Skip to main content

افغانستان

2022 کے واقعات

کابل، افغانستان، میں ایک بیکری کے باہر کھانے کی ضرورتمند خواتین اور بچے، 28 فروری 2022

 

ٹیون ووٹین یوایس اے © 2022  بذریعہ اے پی امیجز

اگست 2021 میں اقتدار سنبھالنے والے طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد ایسے قوانین اور پالیسیوں کو مسلط کرنا جاری رکھا، جن کی بدولت نقل و حرکت کی آزادی، کام کرنے کا حق اور روزی روٹی، اور تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی  جیسے حقوق پامال ہوئے۔ حکام نے ذرائع ابلاغ اور طالبان کی حکمرانی کے ناقدین کو دبایا یا دھمکیاں دیں، سول سوسائٹی کی تنظیموں کو بند ہونے پر مجبور کیا، اور انسانی حقوق کو فروغ دینے یا محفوظ کرنے کے ذمہ دار سرکاری دفاتر کو ختم کر دیا۔

طالبان کی سیکیورٹی فورسز نے پورا سال سابق سیکیورٹی افسران اور ایسے لوگوں کو بےجا گرفتار کیا، ان پر تشدد کیا اور پھانسی دی جنہیں وہ اپنا دشمن تصور کرتے تھے۔ ان میں سابق حکومت کے سیکیورٹی اہلکار یا صوبہ خراسان کے مسلح گروپ دولتِ اسلامیہ (افغانستان سے وابستہ جسے دولت اسلامیہ یا آئی ایس پی کے کہا جاتا ہے) کے مبینہ اراکین یا حامی بھی تھے۔ دولتِ اسلامیہ صوبہ خراسان نے اسکولوں اور مساجد پر حملے کیے، جن میں زیادہ تر ہزارہ شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا ضابطہ فوجداری ہم جنس پرستانہ تعلق کو مجرمانہ فعل جرم قرار دیتا ہے، اور طالبان نے ہم جنس تعلقات کو مجرمانہ بنانے کے لیے پچھلی حکومت کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھا، ان کے کچھ رہنماؤں نے ہم جنس پرست عورتوں ، ہم جنس پرست مردوں ، بین جنس افراد اور خواجہ سراؤں (ایل جی بی ٹی) کے حقوق کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کا عزم کیا ہے۔

شدید معاشی بحران 2022 میں جاری رہا۔ عوامل نے اس بحران میں اہم کردار ادا کیا جیسے کہ 2021 میں ڈونر امداد میں بڑے پیمانے پر کٹوتی اور نتیجتاً ضروری ملازمین کی اجرتوں میں کٹوتی؛ ایک بڑے پیمانے پر نقدی کا بحران؛ اشیائے ضروریہ جیسے کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ؛ اور بیرونی حکومتوں کی پابندیاں جنہوں نے شعبہ بینکاری کو متاثر کیا۔ لاکھوں بچے شدید غذائی قلت کا شکار رہے۔ 90 فیصد سے زیادہ افغان سال غذائی عدم تحفظ کا شکار رہے۔ خواتین اور لڑکیاں معاشی بحران کی وجہ سے خاص طور پر متاثر ہوئیں۔ طالبان کی کارروائیوں سے بہت سی خواتین کو تنخواہ دار ملازمت سے محروم کیا گیا اور خواتین امدادی کارکنوں کو اپنے کام جاری رکھنے سے روک دیا گیا۔

خواتین اور لڑکیوں کے حقوق

اقتدار سنبھالنے کے بعد سے، طالبان نے قواعد و ضوابط کی ایک طویل اور بڑھتی ہوئی فہرست نافذ کی ہے جو خواتین اور لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق بشمول اظہار رائے، نقل و حرکت، کام اور تعلیم کے حصول سے مکمل طور پر روکتے ہیں جس سے ان کے تمام حقوق بشمول زندگی، معاش پناہ گاہ، صحت کی دیکھ بھال، خوراک، اور پانی تک رسائی متاثر ہوئے ہیں۔

مارچ 2022 میں، طالبان نے اعلان کیا کہ خواتین اور لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پابندی برقرار رہے گی، ایک ایسا فیصلہ جس پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے تمام اراکین، اسلامی تعاون تنظیم، جی7 اور جی20 سمیت دنیا بھر سے بڑے پیمانے پر تنقید اور تشویش کا اظہار کیا گیا۔

