Skip to main content

چین: ایغور برادری پر سخت سفری پابندیاں

سخت تقاضے، سرکاری دورے، سنکیانگ کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے تازہ ترین اقدامات

A Chinese police officer for border inspection on duty at the Khunjerab Pass in northwest China's Xinjiang Uyghur Autonomous Region, January 2, 2025. © 2025 Hu Huhu/Xinhua via Getty Images

(نیویارک)– ہیومن رائٹس واچ نے آج کہا کہ چینی حکومت اُن ایغوروں پر سخت پابندیاں، کڑی شرائط اور کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہے جو بیرون ملک سفر کرنا چاہتے ہیں۔ چینی حکومت کے یہ اقدامات ایغوروں کے ملک چھوڑنے کے بین الاقوامی سطح پر محفوظ حق کی خلاف ورزی ہیں۔ حکومت نےتارکین وطن ایغوروں کو سنکیانگ کے محدود دوروں کی اجازت دی ہے، لیکن اس کا بظاہر مقصد لوگوں کو یہ تاثر پیش کرنا ہے کہ خطے میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔

چینی حکومت کی ظالمانہ کاری ضرب لگاؤ مہم کے آغاز سے، جو 2016 میں سنکیانگ ایغور خودمختار علاقے میں شروع کی گئی، چینی حکام نے من مانے طور پر علاقے میں ایغوروں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے ہیں اور انہیں بیرون ملک لوگوں سے رابطہ کرنے پر قید کر دیا ہے۔ اگرچہ حکام اب کچھ ایغوروں کو بین الاقوامی سفر کے پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے کی اجازت دے رہے ہیں یا انہیں واپس کر رہے ہیں ، لیکن وہ سفر کرنے والوں پر سخت کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے چین کے محقق، یالکون الیوول نے کہا، ”چین کی سفری پابندیوں میں معمولی نرمی نےکچھ ایغوروں کو ببیرون ملک اپنے پیاروں کے ساتھ مختصر طور پر دوبارہ ملنے کا موقع فراہم کیا ہے جن کے بارے میں انہیں برسوں تک کوئی خبر نہیں تھی ، لیکن چینی حکومت کی یہ پابندیاں اب بھی سنکیانگ اور تارکین وطن ایغوروں کو دبانے کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔ ” “چینی حکومت ایغوروں کو ان کے ملک چھوڑنے کے حق سے مسلسل محروم رکھے ہوئے ہے، انہیں بیرون ملک اظہارِ رائے اورانجمنوں پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور غیر ملکی روابط رکھنے کی پاداش میں سزا ملتی ہے۔“

ہیومن رائٹس واچ نے چین سے باہر مقیم 23 ایغوروں کے انٹرویوز کیے اور متعلقہ سرکاری دستاویزات کا جائزہ لیا۔

حالیہ عرصے میں سنکیانگ چھوڑنے والے یا وہاں سے آئے رشتہ داروں سے ملنے والے ایغوروں نے بتایا کہ چین میں غیر ملکی سفر کے لیے درخواست دینے والے ایغوروں کو حکام کو اپنے سفر کے مقصد کی وضاحت فراہم کرنی پڑتی ہے۔ خاندانی مقاصد کے لیے درخواست دینے والے افراد کو بھی بیرون ملک مقیم اپنے خاندان کے کسی فرد کی طرف سے دعوت نامہ ، ساتھ ہی اپنی ذاتی معلومات، پتہ، ملازمت کی حیثیت اور دیگر دستاویزات فراہم کرنی پڑتی ہیں۔

اجازت سخت قواعد کے ساتھ دی جاتی ہے: سفر کرنے والے افراد کو بیرون ملک سرگرم کارکنوں سے ملنے یا چینی حکومت کے متعلق تنقیدی گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اور ان کا مقررہ مدت کے اندر واپس آنا ضروری ہوتا ہے، جو چند دنوں سے لے کر کئی مہینوں تک ہو سکتی ہے۔ کاروباری سفر کے سلسلے میں، ایغوروں کو چند مخصوص ممالک، جیسے قازقستان، جانے کی اجازت ہے، جبکہ انہیں ترکی جیسے بڑے مسلم آبادی والے ''حساس ممالک'' کے سفر سے منع کیا گیا ہے۔

