Skip to main content

تھائی لینڈ ایک دہائی کی من مانی حراست کے بعد ایغوروں کو چین بھیج رہا ہے

عالمی برادری نے ایک بار پھر ایغوروں کو مایوس کیا ہے

Published in: The Diplomat
Armed Chinese police officers patrol in Yarkand County, Xinjiang Uyghur Autonomous Region, June 11, 2015. © Kyodo via AP Images

27 فروری کو ایک سے دوسرے ڈراؤنے خواب کے بعد میری آنکھ کھلی۔ میرے فون پر پیغامات کی بھرمار تھی۔ چائنا سدرن ائیرلائنز کی ایک غیر طے شدہ پرواز نے صبح 4:48 بجے بنکاک سے اُڑان بھری اورچین میں سنکیانگ ایغور خود مختار علاقے کے جنوب میں واقع ایک شہر، کاشغر میں اُتری۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں چینی حکومت گزشتہ دہائی سے ایغوروں کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں میں پلا بڑھا ہوں۔.

پرواز میں کم از کم 40 ایغور مرد تھے جوایک دہائی قبل چین سے فرار ہوئے تھے۔ وہ اُن سینکڑوں ایغوروں میں سے تھے جنہوں نے 2014 میں جنوب مشرقی ایشیا کے خطرناک زمینی راستے سے بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ کچھ نے ترکیے کو قدرے محفوظ تصور کیا۔ دیگر تھائی حکام کی تحویل میں آگئے اور انہیں امیگریشن حراست میں رکھا گیا۔

جولائی 2015 میں تھائی لینڈ نے 170کے قریب ایغور عورتوں اور بچوں کو ترکیے کےلیے رہا کیا ۔ لیکن انہوں نے 109 مرد چین کے حوالے بھی کیے جن کے چہروں پہ کپڑا اور ہاتھوں میں بیڑیاں لگی ہو‎ئی تھیں۔

باقی کئی درجن مردوں کو من مانے طور پر غیر معینہ مدت اورغیر قانونی طور پر تھائی امیگریشن حراست میں چھوڑ دیا گیا۔ 27 فروری کی صبح ، 10 برسوں کی خوفناک حراست کے بعد ، جس کے دوران کم از کم 3 افراد بری حالت میں انتقال کر گئے، تھائی لینڈ نے بقیہ گروپ کو صبح سویرے چین جانے والے جہاز میں زبردستی سوار کر دیا۔

لندن کی محفوظ پناہ گاہ میں ، مَیں تھائی میڈیا کی ایک وڈیو دیکھنے کے بعد سوگیا جس میں کئی ٹرک ڈھکے شیشوں کے ساتھ بنکاک کا امیگریشن حراستی مرکزچھوڑتے دکھائی دے رہے تھے، جہاں لوگوں کو قید رکھا گیا تھا۔ ہر طرح کی مایوسی کے باوجود میں نے دل ہی دل میں امید کی کہ یہ سب کچھ ایک غلط فہمی تھی۔

تقریباً ا یک دہائی پہلے، مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بغیر اجازت چین چھوڑنے کے بعد زبردستی واپس بھیجے جانے والے میرے ایغور دوستوں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آبائی شہر میں ایک عدالت کےسامنے سینکڑوں لوگوں کا ہجوم دیکھا جب دو ایغور مردوں کوملائیشیا سے زبردستی واپس بھیجنے کے بعد طویل قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ایک شخص نے کہا،" وہ آزادی کے قریب پہنچ چکے تھے" ۔

دوسرے شخص نے روتے ہوئے کہا،"وہ انہیں واپس کیوں بھیجیں گے ؟ کیا لوگ نہیں جانتےکہ ان کے ساتھ کیا ہوگا؟"

ہم نے ناامیدی، بےبسی اور شدید مایوسی کے ساتھ عدالت کےباہر انتظار کیا۔ ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں تھی جو کہ بظاہر ایک عوامی سماعت تھی۔ بھاری اسلحہ سے لیس پولیس کی موجودگی کے باوجود ہم نے محض اس لیے انتظار کیا کہ ہم ان دو افراد کو تھوڑی دیر کے لیے دیکھ سکیں اس سے پہلے کہ اُنہیں ایک تاریک سیل میں لے جایا جائے۔