طالبان کی قیادت، جو مکمل طور پر مردوں پر مشتمل ہے، نے خواتین کو کسی بھی سطح پر حکمرانی میں حصہ لینے یا سول سروس میں ججوں سمیت کسی بھی اعلیٰ عہدہ پر فائز ہونے کی اجازت نہیں دی۔ حکام نے خواتین کو سفر کرنے یا گھر سے نکلنے سے منع کرنے والے قوانین کا اعلان کیا اور اکثر نافذ کیا۔ ان پر خاندان کے کسی مرد کے بغیر کام کی جگہ پر جانے پر پابندی بھی عائد کی۔ جوکہ تقریباً تمام خاندانوں کے لیے ایک ناممکن شرط ہے۔ اور خواتین کو زیادہ تر ملازمتیں اختیار کرنے سے روک دیا۔ حکام نے ایسے قوانین کا بھی اعلان کیا جن میں خواتین بشمول خواتین ٹی وی نیوز کاسٹرز کے لیے عام مقامات میں اپنے چہرے ڈھانپنے ضروری قرار دیے گئے اور یہ شرط عائد کی گئی کہ اگر کوئی خاتون نقل و حرکت اور لباس سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرے گی تو اس کے خاندان کے مردوں کو سزا دی جائے گی۔

طالبان فورسز نے طالبان کی پالیسیوں یا قواعد کے خلاف عوامی احتجاج میں شریک خواتین کو منتشر کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا، کچھ مظاہرین اور ان کے خاندان کے افراد کو بےجا حراست میں لیا، اور مبینہ طور پر کچھ کو تشدد یا مار پیٹ کا نشانہ بنایا۔

معاشی اور انسانی بحران

افغانستان کے انسانی بحران میں 2022 میں مزید بگاڑ پیدا ہوا جس کی بڑی وجہ طالبان کے قبضے کے نتیجے میں ملک کی معاشی تباہی تھی۔ 90 فیصد سے زیادہ آبادی پورا سال غذائی عدم تحفظ کا شکار رہی، بشمول کروڑوں ایسے لوگ جنہیں روزانہ کچھ اوقات کا کھانا چھوڑنے یا بغیر کھائے پورے دن گزارنا پڑا۔ مسلسل غذائی قلت نے بچوں میں بھوک سے ہونے والی اموات اور صحت کے طویل مدتی مسائل میں اضافہ کیا ہے۔

معاشی بحران کی متعدد وجوہات ہیں: 2022 میں، زیادہ تر دونرز امداد کم کر دی اور  صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور دیگر اہم خدمات فراہم کرنے والے ضروری ملازمین کی اجرت کم ہو گئی۔ بڑے پیمانے پر اجرت کی کٹوتی کے ساتھ ہی خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ 2022 کے دوران خشک سالی کی بدولت اور کھاد، ایندھن اور دیگر زرعی لوازمات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بھی کمی واقع ہوئی۔

افغانستان کے مرکزی بینک جسے دا افغانستان بینک (ڈی اے بی) کہتے ہیں، پر امریکی پابندیوں نے بینک کو ضروری مرکزی بینکنگ خدمات انجام دینے سے روکے رکھا جس سے بنیادی طور پر پوری معیشت تباہی کی حالت میں رہی۔ ڈی اے بی کی لاچارگی ایک نقدی کے بہت بڑے بحران کے ساتھ ساتھ امریکی ڈالر اور افغان کرنسی دونوں میں بینک نوٹوں کی کمی کا سبب بھی بنی، جس سے کاروباری اداروں، انسانی ہمدردی کی ایجنسیوں اور عام افغانوں کی جانب سے جائز مالیاتی شدید متاثر ہوئیں۔ 

