افغانستان کے عوام کئی برسوں سے کشیدگی میں ملوث تمام فریقین کے ہاتھوں زیادتیوں اور مظالم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ ہفتوں میں، طالبان کے مظالم بڑھ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ 15 اگست کو کابل پر قبضے سے پہلے بھی طالبان کی افواج مظالم کر رہی تھیں جن میں اُن کی تحویل میں سرکاری اہلکاروں اور سیکیورٹی فورسز کے اراکین کا سرسری عدالت کے بعد قتل بھی شامل ہے۔ تب سے کابل میں، وہ صحافیوں اور کارکنان کے گھروں پر چھاپے مار رہے ہیں، بظاہر اُن لوگوں تلاش کرنے کے لیے جنہوں نے ماضی میں اُنہیں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں اُنہوں نے لڑکیوں کی تعلیم اور عورتوں کے کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔
اِتنی گھمبیر صورتحال جس پر کونسل کا خصوصی اجلاس ہو گا، ٹھوس ردِعمل کی متقاضی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ کونسل اِن مظالم کے تدارک کے لیے فی الفور ایک قرارداد منظور کرے جس کے ذریعے اِس صورتحال کی عالمی نگرانی و جوابدی کا نظام وضع ہو سکے۔
اِس کے باوجود، میز پر پڑا متن صرف ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی ایک رپورٹ پر بحث کا تقاضا کر رہا ہے جس کی پہلے سے منظوری ہو چکی ہے۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے دفاع کاروں اور عورتوں کے حقوق کے کارکنان جو اپنے اردگرد قانون کی حکمرانی کو زمین بوس ہوتے دیکھ کر خوف کی حالت میں ہیں، کے لیے قرارداد کا مسودہ صورتحال پر مناسب ردِعمل کی بجائے اُن کی توہین ہے۔
کئی ریاستیں قابلِ فہم طور پر کابل کے ہوائی اڈے پر انخلاء کے بحران میں مصروفِ عمل ہیں، جو کہ بذاتِ خود اِس امر کی گواہی ہے کہ افغانستان میں رہ جانے والوں کے انسانی حقوق بشمول حقِ زندگی شدید خطرے سے دوچار ہیں۔
اگرچہ مسودے کا متن تنظیم تعاون اسلامی نے تیار کیا ہے، قابلِ بھروسہ نتیجے کو یقینی بنانا کونسل کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
چونکہ مظالم میں اضافہ ہو رہا ہے، لہذا بامعنی کاروائی میں ناکامی سے مجرموں کو سزا سے استثنیٰ کا عندیہ ملے گا۔ اِس کے علاوہ، اس کونسل کے اراکین متاثرین کے عزیزواقارت کو کیا وضاحت دیں گے کہ اُن کے پاس آج کچھ کرنے کا موقع تھا مگر انہوں نے چشم پوشی کو ترجیح دی۔
ہم کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ افغانستان کے انسانی حقوق کے دفاع کاروں اور ملک کے انسانی حقوق کے اداروں کی استدعا پر توجہ دے اور نگرانی کا کوئی نظام وضع کرے جس کی اشد ضرورت ہے۔
جیسا کہ یواین سیکرٹری جنرل نے حال ہی میں سلامتی کونسل سے اپنے خطاب کے دوران کہا: ''ہم افغانستان کے عوام کو بےیارومددگار نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ہی ہمیں چھوڑنا چاہیے۔''