ایک ایغور، جس کے چین میں موجود رشتہ دار کو پاسپورٹ دینےسے انکار کر دیا گیا تھا، نے کہا کہ، "پولیس نے انہیں میری تصویر دکھائی اور پوچھا، 'کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟' [رشتہ دار] نے ہاں میں جواب دیا۔ اس پر پولیس نے کہا کہ پاسپورٹ کو بھول جائیں۔"

متعدد افراد نے انٹرویو میں بتایا کہ حکام نے انہیں کہا " ایک وقت میں خاندان سے صرف ایک فرد سفر کر سکتا ہے"، جس کا عملی طور پر مطلب یہ ہے کہ ان کے قریبی اہل خانہ کو یرغمال بنا کر ان کی واپسی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ بعض افراد نے بتایا کہ حکام نے انہیں سفر کی اجازت دینے سے پہلے ایک ''ضامن'' فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ جو اکثر کوئی دوسرا سرکاری اہلکار ہوتا ہے جو ان کے حق میں ضمانت دیتا ہے۔ ان قواعد کی خلاف ورزی پر ان کے ضامن یا خاندان کے افراد کو سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جنہیں بیرون ملک سفر کی اجازت دی گئی، ان سے ایک نامزد سرکاری اہلکار باقاعدگی سے رابطہ کرتا رہا اور اُن کی روزمرہ سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہا۔ واپسی پر، حکام نے دوبارہ ان کے پاسپورٹ ضبط کر لیے اور اُن سے اُن کے سفر اور اُن ممالک میں موجود ایغوروں سے متعلق پوچھ گچھ کی جہاں وہ گئے تھے۔

بیرون ملک مقیم کچھ ایغور سخت جانچ پڑتال کے بعد سنکیانگ جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والے افراد، جو ویزہ کے بغیر چین جانے کے اہل ہیں، ان کے خاندانوں کو بتایا گیا کہ انہیں پس منظر کی جانچ پڑتال کرانی ہوگی اور اپنے خاندان کے علاقے میں موجود "محلہ کمیٹی"جو ایک مقامی حکومتی ادارہ ہے اور مقامی پولیس سے پیشگی اجازت لینی ہوگی۔ سنکیانگ میں اپنے آبائی علاقوں میں واپسی پر، کچھ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی یا انہیں اپنے رشتہ داروں کے گھروں کے بجائے ہوٹلوں میں ٹھہرنے کا حکم دیا گیا۔

وہ ایغور افراد جو اُن ممالک کے شہری ہیں جنہیں چین کے سفر کے لیے ویزا درکار ہوتا ہے، انہیں درخواست کے ایک طویل عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل چھ ماہ تک ہوسکتا ہے کیونکہ بیرون ملک چینی سفارتی مشنز پس منظر کی تفصیلی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ غیر سیاسی تارکینِ وطن سرگرمیوں میں شرکت ، جیسے کہ اپنے بچوں کو ایغور زبان کے اسکول بھیجنا یا ایسی شادی میں شرکت جہاں ایغور کارکن موجود ہوں، ویزا مسترد ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔

چینی سفارتی مشنز نے بیرون ملک مقیم کچھ ایغوروں کو سنکیانگ کے سرکاری طور پر منظم کردہ دوروں میں شامل ہونے کی ہدایت دی ہے، جن کی میزبانی سنکیانگ یونائیٹڈ فرنٹ ورک ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے، جو چینی کمیونسٹ پارٹی کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ ان دوروں میں شرکت کے لیے، افراد کو چینی سفارتی مشنز کو اپنے چینی قومی شناختی ، پاسپورٹ، اور سنکیانگ میں اپنے گھریلو پتے کی نقل فراہم کرنی ہوتی ہیں۔ یہ فہرست پھر چین بھیجی جاتی ہے، جہاں یہ مختلف محکموں سے گزرتی ہے، جن میں مقامی پولیس اسٹیشن، عوامی سیکیورٹی بیورو، انسداد دہشت گردی کے ذمہ دار یونٹ، اور محلہ کمیٹیاں شامل ہیں۔

