو درکار طویل مدتی امداد کا متبادل نہیں۔ احمد کی بیوی نے کہا، ’’اب مستقبل کی کوئی امید نہیں ہے، زیادہ تر دن ہم کھانا نہیں کھاتے۔‘‘ "یہ ہماری نئی زندگی ہے۔"

مزار شریف کے ایک خاندان نے تین افراد کھوئے: رحمت اللہ، 40 سالہ؛ اسد اللہ، ان کا 15 سالہ بیٹا؛ اور محمد علی،24 سالہ بھتیجا جو وسطی افغانستان کے علاقے دائی کنڈی سے یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان کی تیاری کے لیے پڑھائی  کرنے آیا تھا۔ تینوں افراد سہ دوکن مسجد میں نماز ادا کرتے ہوئے مارے گئے۔ اب پانچ افراد کے خاندان کے پاس کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ "اگر آپ کو ایک گھر کے سامنے تین لاشیں ملتیں تو آپ کو کیسا لگتا؟" رحمت اللہ کی بھانجی نے پوچھا "پڑوس میں ہر کوئی حیران و پریشان اور خاموش تھا۔ صورتحال خوفناک اور چونکا دینے والی تھی۔"

عبدالرحیم شہید ہائی اسکول میں 19 اپریل کو دھماکا اسکول کے گیٹ پر صبح 9:45 سے 9:55 کے درمیان اس وقت ہوا جب 12ویں جماعت کے طلباء گھر جا رہے تھے۔ ہلاک یا زخمی ہونے والے 20 افراد کی عمریں 16 سے 53 سال کے درمیان تھیں۔

مقامی رہائشی 53 سالہ سید محمد حسین نے دھماکے کی آواز سنی اور متاثرین کی مدد کے لیے پہنچ گئے۔ 30 منٹ بعد دوسرا دھماکہ ہوا جس نے انہیں موقع پر ہلاک کر دیا۔ ان کے بیٹے نے زخمی طالب علموں کی مدد کی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا باپ بھی متاثرین میں شامل ہے۔ حسین کے بیٹے نے کہا کہ میں ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جو مدد کے لیے پہنچے۔ "میں نے لاشیں اٹھائیں۔ سات طالب علم اور دو مقامی باشندے مارے گئے، لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ ان میں سے ایک میرے والد تھے۔

حسین کے آٹھ بچے تھے، چھ لڑکیاں اور دو لڑکے۔ وہ خاندان کا واحد کمانے والا تھا، اور ان کی موت کے بعد ان کا سب سے بڑا بیٹا، جس کی عمر 22 برس ہے، سب  کی کفالت کا ذمہ دار بن گیا۔

جسمانی اور دماغی صحت پر اثرات

پچھلے ایک سال کے حملوں میں زخمی ہونے والے سینکڑوں افراد میں سے کئی کو شدید چوٹیں آئی ہیں، اور سبھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوں گے۔ پچھلی افغان حکومت نے باغیوں کے حملوں میں زخمی ہونے والوں اور ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو مالی امداد فراہم کی تھی۔ زندہ بچ جانے والوں اور حالیہ حملوں کے متاثرین کے اہلِ خانہ نے کہا کہ انہیں مالی مدد یا فراہم کی جانے والی رقم کے تعین کے لیے طالبان کی جاری کردہ ہدایات کا علم نہیں۔

عبدالرحیم شاہد ہائی اسکول میں دھماکے سے قریبی گھر میں کچن کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ اس سے کچن میں موجود 16 سالہ صفیہ کی سماعت کو نقصان پہنچااور وہ مزید بول نہیں سکتی۔ اس کے والد، یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور فی دن تقریباً 250 افغانی ($3) کماتے ہیں۔ وہ علاج و معالجے کا خرچہ برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ طالبان کے کئی عہدیدار ان کے گھر گئے، لیکن انہوں نے کوئی مالی امداد فراہم نہیں کی۔

28 سالہ بصیر احمد، ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی ٹیکنیشن، نے بتایا کہ ان کے بازو سہ دوکن مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں زخمی ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا، "مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی بھی ان بازوؤں سے انٹرنیٹ لائنیں سیٹ کر سکوں گا،" ۔ "میرے کام کے لیے مجھے بلند عمارتوں پر چڑھنا پڑتا ہے۔ میرے بازوؤں میں طاقت نہیں ہے۔" انہوں نے صدمے کا شکار ہونے کے متعلق بھی بتایا۔ "میں جہاں بھی جاتا ہوں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہاں ایک دھماکہ ہو رہا ہے۔ میں ہر روز یہ ڈراؤنا خواب دیھکتا ہوں۔"

