(جکارتہ) – پاکستانی حکام نے 2022 میں ذرائع ابلاغ، سول سوسائٹی کے گروپوں اور حزبِ اختلاف کے کارکنوں کے خلاف کارروائیاِں تیز کی، جبکہ اقلیتوں اور خطرے سے دوچار دیگر طبقوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہے، ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنی عالمی رپورٹ 2023 کہا کہ تباہ کن سیلاب جس نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا، کا سب سے زیادہ اثر غریبوں پر پڑا، جو پہلے ہی انتہائی مہنگی خوراک اور ایندھن کی قیمتوں کی بدولت شدید معاشی بحران سے دوچار تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوسمین نے کہا کہ پاکستان میں آزادانہ اظہار اور اختلافِ رائے کی جگہ تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے۔ "پاکستان کے سیاست دان اقتدار کی کشمکش میں پڑے ہوئے ہیں جس کی قیمت ذرائع ابلاغ اور متحرک سول سوسائٹی کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔"
712 صفحات پر مشتمل عالمی رپورٹ 2023 کے 33 ویں شمارے میں، ہیومن رائٹس واچ نے 100 کے قریب ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ اپنے تعارفی مضمون میں، قائم مقام ایگزیکٹو ڈائریکٹر تیرانہ حسن کہتی ہیں کہ ایک ایسی دنیا میں جس میں طاقت بدل چکی ہے، انسانی حقوق کے دفاع کے لیے زیادہ تر عالمی شمالی حکومتوں کے ایک چھوٹے سے گروپ پر انحصار کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ یوکرین میں روس کی جنگ کے ارد گرد دنیا کا متحرک ہونا ہمیں اس غیر معمولی صلاحیت کی یاد دلاتا ہے جب حکومتوں کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داری انفرادی ممالک پر ہے، بڑے اور چھوٹے، اپنی پالیسیوں پر انسانی حقوق کے نظام کا اطلاق کریں، اور پھر انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے مل کر کام کریں۔
پاکستانی حکام نے حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے پر انسانی حقوق کے دفاع کاروں اور صحافیوں کو ہراساں کیا اور بعض اوقات اُن کے خلاف مقدمات چلائے۔ ذرائع ابلاغ کے ارکان پر پُرتشدد حملے بڑھے ہیں۔ حکام نے توہین مذہب کے الزامات اور سیاسی مخالفین اور صحافیوں کے خلاف نوآبادیاتی دور کے وسیع تربغاوت کے قانون کا استعمال کیا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ قیادت حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ ِانصاف (پی ٹی آئی) کے ایک سینئر عہدیدار شہباز گل کو 9 اگست کو ایک ٹی وی انٹرویو میں فوج پر تنقید کرنے کی پاداش میں بغاوت اور بغاوت پر اُکسانے کے الزام میں اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا۔ پاکستان تحریکِ ِانصاف سے منسلک کارکنوں نے معروف ٹیلی ویژن صحافی غریدہ فاروقی کو ریپ کی دھمکیاں دیں۔ اگست میں، وقار ستی نامی صحافی کو ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے پر توہینِ مذہب کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ویڈیو میں عمران خان کے اقتباسات کا حوالہ دیا تھا۔
حکومتِ پاکستان توہینِ رسالت کے قانون کی دفعات کو تبدیل یا منسوخ کرنے میں ناکام رہی۔ یہ قوانین مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کا بہانہ فراہم کرتے ہیں اور ان کی بےجا گرفتاری اور قانونی چارہ جوئی کے خطرے سے دوچار کرتے ہے۔ جماعتِ احمدیہ کے ارکین توہینِ رسالت کے قوانین کے ساتھ ساتھ مخصوص احمدی مخالف قوانین کے تحت ناجائز قانونی کاروائیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ عسکریت پسند گروپ اور اسلامی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک (ٹی ایل پی) احمدیوں پر "مسلمان ظاہر کرنے" کا الزام لگاتے ہیں۔ ضابطہ فوجداری پاکستان بھی "مسلمان ظاہر کرنے" کو ایک فوجداری جرم کے طور پر دیکھتا ہے۔ جنوری میں، ایک انسداد سائبر جرائم عدالت نے ایک خاتون عنیقہ عتیق کو واٹس ایپ پر "گستاخانہ مواد" شیئر کرنے پر سزائے موت سنائی۔ فروری میں، مشتاق احمد، جو کہ نفسیاتی مرض کا شکار تھا، کو پنجاب کے علاقے میں خانیوال میں مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ایک ہجوم نے سنگسار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
پاکستان میں 2022 میں آنے والے سیلاب سے 1500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے، اور گھروں اور اہم انفراسٹرکچر کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اسے عالمی اوسط سے کافی زیادہ درجہ حرارت کا سامنا ہے۔ یہاں مزید شدید بارشوں کا امکان ہے جس سے مزید سیلاب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت نے عالمی مدد طلب کی اور دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کامیابی کے ساتھ گلوبل نارتھ کی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ موسمیاتی اجلاس سی او پی 27 میں معاوضہ فنڈ بنانے پر رضامند ہوں۔ لیکن اس نے اپنی بنیادی کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے مناسب طریقے سے تیاری اور ضروری اقدامات اقدامات نہیں کیے ۔
سیلاب نے خواتین اور بچوں کے لیے صحت کے شعبےمیں دیرینہ عدم مساوات کو مزید سنگین کیا ہے۔ سیلاب سے متاثر ہونے والی 650,000 حاملہ خواتین اور لڑکیوں میں سے 73,000 کو غیر محفوظ حالات میں بچوں کو جنم دینا پڑا، جس سے زچگی کی صحت کے تحفظ پر پاکستان کی پہلے سے خراب کارکردگی مزید خراب ہوئی۔ سیلاب میں 400 سے زائد بچے ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ یونیسیف نے رپورٹ کیا کہ سیلاب کے فوری بعد کم از کم چونتیس لاکھ بچوں کو فوری انسانی امداد کی ضرورت تھی اور وہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار تھے۔ اگست تک، تقریباً ایک کروڑ ساٹھ لاکھ متاثرہ بچے رہائش اور پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم تھے۔