صرف منظور شدہ افراد ہی سرکاری دورے میں شامل ہو سکتے ہیں۔ غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والے ایغوروں کو ان دوروں میں شرکت کے لیے اپنی چینی شہریت ترک کرنے کی اضافی شرط بھی پوری کرنی پڑتی ہے۔ ایغوروں کا کہنا ہے کہ وہ ان سرکاری دوروں میں اس لیے شامل ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایک محفوظ راستہ ہے، جو اپنے طور پر علاقے کا دورہ کرنے کے مقابلے میں نہ صرف زیادہ تیز بلکہ ویزا حاصل کرنے کے لحاظ سے بھی آسان ہے،جبکہ خود جانے کی صورت میں انہیں پولیس کی پوچھ گچھ اور ممکنہ حراست کا خطرہ ہوتا ہے۔

ان دوروں میں شامل ایغوروں نے بتایا کہ انہیں یونائیٹڈ فرنٹ کے نگرانوں کی سخت نگرانی میں رکھا گیا، اور انہیں اپنے خاندان سے ملنے کی اجازت طلب کرنی پڑتی تھی۔ حتیٰ کہ انہیں آپس میں بھی مینڈارن چینی زبان بولنے کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں پروپیگنڈا سرگرمیوں میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا، جیسے کہ ایک تحریر دی گئی، جس میں مینڈارن چینی میں روانی نہ رکھنے والوں کے لیے پینین ((چینی زبان کے لیے وضع کردہ رومن املا)) یا صوتی نشانیاں شامل تھیں، تاکہ وہ کمیونسٹ پارٹی کی سنکیانگ سے متعلق پالیسیوں کی تعریف کر سکیں۔

ان کنٹرول شدہ دوروں کے ذریعے، چینی حکومت نے ایغور تارکین وطن پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا ہوا ہے۔ جن میں سے بعض افراد اپنے خاندانوں سے دوبارہ رابطہ قائم کرنے اور سنکیانگ جانے کی امید میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ایغور ثقافتی تقریبات میں بھی حصہ لینے سے گریز کرتے ہیں۔ چینی حکام طویل عرصے سے سرحد پار جبر میں ملوث ہیں، جس کے تحت وہ بیرون ملک مقیم ایغوروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں تاکہ اختلافِ رائے کو دبایا جا سکے۔ اس جبر کے نتیجے میں، حکومت نے خاص طور پر ایغور کارکنوں، چینی حکومت کے ناقدین، اور ان کے سنکیانگ میں مقیم اہلِ خانہ کو نشانہ بنایا۔

چین کی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کے تحت، چینی حکومت کو ایغوروں کو آزادانہ سفر کی اجازت ،غیر ملکی روابط رکھنے والوں کو سزا دینے کا سلسلہ بند اور ایغور تارکین وطن کے خلاف جابرانہ اقدامات ختم کرنے چاہییں۔ متاثرہ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام شہریوں اور رہائشیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں اور چینی حکومت کے ہر قسم کے سرحد پار جبر کے خلاف مؤثر اقدامات کریں۔

"ایغور اگر اپنے اہل خانہ سے مختصر مدت کے لیے ملنا چاہیں یا صرف ان سے رابطہ کرنا چاہیں تو انہیں سخت شرائط اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے" اولیوول نے کہا۔ " بیرون ملک اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے یا ان سے ملنے کی اجازت ملنا چند ایغوروں کے لیے کسی خاص رعایت کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ ایک بنیادی حق ہے جس کا احترام کرنا چینی حکومت کی ذمہ داری ہے۔"

سفری پابندیاں اور ایغوروں کی ہراسانی

چینی حکومت کی ایغوروں کے خلاف امتیازی پاسپورٹ پالیسیوں کی ایک تاریخ ہے، جس کے تحت انہیں پاسپورٹ کے حصول کے لیے غیر معمولی طور پر سخت اور پیچیدہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ 2016 میں جب سے کاری ضرب لگاؤ مہم شروع ہوئی ہے، چینی حکام نے سنکیانگ کے رہائشیوں کو اپنے پاسپورٹ "تحفظ" کے نام پر جمع کرانے پر مجبور کیا ہے اور بیرون ملک مقیم ایغوروں کے پاسپورٹ کی تجدید روک دی ہے۔