27 سالہ سید محمد جنہوں نے حملے کے خوف سے اپنی یونیورسٹی چند سال قبل چھوڑ دی تھی، سہ دوکان مسجد میں ہونے والے دھماکے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ ان کے والد نے بتایا کہ ان کی منگیتر معصومہ صدمے سے دوچار ہے اور وہ زیادہ تر نہ کھاتی، نہ پیتی اور نہ سوتی ہے۔ محمد کی والدہ نے کہا کہ وہ فکرمندی اور بے خوابی کا شکار ہے اور دو ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائیوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

22 سالہ احمد شاہ سہ دوکن مسجد میں ہونے والے بم دھماکے میں زخمی ہوا، جس میں اس کا 50 سالہ باپ جاں بحق ہوگیا۔ دھماکے سے اس کا بایاں بازو زخمی ہوگیا جس سے وہ کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ ڈاکٹروں نے انہیں مزید علاج معالجے کے لیے ہندوستان جانے کا مشورہ دیا لیکن وہ اس کا متحمل نہیں ہوسکے۔

محمد نامی ایک طالب علم، جو فٹ بال کھیلنا پسند کرتا تھا، اپریل میں ممتاز ایجوکیشنل سینٹر پر حملے کے دوران شدید زخمی ہوا جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا۔ اس کا خاندان اس کے خصوصی علاج جو ڈاکٹروں کے مطابق ان کی مکمل صحت یابی کے لیے انتہائی ضروری ہے، کے لیے ہندوستان یا پاکستان کے سفر کے اخراجات کرنے سے قاصر ہے۔ محمد نے کہا کہ میں نے اس شخص کو دیکھا جس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ "دھماکے سے چند دن پہلے، اس نے ہمارے سینٹر کا دورہ کیا اور خود کو بطورِ طالب علم رجسٹر کروایا۔" محمد نے کہا کہ وہ بمبار کے چہرے کی تصویر بناتا رہتا ہے۔

عبدالرحیم شاہد ہائی اسکول پر حملے میں 17 سالہ زمان زخمی ہوا۔ طالبان حکام نے اسے 5,000 افغانی (55 ڈالر) دیے لیکن اسے اپنی قوتِ سماعت بحال کرنے کے لیے مزید علاج کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسکول میں اپنی پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ شروع کر سکے۔

حملوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں پر اثرات

ان حملوں نے ہزارہ اور شیعہ براردی کے افراد کے لیے تعلیم، اپنے مذہب پر عمل کرنے اور دیگر بنیادی آزادیوں کا استعمال کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیا ہے، ۔ بہت سے لوگوں کو صحت کی سہولیات حاصل کرنے میں دشواری محسوس ہوئی اور وہ کہتے ہیں کہ وہ عوام میں باہر جانا محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ اب وہ سماجی اجتماعات، عوامی نقل و حمل اور دیگر عوامی مقامات سے گریز کرتے ہیں۔

مزار شریف میں سہ دوکن مسجد پر حملے کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔ بہت سے خاندانوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے بچوں کے لیے گھر میں رہنا زیادہ محفوظ ہے بجائے اس کے کہ وہ اسکول میں نشانہ بن جائیں۔

اپنے چار بیٹوں کے ساتھ مقیم  کابل کی رہائشی سائرہ نے کہا کہ اس نے اپنے لڑکوں کو اسکول یا کسی اور جگہ بھیجنا بند کر دیا ہے۔ وہ اور اس کے شوہر اب مذہبی تقریبات میں شرکت نہیں کرتے ماسوائے اس کے کہ انتہائی ضروری ہو۔

زخمی طالب علم بھی غیرمؤثر طبی دیکھ بھال کی وجہ سے اسکولوں میں واپس جانے سے قاصر ہیں۔ عبدالرحیم شاہد ہائی اسکول کے ایک سینئر طالبعلم 18 سالہ علی رضا ٹانگوں اور کانوں پر چوٹوں کی وجہ سے کلاس میں جانے سے قاصر ہیں۔ کئی دوسرے طلباء نے کہا کہ وہ اپنی حفاظت کے خوف سے اب اسکول نہیں جاتے۔ رضا نے کہا، "میرے زیادہ تر ہم جماعتوں نے اس سانحے کے بعد اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔" "جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو 50 کی کلاس کے بجائے صرف 25 تھے۔ اب ہمارے ادارے پر حالیہ حملے کے نتیجے میں صرف 10 سے 15 بچے کورسز میں شرکت کر رہے ہیں۔"