یہ منظر گزشتہ ہفتوں سے میرے ذہن میں چل رہا تھا جب سے تھائی لینڈ کی جانب سے ان لوگوں کو واپس بھیجنے کی افواہیں گردش کرنے لگی تھیں۔

ان لوگوں نے 10جنوری کو ایک عوامی خط میں لکھا '' ہم قید ہوسکتے ہیں ، ہماری جانیں بھی جاسکتی ہیں۔ ہم تمام بین الاقوامی تنظیموں اور انسانی حقوق سے متعلق فکر مند ممالک سے فوری مداخلت کی درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں اس المیہ سے بچایا جائے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔''

میں اور میرے ساتھی کارکنان نے اُن مردوں کی مایوس کن اپیلوں کو اجاگر کرنے کوشش کی۔ ہم نے تھائی حکام ، اقوام ِمتحدہ اور متعلقہ حکومتوں سے درخواست کی۔

لیکن اقتدارمیں بیٹھے لوگوں نےاُن کی مدد نہیں کی۔

تھائی لینڈ نے ان مردوں کو آزاد کرنے اور انہیں کسی محفوظ تیسرے ملک سفرکرنے کی اجازت دینے کی بجائے چین کے دباؤ کو تسلیم کیا۔ تھائی حکام نے اقوامِ متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کو ان مردوں تک رسائی دینے سے کئی بار انکار کیا،جس کی وج سے انہیں پناہ گزین کا درجہ اور ازسرِنو آبادکاری کا موقع نہ مل سکا۔

اس انتہائی ظالمانہ جلاوطنی کی بدولت تھائی لینڈ نے اپنےہی قوانین اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی۔

2023 میں، تھائی حکومت نے بین الاقوامی قانونی اصول (non-refoulement) جو ممالک کو کسی شخص کو واپس بھیجنے سے منع کرتا ہے جہاں انہیں ظلم و ستم کا حقیقی خطرہ ہو، کو اپنے ملکی قانون میں شامل کیا۔ ملک بدری کے آخری لمحے تک، تھائی اہلکار، بشمول وزیرِ اعظم پیٹونگٹرن شیناواترا بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے کے جھوٹے عہد کرتے رہے اور بار بار یقین دہانی کراتے رہے کہ ان لوگوں کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا۔

اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ تھائی اور چینی اہلکار اب تاریخ دوبارہ لکھنے اور ایغوروں کے خلاف ظلم کوچھپانےکے لیے مل کر کام کر رہے ہیں، اور ان مردوں کی زبردستی واپسی کو خاندانی "ملاپ" کے ایک فیاضانہ عمل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

یہ افراد اب جس حقیقت کا سامنا کر رہے ہیں اس سے زیادہ مختلف نہیں ہو سکتی۔ 2016 کے آخر سے، چینی حکومت سنکیانگ میں ''کاری ضرب لگاؤمہم'' چلا رہی ہے، جس میں تقریباً 10 لاکھ ایغور اور دیگر ترک مسلمانوں کو سیاسی تعلیم کے کیمپوں میں غیرقانونی حراست میں رکھاگیا ہے، جہاں انہیں جبری مشقت اور خاندانی علیحدگی سمیت مختلف ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ افراد محض اس وجہ سے طویل مدتی قید میں ہیں کہ، مثال کے طور پر، ان کے فون میں قرآن کی تلاوت موجود تھی۔ ایغور اب غیر فطری نگرانی اور دباؤ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں جس کا مقصد نہ صرف انہیں محکوم بنانا ہے بلکہ انہیں "عظیم مادرِ وطن" کے لیے اظہار ِتشکر پر مجبور کرنا بھی ہے۔

سنکیانگ میں اب کوئی بھی عدالت کے سامنے اکٹھا ہونے کی ہمت نہیں کرتا۔ حتیٰ کہ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ اب کوئی عدالتی سماعت ہوگی کہ نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ مرد میرے والد،محمد یعقوب، کے ساتھ اسی کمرے میں ہوں گے۔ میرے والد 2018 میں غائب ہو گئے تھے اور اب بغیر کسی جرم کے 16 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

اپنے ڈراؤنے خوابوں میں، مَیں اپنے والد کو نہیں بچا سکتا جس طرح میں ان ایغور لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکا۔

عالمی برادری ایغوروں کو اور کتنی بار مایوس کرے گی ؟

Your tax deductible gift can help stop human rights violations and save lives around the world.

Region / Country
Tags