وہ ایغور جنہیں بیرون ملک سفر کی اجازت دی گئی ہے، زیادہ ترسنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی، اور شمالی سنکیانگ کے دو دیگر شہروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ، زیادہ تر ایغور باشندے اب بھی اس علاقے سے باہر جانے سے قاصر ہیں، تاہم بیرون ملک مقیم کئی ایغوروں کو اپنے خاندانوں کی کوئی خبر نہیں، خاص طور پر ان عزیزوں کی جو طویل عرصے سے قید میں ہیں۔

چینی حکومت نے دونوں سرکاری ذرائع ابلاغ اور حکومت سے منسلک ایغوروں کے ذریعے سوشل میڈیا پرپوسٹس تقسیم کر کے بظاہر خطے میں اپنی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے اس طرح کے دوروں کو فروغ دیا ہے۔ ان مضامین میں، ایغور شرکاء عام طور پر "سنکیانگ میں خوشگوار تبدیلیوں" کی بھرپور تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے "مادرِ وطن کی گرمجوشی کو گہرائی سے محسوس کیا۔"

طریقہ کار

اکتوبر 2024 سے فروری 2025 کے درمیان، ہیومن رائٹس واچ نے نو مختلف ممالک کینیڈا، فرانس، جرمنی، جاپان، کرغزستان، ناروے، نیدرلینڈز، برطانیہ اور ترکی میں مقیم 23 ایغوروں کے ساتھ ساتھ دو ماہرین سے بھی گفتگو کی گئی جو تارکین وطن ایغور برادری پر کام کر رہے تھے۔ جن افراد کے انٹرویوز کیے گئے، ان میں سے کچھ کے اہلِ خانہ کو مختصر مدت کے لیے بیرونِ ملک سفر کی اجازت دی گئی تھی، یا وہ خود چینی حکومت کے زیرِ اہتمام دوروں کے ذریعے سنکیانگ گئے تھے۔ چند افراد نے حالیہ برسوں میں پاسپورٹ اور سفری اجازت نامہ حاصل کرنے کے ایک طویل عمل کے بعد سنکیانگ کو مستقل طور پر چھوڑ دیا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ نے سرکاری طور پر منظم کردہ دوروں سے متعلق تصاویر، دستاویزات اور سوشل میڈیا چیٹ کی تفصیلات کا جائزہ لینے کے علاوہ عوامی طور پر دستیاب آن لائن ذرائع، بشمول چینی حکومتی پریس مضامین اور ڈوئین (چینی ورژن ٹک ٹاک) پر ان افراد کی جانب سے پوسٹ کی گئی ویڈیوز کا بھی تجزیہ کیا، جو سنکیانگ کا دورہ کر چکے تھے۔

انٹرویو شدہ افراد کی ذاتی معلومات کو ان کی حفاظت کے لیےمخفی رکھا گیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تحقیقات کے نتائج چینی حکومت کے ساتھ شیئر کیے اور تبصرے کے لیے درخواست بھیجی، لیکن ان کا کوئی جواب نہیں ملا۔

سنکیانگ سے باہر سفر کرنے والے ایغور

بیرونِ ملک مقیم ایک ایغور نے بتایا کہ وہ آٹھ سال کی جدائی کے بعد اپنی والدہ سے ملنے میں کامیاب ہوئے، لیکن یہ ملاقات صرف ایک تیسرے ملک میں ممکن ہوئی جہاں ان کی والدہ کو کاروباری مقاصد کے لیے جانے کی اجازت ملی تھی۔ وہ تبھی یہ سفر کر سکیں جب وہ پس منظر کی سخت جانچ پڑتال سے گزریں اور ایک معاہدے کے تحت خاموش رہنے کی شرط قبول کی:

