(نیو یارک)- ہیومن رائٹس واچ نے آج اپنی عالمی رپورٹ 2020 میں کہا ہے کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر میں ہندوستانی حکومت کے یکطرفہ اقدامات نے کشمیری عوام کے لیے بھاری تکالیف پیدا کی ہیں اور انسانی حقوق کی زیادتیوں کا موجب بنے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے صوبے کا خصوصی آئینی مقام ختم کیا اور اسے دو مختلف علاقوں میں تقسیم کر دیا جنہیں وفاق کے ذریعے کنٹرول کیا جائے گا۔
ہندوستانی حکومت مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی، پُرامن اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے بغاوت اور انسداد دہشت گردی کے ظالمانہ قوانین کا استعمال کیا اور حکومتی اقدامات اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کی زبان بندی کے لیے غیرملکی فنڈنگ قواعد اور دیگر قوانین کا استعمال کیا۔
''ہندوستانی حکومت نے کشمیر کو بند کرنے کی کوشش کی، وہاں پہنچنے والے نقصان سے پردہ ڈالنے کے لیے،'' ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشاء ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا۔ ''مذہبی اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے حملوں سے نبٹنے کی بجائے، ہندوستانی حکام نے 2019 میں تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنے کی اپنی کوششیں تیز کیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنے 652 صفحات پر مبنی عالمی رپورٹ 2020 جو کہ ایچ آر ڈبلیو کی سالانہ عالمی رپورٹ کا تسیواں شمارہ ہے، میں لگ بھگ 100 ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ اپنے تعارفی مضمون میں، ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینیتھ روتھ نے کہا ہے کہ چینی حکومت جو اقتدار میں رہنے کے لیے جبر پر منحصر ہے، کئی عشروں سے انسانی حقوق کے عالمی نظام پر شدید حملے کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیجنگ کے اقدامات دنیا بھر میں عوامیت پسند جابر حکمرانوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں اور ان سے مدد بھی لے رہے ہیں، جبکہ چینی حکام حکومتوں کی تنقید سے بچنے کے لیے معاشی طاقت بروئے کار لاتے ہیں۔ اس حملے جوانسانی حقوق پر عشروں کی محنت اور ہمارے مستقبل کے لیے خطرہ ہے، کی مزاحمت ضروری ہے۔
جموں و کشمیر میں اقدامات سے پہلے، حکومت نے صوبے میں اضافی دستے تعینات کیے، انٹرنیٹ اور فون سروس بند کی، اور ہزاروں کشمیریوں کو بےجا طور پر حراست میں لے لیا جن میں سیاسی رہنماء، کارکن، صحافی، وکیل، اور ممکنہ مظاہرین اور بچے شامل تھے۔ مظاہروں کو روکنے کے لیے سینکڑوں لوگوں کو بغیر الزام کے قید میں رکھا گیا یا گھروں میں نظربند کیا گیا۔
حکومت مذہبی اقلیتوں اور دیگر غیرمحفوظ طبقوں پر بلوائی حملے جو اکثر بی جے پی کے حامیوں نے کیے، رکوانے کے لیے عدالتؚ عظمیٰ کی ہدایات کے مؤثر اطلاق میں ناکام رہی ہے۔ مئی 2015 سے اب تک، انتہاپسند ہندو گروہ گوشت کے حصول کے لیے گائے کی تجارت یا اسے ذبح کرنے کی افواہوں پر کان دھرتے ہوئے 50 لوگوں کو قتل اور 250 سے زائد کو زخمی کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا اور ہندوآنہ نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا۔ پولیس جرائم کی باقاعدہ تحقیقات کرنے میں ناکام رہی، تحقیقات روک دیں، قواعدوضوابط نظرانداز کیے، اور گواہوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے اُن کے خلاف فوجداری مقدمے درج کیے۔
فروری 2019 میں عدالتؚ عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ ان تمام لوگوں کو بےدخل کیا جائے جنگلات حقوق قانون کے تحت جن کے دعوے مسترد ہو گئے تھے۔ چنانچہ قبائلی برادریوں اور جنگلات میں مقیم لگ بھگ 20 لاکھ افراد سے ان کی رہائش اور روزگار چھن جانے کا خدشہ ہے۔
شمال مشرقی ریاست آسام میں حکومت نے شہریوں کے اندراج کا قومی رجسٹر شائع کیا۔ بنگلہ دیش سے بنگالیوں کی بے ضابطہ نقل مکانی پر بارہا ہونےوالے مظاہروں اور تشدد کے بعد ہندوستانی شہریوں اور قانونی رہائیشیوں کی نشاندہی کے لیے یہ اقدام کیا گیا تھا۔ فہرست سے لگ بھگ بیس لاکھ لوگوں کو خارج کیا گیا، جن میں سے کئی مسلمان ہیں اور کئی ایسے ہیں جو کئی برسوں سے ہندوستان میں مقیم ہیں، کئی نے اپنی ساری عمر ہندوستان میں گزاری ہے۔ ایسے سنگین الزامات ہیں کہ تصدیقی عمل من مانا اور امتیازی تھا۔ اگرچہ اپیل کا حق دیا گیا ہے مگر حکومت کا ارادہ ہے کہ اپیل کے بعد جن لوگوں کو شہریت نہیں ملتی ان کے لیے حراستی مراکز تعمیر کیے جائیں۔
سرکار نے یہ بھی کہا ہے کہ شہریت کی تصدیق کا اطلاق پورے ملک میں ہو گا اور حکومت ہمسایہ ممالک سے مسلمانوں کے علاوہ دوسرے بے ضابطہ پناہ گزینوں کو فہرست میں شامل کرنے کے لیے شہریتی قوانین میں ترمیم کرے گی۔
کشمیر میں ہندوستانی حکومت کے اقدامات روزگاراور تعلیم تک رسائی ختم کرے کا سبب بنے ہیں۔ جبر کا نتیجہ امریکہ کی کانگریس، یورپی پارلیمان، اور اقوامؚ متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق سمیت عالمی برادری کی تنقید کی صورت میں نکلا ہے۔ اقوامؚ متحدہ کے ماہرین نے ہندوستان میں کئی معاملات پر پورا برس تحفظات کا اظہار کیا جن میں ماورائے عدالت قتل، آسام میں لاکھوں لوگوں کی ممکنہ بے وطنی، قبائلی برادریوں اور جنگلوں میں مقیم لوگوں کی ممکنہ بے دخلی، اور کشمیر میں ذرائع مواصلات کی بندش شامل ہے۔