خواتین اور لڑکیاں بحران سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئیں اور انہیں خوراک، صحت کی دیکھ بھال اور مالی وسائل کے حصول میں بڑی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ طالبان کی پالیسیوں نے خواتین کو خطیر معاوضہ دینے والی ملازمتوں سے محروم کیا، خاص طور پر ان گھرانوں کے لیے جہاں خواتین واحد یا بنیادی اجرت کمانے والی تھیں۔ جہاں طالبان نے خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی ہے، وہیں ظالمانہ شرائط کے باعث ایسا کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا تھا جیسے کہ خاندان کے کسی مرد کا خواتین کو کام پر لے جانا اور یہاں تک کہ پورے دن وہیں رہنا۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 2022 کے زیادہ تر عرصے میں تقریباً 100 فیصد خواتین کی سربراہی والے گھرانوں میں مناسب خوراک کی کمی تھی اور تقریباً سبھی اسے حاصل کرنے کے لیے "سخت اقدامات" کر رہے ہیں، بشمول ضروری گھریلو اشیاء کی فروخت، بچوں کو کام پر بھیجنا، یا بچیوں کو جہیز کے لیے کم عمری میں شادی بیاہنا۔

14 ستمبر 2022 کو، امریکی حکومت نے ''افغان فنڈ'' کے قیام کا اعلان کیا، جو کہ سوئس میں قائم ایک مالیاتی نظام ہے جس کا مقصد افغانستان کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کے لیے ایک ٹرسٹی کے طور پر کام کرنا اور ڈی اے بی کی جگہ محدود لین دین اور دیگر سرگرمیاں کرنا ہے۔ تاہم، کئی ضروری مرکزی بینکنگ خدمات اب بھی صرف ڈی ای بی  ہی انجام دے سکتا ہے، اور معاشی اثرات تب تک جاری رہیں گے جب تک کہ امریکہ ڈی اے بی  کی حیثیت کے بارے میں طالبان حکام کے ساتھ معاہدہ نہیں کرتا۔ افغانستان کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے طویل المدتی نقطہ نظر کے طور پر افغان فنڈ کے قابل عمل ہونے کے بارے میں سنگین خدشات برقرار رہے، اور تباہ شدہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات میں تاخیر کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑا۔

ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، تشدد، اور جنگی جرائم

طالبان فورسز نے انتقامی قتل و غارت گری کا ارتکاب اور سابق سرکاری اہلکاروں اور سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کو جبری طور پر لاپتہ کیا ہے۔ انہوں نے ایسے لوگوں کو بھی سرسری ٹرائل کر کے پھانسی دی ہے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ دولت اسلامیہ خراسان صوبہ (آئی ایس کے پی) کے ارکان ہیں۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یواین اے ایم اے) نے اگست 2022 میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں اگست 2021 سے طالبان فورسز کے ہاتھوں ہلاکتوں یا گمشدگیوں کے متعدد واقعات کی تفصیل دی گئی تھی۔ یہ جاننا ہمیشہ ممکن نہیں کہ ہلاک ہونے والے سابق سرکاری اہلکار تھے یا مبینہ  طور پر دولت اسلامیہ صوبہ خراسان کے اراکین۔

سال کے دوران متعدد واقعات میں، طالبان فورسز نے فوجی آپریشن اور رات کے وقت چھاپے مار کر ان لوگوں کو نشانہ بنایا جن پر وہ آئی ایس پی کے اراکین کو پناہ دینے یا مدد فراہم کرنے کا الزام لگاتے تھے۔ کئی کارروائیوں کے دوران، فوجیوں نے شہریوں پر حملہ کیا اور بغیر کسی کارروائی کے لوگوں کو حراست میں لیا۔ حراست میں لیے گئے افراد کو زبردستی لاپتہ کر دیا گیا یا بعض صورتوں میں سر قلم کر کے قتل کر دیا گیا۔ کچھ صوبوں میں، طالبان حکام نے خوف پھیلانے کے لیے لاشیں عوامی مقامات پر پھینک دیں یا سڑکوں یا چوراہوں پر لٹکا دیں۔

2021 کے آخر میں اور 2022 میں، ننگرہار کے رہائشیوں نے ایک نہر میں ایک اجتماعی قبر کھودی جس میں گلنے سڑنے کے مختلف مراحل میں کم از کم 45 لاشیں تھیں، جن میں سے بہت سی پر تشدد یا وحشیانہ پھانسی کے نشانات تھے: کچھ کے اعضاء غائب تھے، ان کے گلے میں رسیاں تھیں، یا سر قلم تھے۔