انہیں صرف 15 دن کے لیے بیرونِ ملک سفر کی اجازت دی گئی تھی۔ محلے کی کمیٹیوں اور مقامی پولیس نے انہیں سختی سے ہدایت کی کہ وہ "خطرناک لوگوں" سے میل جول اورحکومت کے خلاف کوئی منفی بات نہ کریں اور مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے واپس آ جائیں۔ میں چاہتا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں، لیکن مجھے انہیں واپس بھیجنا پڑا، کیونکہ اگر وہ واپس نہ جاتیں تو ہمارے اثاثے ضبط ہو سکتے تھے اور ہمارے دوسرے رشتہ داروں کو سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔

ایک اور شخص نے بتایا کہ ان کے والد کو سفر کی اجازت دینے کے لیے پولیس نے مؤثر طریقے سے ان کے خاندان کے افراد کو یرغمال بنایا:

میرے والد کے پاس ایک پرانا پاسپورٹ تھا، جو چند سال قبل محلے کی کمیٹی نے ضبط کر لیا تھا۔ ان کا ایک ضامن تھا جو حکومت میں کام کرتا تھا۔ حکام نے صرف انہیں جانے کی اجازت دی اور کہا، "آپ کی بیوی شاید اس وقت سفر کر سکے جب آپ واپس آ جائیں گے۔" پس منظر کی سخت جانچ پڑتال اور ایک عہد نامے پر دستخط کرنے کے بعد،[ پابندیوں کی تعمیل کے لیے] انہیں ایک ماہ کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی گئی۔ انہوں نے اپنی مدتِ قیام میں توسیع کی کوشش کی، لیکن اجازت نہ مل سکی، اس لیے وہ واپس چلے گئے، اس امید کے ساتھ کہ اس کے بعد میری والدہ کو سفر کی اجازت مل جائے گی۔ تاہم، حکام نے میری والدہ کے لیے پاسپورٹ جاری نہیں کیا اور انہیں "انتظار کرنے" کا کہا گیا۔

ایک اور شخص نے بتایا کہ سنکیانگ واپسی کے بعد حکام نے ان کے والد سے تفتیش کی:

میرے والد کی واپسی کے بعد، محلے کی کمیٹی، مقامی پولیس اسٹیشن اور عوامی تحفظ بیورو کے حکام ان کے پاس آئے۔ انہوں نے سوالات کیے کہ وہ کن لوگوں سے ملے، کہاں گئے، اور وہاں کس سے کیا بات کی۔ میرے والد نے جواب دیا، "میں کسی سے نہیں ملا۔" اور یہ سچ تھا۔ ہم نے جان بوجھ کر کسی ایغور ریستوران تک کا رخ نہیں کیا تاکہ کسی کی توجہ نہ ہو اور چین کی نگرانی سے بچ سکیں۔

بیرون ملک مقیم ایغوروں کا سنکیانگ کا سفر

انفرادی سفر

ایغوروں نے بتایا کہ، حتیٰ کہ غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والے جو چین میں ویزا کے بغیر داخلے کے اہل تھے، سنکیانگ جانے سے پہلے پس منظر کی جانچ پڑتال سے گزرنے کے پابند تھے۔

اس صورتحال سے واقف ایک شخص نے کہا:

یورپی پاسپورٹ رکھنے والے بہت سے ایغور ویزا فری اسکیم کے تحت اپنے آبائی علاقے میں مختصر خاندانی ملاقاتوں کے لیے جا رہے ہیں۔ سفر کا ارادہ رکھنے والے ہر شخص کو اپنے اصل محلے کی کمیٹی اور پولیس سے اجازت حاصل کرنی ہوتی ہے اور سرحد پر منظوری کا خط دکھانا ہوگا۔ ان میں سے کچھ سے پوچھ گوچھ کی گئی، جبکہ دیگر کو حکام کی جانب سے ہدایت دی گئی کہ وہ اپنے خاندان کے گھروں میں ٹھہرنے کے بجائے ہوٹل میں قیام کریں۔ان میں سے زیادہ سفر ارومچی اور سنکیانگ کے شمالی حصے کے چند دیگر شہروں کے تھے۔

