(نیو یارک) ۔ پاکستان حکام نے سر گرم کارکنان اورصحافیوں کی اختلافی آوازوں کو قومی مفاد کا بہانہ بنا کر دبانے کی کوشش کی ہے ۔ یہ بات ہیومن رائٹس واچ کی آج جاری کردہ ورلڈ رپورٹ 2019میں بیان کی گئی ہے ۔حکومت ملک کی مذہبی اقلیتوں کے خلاف عسکریت پسند گروہوں کے حملوں اور ناجائز مقدمات کو روکنے میں ناکام رہی ہے ۔
’’ پاکستان کی پے در پے حکومتوں کی جانب سے انتہا پسند گروہوں کی حوصلہ افزائی سے ایک ایسی فضاپیدا ہو گئی ہے جس میں مذہبی اقلیتیں اور مذہبی بے حرمتی کے قوانین کے خلاف آواز اٹھانے والے
خوف کا شکار ہیں ۔‘‘بریڈ ایڈم ہیومن رائٹس واچ ایشیا ڈائریکٹرنے یہ بات کہی ہے انہوںنے مزیدکہا کہ نئی حکومت کوچاہیے کہ وہ ہمت سے کام لیتے ہوئے انتہا پسندوں کا مقابلہ کرے اور تشدد کے ذمہ داروں کوکیفیر کردار تک پہنچائے ۔‘‘
ہیومن رائٹس واچ نےاپنی … صفحات پر مشتمل ورلڈ رپورٹ برائے 2019ئ کے انتسویں ایڈیشن میں کہا ہے کہ وہ 100سے زائد ممالک میں انسانی حقوق کا جائزہ لیتی ہے ۔ کینتھ راتھ ایگزیکٹوڈائریکٹر نے اپنے تعارفی مضمون میں کہا ۔’’عوامی حمایت کے خواہش مند جو کئی ملکوں میں نفرت اور عصبیت کو پھیلا رہے ہیں ان کو تحقصیر آمیز مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ حقوق کی پاسداری کرنے والی حکومتوں کے نئے اتحاد بن رہے ہیں جن کا اکثر محرک عام آبادی کے گروہ ہیں اور اس سے مطلق العنان زیادتیوں کا خمیازہ بڑھ گیا ہے ۔ ان کی کامیابیوں سے انسانی حقوق کے دماغ کے امکانات زیادہ روشن ہیں ۔ بلا شبہ سیاہ دور میں بھی ایسا کرنا ان کی ذمہ داری ہے ۔‘‘
پاکستان تحریک انصاف پارٹی نے جولائی2018ء میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتیں اور اس کے رہنما عمران خان نے اگست میں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے ۔ پاکستان میں یہ متواتر دوسری دفعہ آئینی طورپر ایک سویلین حکومت سے دوسری سویلین حکومت کو انتقال اقتدا ر ہوا ہے ۔ انتخابی مہم میں خان نے معاشی ترقی کا وعدہ کیا تھا اورکہا تھا کہ سماجی انصاف اس کی ترجیح ہو گی ۔
انتخابات کے بعد تاہم خان کی حکومت نے بین الاقوامی گروہوں بشمول بچوںکے بچائو (save the children)اور اوپن سوسائٹی فائونڈیشن ( Open Society Foundation)کے خلاف کارروائی جاری رکھی اور ایسی اٹھارہ تنظیموں کوپاکستان میں اپنی سر گرمیاں ختم کرنے کا حکم دیا ۔ حکومت نے مقامی تنظیموں جن میں کچھ خطر ناک گروہوں پر کام کرتی ہیں ان پر غیر ملکی امداد لینے پر پابندیاں عائد کیں ۔ حکام ذرائع ابلاغ پر دبائو ڈالتے ہیں کہ وہ کچھ موضوعات مثلاً حکومتی اداروں پر تنقید ، افواج اور عدلیہ کو زیر بحث نہ لائیں۔
خواتین ، مذہبی اقلیتیں اور تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے افراد پر تشدد حملوں کی زد میں رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ انہیں امتیازی سلوک اورحکومت کی طرف سے جبر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے اکتوبر میں 47سالہ آسیہ بی بی ، صوبہ پنجاب کے دیہات سے تعلق رکھنے والی عیسائی خاتون کی سزا کو ختم کر دیا اوراسے رہا کرنے کا حکم نامہ جاری کیا ۔ آسیہ بی بی آٹھ سال تک پھانسی دئیے جانے کا انتظار کرتی رہی ۔ مذہبی بے حرمتی کے حامی گروہوں نے آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا ۔ سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا ، عدالت عظمیٰ کے ججوں ، اور فوجی قیادت کو پر تشدد ھمکیاں دیں۔
حکومتی عہدیداران اور نجی افراد کی جانب سے مذہبی بے حرمتی کے الزامات اور اسی قسم کی دیگر بیان بازی میں 2018 میں مزید اضافہ ہوا ہے۔بہرحال حکومت نے قانون میں کوئی ترمیم نہ کی بلکہ غیر محفوظ گروہوں کے خلاف امتیازی کارروائی اور قانون کے غلط استعمال کی حوصلہ افزائی کی ۔
’’ایڈم کے مطابق ‘‘وزیر اعظم عمران خان کو حقوق کی پاسداری کرنے اور قانون کی عملداری کی بنیاد پر حکومت قائم کرنے کا ایک اہم موقع ملا ہے ۔ پہلے مرحلہ میں حکومت کوچاہیے کہ وہ امتیازی قوانین جو غیر مراعات یافتہ شہریوں کے خلاف تعصب اور جبر کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کو منسوخ کر دیں‘‘۔