(بنکاک) - ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنی عالمی رپورٹ 2024 میں کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے 2023 میں اختلافِ رائے کا اظہار کرنے والے ذرائع ابلاغ، سیاسی مخالفین اور غیر سرکاری تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ پاکستان کا حالیہ معاشی بحران جس کا شمار ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانوں میں ہوتا ہے، کے دوران حکومت عوام کے سماجی تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں پاکستانی شہریوں کی صحت، خوراک اور مناسب معیار ِزندگی کے حقوق پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔ غیر رجسٹرڈ افغانوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے عمل کے دوران اُنہیں پولیس کی بے جا کارروائیوں سے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا تھا۔ اُن لوگوں کو بھی ملک بدر کیا گیا جن کا دعویٰ ہے کہ انہیں پاکستان میں باقاعدہ پناہ ملی ہوئی تھی۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہا، "پاکستانی حکومت اُن لاکھوں پاکستانیوں کی مدد کے لیے خاطر خواہ اقدامات کرنے میں ناکام رہی جو گذشتہ سال غربت میں دھکیلے گئے ۔" "حکام پاکستان میں لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی بجائے اختلافی آوازوں کو دبانے پر زیادہ توجہ دیتے نظر آئے۔"
734 صفحات پر مشتمل ''عالمی رپورٹ '2024 ''کے چونتسیویں شمارے میں ہیومن رائٹس واچ نے لگ بھگ ایک سو ممالک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ترانہ حسن نے اپنے افتتاحی مضمون میں کہا کہ 2023 انتہائی اہم سال ثابت ہوا نہ صرف انسانی حقوق پر پابندیوں اور جنگ کے دوران مظالم کی وجہ سےبلکہ پسند و ناپسند کی بنیاد پر حکومتوں کے غیض و غصب اور لین دین کی سفارت کاری کی وجہ سے بھی جس سے اُن لوگوں کے حقوق شدید متاثر ہوئے جو اُس بیوپار کا حصہ نہیں تھے۔ تاہم، اُنہوں نے کہا ہے کہ امید کی کرنیں بھی نمودار ہوئیں جن سے مثبت راستے کا امکان نظر آ رہا ہے۔ اُنہوں نے حکومتوں سے مستقل مزاجی کے ساتھ انسانی حقوق کی ذمہ داریاں نبھانے کا مطالبہ کیا ہے۔''
پاکستانی حکام نے حکومت پر تنقید کے ردِعمل میں ذرائع ابلاغ پر دباؤ بڑھایا۔ صحافیوں نے سرکار کی دھونس دھمکیوں، ایذا رسانی اور کڑی نگرانی کی شکایت کی۔ حکومت نے بین الاقوامی تنظیموں کو ضابطے میں لانے والے قوانین کو انسانیت دوست اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی رجسٹریشن اور کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ 11 مئی کو صحافی عمران ریاض خان کو اُس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ عمان جانے کی کوشش کر رہے تھے اور ستمبر تک بغیر کسی الزام کے چار ماہ تک اُنہیں بے جا حراست میں رکھا گیا۔
9 مئی کو فوجی تنصیبات پر مظاہرین کے پُرتشدد حملوں کے بعد، حکومت نے حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعت کے ارکان اور حامیوں کی پکڑ دھکڑ کی۔ وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام لگایا کہ حکام نے بدعنوانی اور فسادات کے الزامات میں گرفتار کیے گئے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کو باضابطہ قانونی کارروائی اور منصفانہ ٹرائل کے حقوق سے محروم رکھا۔ کچھ سیاست دانوں اور صحافیوں پر پاکستان کے مبہم اور حد سے زیادہ وسیع بغاوت کے قانون کے تحت مقدمے درج کیے گئے، جو کہ نوآبادیاتی دور کا قانون ہے، اور درجنوں لوگوں کے خلاف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا گیا۔ مارچ میں، عدالتِ عالیہ، لاہور نے بغاوت کے قانون کو غیر آئینی قرار دیا تھا، لیکن حکومت نے فیصلے کے خلاف اپیل کی اور قانون کا اطلاق جاری رہا۔ اگست میں، ایمان مزاری حاضر، جو کہ ایک وکیل اور سیاسی کارکن ہیں، پر اسلام آباد میں تقریر کرنے پر بغاوت کا الزام عائد کیا گیا۔
حکومت مذہب کی بے حرمتی کے قانون کی دفعات میں ترمیم یا انہیں منسوخ کرنے میں ناکام رہی جو مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے ساتھ ساتھ من مانی گرفتاریوں اور مقدمہ سازی کا بہانہ فراہم کرتی ہیں۔ اگست میں، سینکڑوں افراد نے صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں ایک مسیحی بستی پر حملہ کیا، جب کمیونٹی کے دو افراد پر "مذہب کی بے حرمتی" کا الزام عائد کیا گیا۔ پتھروں اور لاٹھیوں سے مسلح ہجوم نے کئی گرجا گھروں، درجنوں گھروں اور ایک قبرستان میں توڑ پھوڑ کی۔
حکومتِ پاکستان نے قانونی دستاویزات کے بغیر مقیم افغانوں کو یکم نومبر تک پاکستان چھوڑنے کو کہا گیا، اور انہیں ملک نکلنے پر مجبور کرنے کے لیے دھمکیوں، بدسلوکی اور گرفتاریوں کا سہارا لیا۔ اگر وہ ملک نہیں چھوڑتے تو دوسری صورت میں اُنہیں پاکستان سے جبری بے دخلی کے لیے تیار رہنے کا کہا گیا۔ دسمبر تک 327,000 سے زیادہ افغانوں کو بے دخل کیا جا چکا تھا جن میں ہزاروں پناہ گزین اور پناہ کے طلب گار تھے۔