بیرونِ ملک ایک ایغور اسکول کے ایک استاد نے بتایا کہ ان کے طلبہ کے والدین کو صرف اپنے بچوں کو ایغور اسکول بھیجنے کی وجہ سے چین کے ویزے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ کم از کم ہمارے دو طلباء کے والدین کو چینی پولیس اور چینی سفارتی مشنز نے بتایا کہ [اس ملک میں] ایغور زبان کے اسکول میں جانا ان کے اور ان کے خاندانوں کے [سنکیانگ] سفر کے لیے ایک "رکاوٹ" ہے۔ اس وجہ سے ویزا مسترد ہونے کے کئی واقعات بھی سامنے آئے۔ اب بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو [ایغور] زبان کے اسکول بھیجنا بند کر دیا ہے۔ ہمارا اسکول 2014 سے فعال رہا، لیکن جنوری 2025 میں ہمیں اپنا کام بند کرنا پڑا کیونکہ ہمارے کلاس روم خالی ہو گئے تھے ۔

ایک اور شخص نے کہا

حال ہی میں شادی کی ایک تقریب میں میزبانوں نے کچھ ایغور کارکنوں سے شرکت نہ کرنے کی درخواست کی، کیونکہ دلہا اور دلہن کے قریبی رشتہ دار[ سنکیانگ] آ جا رہے تھے۔ یہ بات ناقابلِ قبول ہے کہ چینی حکومت اب سماجی تقریبات پر بھی نظر رکھ رہی ہے۔ ایسی صورتحال کمیونٹی کے افراد میں مزید عدم اعتماد بڑھا رہی ہے۔

حکومتی سرپرستی میں سنکیانگ کے دورے

ایک ایغور، جس نے حال ہی میں ایک سرکاری دورے میں سنکیانگ کا سفر کیا، نے کہا:

"مجھے معلوم نہیں تھا کہ دوبارہ کبھی اپنے خاندان سے ملنے کا موقع ملے گا یا نہیں، اسی لیے میں نے اس دورے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ لیکن بعد میں احساس ہوا کہ ہر چیز پہلے سے طے شدہ تھی، پورا دورہ پولیس کی سخت نگرانی میں تھا، اور دورے کے بعد مجھے اپنے خاندان کے ساتھ ٹھہرنے کے لیے محلے کی کمیٹی اور مقامی پولیس سے اجازت لینا پڑی۔"

ایک اور شخص نے بتایا:

"سنکیانگ میں ہمارا خیر مقدم یونائیٹڈ فرنٹ ورک ڈیپارٹمنٹ نے کیا۔ ہمیں فوراً دورے پر لے جایا گیا۔ پروگرام کے مطابق یہ دورہ 7 سے 15 دن کا ہو سکتا تھا۔ گروپ میں شامل تمام افراد ایغور تھے، اور دورہ رہنما بھی ایغور ہی تھے، لیکن سب کو چینی زبان میں بات کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ہم نے دکانوں، عجائب گھروں اور مساجد کا دورہ کیا، بالکل ویسا ہی جیسے پروپیگنڈا دورے ہوتے ہیں، جنہیں آپ یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ آخری دن ہماری ملاقات اعلیٰ حکام سے ہوئی۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کو حکومتی اہلکاروں کی جانب سے پہلے سے لکھے گئے بیانات دیے گئے، جن میں ہمیں چینی حکومت کا شکریہ ادا کرنا تھا۔ دورے کے بعد، مقامی محلے کی کمیٹی اور پولیس اسٹیشن میں رجسٹریشن اور ان کی منظوری ملنے کے بعد، میں چند دن اپنے خاندان کے ساتھ گزارنے میں کامیاب ہوا۔"

ایک اور شخص نے اسی طرح کا تجربہ بیان کیا:

"ہر چیز مصنوعی لگ رہی تھی اور ہمارے لیے پہلے سے تیار کی گئی تھی۔ لیکن جب میں شہر میں خود گھومنے پھرنے کے قابل ہوا، تو میں نے خالی مساجد، داڑھی کے بغیر مردوں، اور چھوٹے بچوں کو دیکھا جو اب ایغور زبان بولنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ میں اس شہر کو پہچان ہی نہیں پایا، جو کبھی میرا جانا پہچانا تھا۔"