علی رضا کے ہم جماعت محمد حاکم نے کہا: "اگر مجھے مرنا ہے تو میں مر جاؤں گا، لیکن جب تک میں زندہ ہوں، میں اسکول جاؤں گا۔" لیکن اس کے پیروں میں لگنے والی گولیوں کے ٹکڑوں نے اس کے لیے تھوڑا سا فاصلہ طے کرنا بھی مشکل کر دیا ہے۔ وہ امید کر رہا ہے کہ اس کے زخم ٹھیک ہو جائیں گے، اور وہ دوبارہ چلنے اور اسکول واپس جانے کے قابل ہو جائے گا۔

سفارشات

  • صوبہ خراسان کے دولتِ اسلامیہ اور دیگر مسلح گروہوں کو مسلح تصادم سے متعلق بین الاقوامی قانون کی مکمل تعمیل کرنی چاہیے، اور شہریوں کے خلاف تمام حملے بند کرنے اور سنگین زیادتیوں کے ذمہ دار کمانڈروں کو سزا دینی چاہیے۔
  • طالبان کو مسلح تصادم سے متعلق بین الاقوامی قانون کی مکمل پاسداری کرنی چاہیے  اور سنگین زیادتیوں کے ذمہ داروں کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
  • طالبان حکام کو ہزارہ اور شیعہ سمیت خطرات سے دوچار اقلیتوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور بلا خوف و خطر تعلیم کے حصول اور عبادت تک رسائی کے ان کے حقوق کو یقینی بنانا چاہیے۔
  • طالبان کو شہری اداروں کی حفاظت کے لیے خطرات سے دوچار برادریوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے مشاورت کرنی چاہیے۔
  • طالبان کو ہنگامی طبی نگہداشت جیسے کہ ایمبولینس سروسز اور نفسیاتی (ذہنی صحت) کے انتظامات کو یقینی بنانا چاہیے۔
  • طالبان کو حملوں سے بچ جانے والوں اور متاثرین کے اہلِ خانہ کو مالی امداد فراہم کرنی چاہیے، خاص طور پر ان خاندانوں کی مدد پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جنہوں نے اپنے کمانے والے کو کھو دیا ہے، بشمول ایسے گھرانے جن کی سربراہی خواتین کر رہی ہیں، اور اس قسم کی مدد سے متعلق رہنما ہدایات جاری کرنی چاہییں۔
  • طالبان کو خواتین کے حقوق کی کی پامالیوں کا سلسلہ ختم کرنا چاہیے، بشمول ان خلاف ورزیوں کے جن کی وجہ سے عورتوں کے لیے روزی کمانا مشکل ہو گیا ہے۔
  • طالبان کو چاہیے کہ وہ حملوں میں زندہ بچ جانے والوں، نیز ایسے لوگوں جنہوں نے حملے ہوتے دیکھے، انہیں ذہنی صحت کی سہولیات فراہم کریں اور ان کی نفسیاتی مدد یقینی بنائیں۔
  • طالبان کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جو بچے حملوں کے نتیجے میں معذوری کا شکار ہو گئے وہ دوسروں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر اسکول جانے کے قابل بن جائیں۔
  • طالبان کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں مشغول حکومتوں کو ہزارہ اور شیعہ برادریوں کے مؤثر تحفظ کا مطالبہ کرنا چاہیے اور افغانستان میں ہزارہ اور شیعہ برادریوں سمیت دیگر برادریوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے محاسبے کے مؤثر نظام کی حوصلہ افزائی اور حمایت کرنی چاہیے۔
  • تمام حکومتوں کو افغان شہریوں کو زبردستی ان کے ملک واپس بھیجنے کا سلسلہ بند کرنا چاہیے اور افغانستان میں ہزارہ اور دیگر مظلوم نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے لیے پناہ کی درخواستوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے، اور بین الاقوامی تحفظ کے دیگر انتظامات کی حمایت کی پالیسی اپنانی چاہیے۔

Your tax deductible gift can help stop human rights violations and save lives around the world.

Region / Country