تارکین وطن ایغور برادری پر اثرات

تارکین وطن بہت سے ایغور آج بھی اپنے اہلِ خانہ سے رابطہ قائم کرنے سے محروم ہیں۔ ایک ایغور نے کہا:

"چینی سفارتی مشنز سے قریبی تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے مجھ سے کہا کہ میں حکومتی سرپرستی میں جانے والے گروپوں کے ساتھ اپنے آبائی وطن کا دورہ کروں۔ میں کوئی کارکن (ایکٹیوسٹ) نہیں ہوں، اور میرے پاس غیر ملکی پاسپورٹ ہے۔ شاید اگر میں واقعی جانا چاہوں تو واپس جا سکتا ہوں۔ لیکن جب میں نے انہیں اپنے والدین کے بارے میں بتایا، جو بغیر کسی وجہ کے طویل قید کاٹ رہے ہیں، تو انہوں نے مجھ سے رابطہ ختم کر دیا۔ میں خود سے سوال کرتا ہوں: کیا میرے پاس واپس جانے کے لیے کوئی خاندان باقی بچا ہے؟

ایک اور شخص نے بھی اسی طرح کا تجربہ بیان کیا اور سنکیانگ جانے کا خطرہ مول لینے سے انکار کر دیا:

"چینی قونصل خانے سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک شخص نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھے اپنے خاندان سے ملنے کے لیے آبائی وطن جانا چاہیے۔ اس کا مقصد مجھے ذہنی طور پر قابو (دماغ شوئی ) کرنا تھا۔ وہ مجھے یقین دلاتا رہا کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور وہ میرے بحفاظت واپس آنے کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ لیکن میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو واپس گئے اور وہاں کی صورتحال دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے۔ عوامی طور پر وہ اپنے تجربات کے بارے میں کھلے عام کوئی کچھ منفی بات نہیں کریں گے، کیونکہ حکومت نے انہیں ایسا نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن نجی طور پر کم از کم تین لوگوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ واپس گئے تو ان سے تفتیش کی گئی اور کچھ کاغذات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ کبھی واپس نہیں جائیں گے۔ میں بھی جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔"

کاری ضرب لگاؤ مہم کے دوران حراست میں لیے گئے یا جبری طورپرلاپتا کیے گئے رشتہ داروں کوتلاش کرنے والے بہت سے ایغوروں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک اپنے خاندان کی کوئی خبر نہیں پا سکے۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ سنکیانگ میں معمول کی صورتحال ظاہر کرنے کی چینی حکومت کی کوششوں کا تارکین وطن لوگوں پر منفی اثر پڑ رہا ہے:

صرف وہی لوگ ان ''خصوصی'' دوروں میں شامل ہو سکتے ہیں، جو چینی حکومت سے وفاداری کا ثبوت دے چکے ہوں۔ سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ وطن واپسی کی امید رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ کسی بھی مصیبت سے دور رہتے ہیں اور حکومتی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔

مختصر دورے کے دوران اپنے خاندان سے ملنے والےایک شخص، نے کہا

"یہ ناقابلِ یقین تھا۔ مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ (میں اپنے خاندان سے دوبارہ مل )پارہا ہوں۔ یہ ناممکن لگ رہا تھا۔ لیکن اُس وقت میں بے حد غمزدہ تھا، اپنے ان دوستوں کو یاد کر کے جن کا اپنے خاندان سے کوئی رابطہ تک نہیں۔ میں ایسا کیسے ظاہر کر سکتا تھا جیسے پچھلے سات سالوں میں کچھ ہوا ہی نہیں۔"

سنکیانگ میں انسانیت کے خلاف جرائم

چینی حکومت کئی سالوں سے سنکیانگ میں شدید جبر کر رہی ہے، جو انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ بظاہر اس کا مقصد ایغوروں کو زبردستی مرکزی ہان چینی ثقافت میں ضم کرنا ہے۔ ایغوروں اور دیگر ترک نژاد مسلمانوں کے خلاف کیے گئے مظالم میں بڑے پیمانے پر بلاجواز حراست اور قید، تشدد، جبری گمشدگیاں، وسیع نگرانی، ثقافتی اور مذہبی جبر، خاندانوں کی جبری علیحدگی، جبری مشقت، جنسی تشدد، اور تولیدی حقوق کی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ چینی حکام نے بیرونِ ملک مقیم ایغوروں کو مختلف طریقوں سے سرحد پار جبر کا نشانہ بنایا ۔ 2016 سے، سنکیانگ میں حکام نے غیر ملکی روابط کو ایک قابلِ سزا جرم بنا دیا ہے۔ وہ ایغور جو '26 حساس ممالک' میں سے کسی ایک میں گئے ہیں ،جن میں زیادہ تر مسلم اکثریتی ممالک جیسے کہ قازقستان، مصر، ترکی، ملائیشیا، اور انڈونیشیا شامل ہیں، وہاں ان کے اہل خانہ رہتے ہیں، یا وہاں کے لوگوں سے رابطے میں ہیں، انہیں تفتیش، حراست، اور کئی صورتوں میں مقدمات اور قید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

چینی و بین الاقوامی قانون

چین کے اخراج و دخول انتظامی قانون کی دفعہ 12(5) میں یہ وسیع اختیار دیا گیا ہے کہ ایسے شہری جو 'قومی سلامتی یا مفادات کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، انہیں ملک سے باہر جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، پاسپورٹ قانون کی دفعہ 13 حکام کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ ان افراد کو پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کر سکتے ہیں جن کا ملک چھوڑنا وسیع پیمانے پر 'قومی سلامتی کے لیے نقصان دہ یا قومی مفادات کو بھاری نقصان پہنچانے والا عمل' سمجھا جائے۔

آزادیِ نقل و حرکت کا حق عالمی اعلامیہ برائے انسانی حقوق کے تحت تسلیم شدہ ہے، جو روایتی بین الاقوامی قانون کی عکاسی کرتا اور یہ حق بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق (آئی سی سی پی آر) کے تحت بھی محفوظ ہے، جس پر چین دستخط کر چکا ہے۔ آئی سی سی پی آر کی دفعہ 12 کے مطابق، ہر شخص کو کسی بھی ملک، بشمول اپنے ملک، کو چھوڑنے کی آزادی حاصل ہوگی۔

اقوامِ متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے آزادیِ نقل و حرکت کے حق پر اپنی عمومی تشریح میں بیان کیا کہ 'چونکہ بین الاقوامی سفر کے لیے عام طور پر مناسب دستاویزات، خاص طور پر پاسپورٹ، درکار ہوتے ہیں، اس لیے کسی ملک کو چھوڑنے کے حق میں ضروری سفری دستاویزات حاصل کرنے کا حق بھی شامل ہونا چاہیے۔' حکومتیں آزادیِ نقل و حرکت کو صرف اسُی صورت میں محدود کر سکتی ہیں جب یہ 'قانون کے مطابق' ہو اور جب یہ 'قومی سلامتی، عوامی نظم و نسق، عوامی صحت یا اخلاقیات، یا دوسروں کے حقوق و آزادیوں کے تحفظ' کے لیے ضروری ہو۔

ایسی غیر امتیازی پابندیاں کسی ایک یا زیادہ جائز مقاصد کے حصول ، مطلوبہ مقصد کے لحاظ سے متناسب اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کم سے کم محدود کرنے والے اقدامات پر مشتمل ہونی چاہئیں۔ قانونی مقاصد کا حوالہ دینے والی پابندیوں کو یہ واضح کرنا چاہیے ، مثال کے طور پر،کہ اگر باہر جانے سے منع کیے گئے لوگوں کوجانے کی اجازت دی جائے توقومی سلامتی کو کس طرح خطرہ لاحق ہوگا ۔

سنکیانگ میں حالیہ عملی اقدامات ایغوروں کے ملک چھوڑنے کے حق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ یہ بلاجواز اور امتیازی ہیں۔

Your tax deductible gift can help stop human rights violations and save lives around the world.

Region / Country
Tags