صوبہ پنجشیر میں، طالبان نے ان برادریوں کو نشانہ بناتے ہوئے تلاشی کی کارروائیاں کیں جن پر ان کا الزام تھا کہ وہ مسلح مخالف گروپ نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف) کی حمایت کر رہے تھے۔ انہوں نے مقامی باشندوں کو حراست میں لے کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ حکام نے اجتماعی سزائیں بھی دی اور ان حفاظتی تدابیر کو نظر انداز کیا جن کے زیر حراست افراد حقدار ہیں۔

دولت اسلامیہ خراسان صوبہ (آئی ایس پی کے) کے حملے

آئی ایس پی کے نے 2022 میں ہزارہ برادری کے خلاف متعدد بم دھماکوں اور مسلح حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جس میں کم از کم 700 افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔ 19 اپریل کو، آئی ایس پی کے نے دشت برچی، مغربی کابل کے ایک ہائی اسکول میں ایک خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی، جو کہ ہزارہ اور شیعہ اکثریتی علاقہ ہے، جس میں 20 طلباء، اساتذہ اور دیگر عملے کے افراد ہلاک یا زخمی ہوا۔

آئی ایس کے پی نے دو دن بعد مزار شریف میں سہ دوکان مسجد پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی جس میں 31 افراد ہلاک اور 87 دیگر زخمی ہوئے۔ 27 اپریل کو، نامعلوم مسلح افراد نے پانچ ہزارہ افراد کو سمنگان کے علاقے درہ صوف میں کر دیا جب وہ کوئلے کی کان کی طرف جا رہے تھے۔ 30 ستمبر کو، مغربی کابل میں، ایک بار پھر ہزارہ اکثریتی علاقے میں ایک تعلیمی مرکز پر حملے میں 53 افراد ہلاک اور 100 طلباء زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں تھیں۔

خطرے میں گھری برادریوں کو تحفظ فراہم کرنے اور زندہ بچ جانے والوں اور متاثرہ خاندانوں کو طبی اور دیگر امداد فراہم کرنے میں طالبان کی ناکامی نے حملوں سے ہونے والے نقصان کو مزید بڑھا دیا۔\

ان کی فوری تباہی سے ہٹ کر، حملے طویل مدتی نقصان کا سبب بھی بنے۔ زندہ بچ جانے والوں اور متاثرین کے خاندانوں کو روزی روٹی کمانے والے خاندانی افراد سے محروم کر دیا، اکثر شدید طبی بوجھ ڈالا، اور روزمرہ کی زندگی تک ان کی رسائی کو محدود کر دیا۔

ذرائع ابلاغ، تقریر کی آزادی

طالبان حکام نے کابل اور صوبوں میں افغان ذرائع ابلاغ کے خلاف وسیع پیمانے پر سنسر شپ اور تشدد کے ارتکاب کی پالیسی اپنائی۔ اگست 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد سے سینکڑوں ذرائع ابلاغ بند ہو گئے اور ایک اندازے کے مطابق پورے افغانستان میں 80 فیصد خواتین صحافیوں نے اپنی ملازمتیں کھو دیں یا پیشہ چھوڑ دیا۔

طالبان کا ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجنس ذرائع ابلاغ سے منسلک لوگوں کے خلاف دھمکیوں، دھونس اور تشدد میں ملوث رہا، اور صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کا ذمہ دار تھا۔ حکام نے افغانستان میں ذرائع ابلاغ پر بین الاقوامی خبروں کے پروگرام بشمول وائس آف امریکہ اور بی بی سی کو دری، پشتو اور ازبک زبانوں میں نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ خواتین کے حقوق کے مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو خاص طور پر بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔ طالبان نے ذرائع ابلاغ کے دو اداروں کی ویب سائٹس بھی بند کر دیں۔

افغانستان میں معلومات تک رسائی بہت محدود ہو گئی ہے اور بہت سے صوبوں میں، طالبان نے صحافیوں کو حکم دیا کہ وہ متعدد مسائل پر رپورٹنگ نہ کریں۔ متعدد صحافیوں کو طالبان مخالف مظاہروں، من مانی حراست، خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، اور طالبان حکام کو بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنانے والے دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے مارا پیٹا گیا۔

7 جون کو، جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجنس (جی ڈی آئی) نے یوٹیوب پر معروف افغان بلاگر اجمل حقی کی ایک ویڈیو جاری کی جن کے چہرے پر چوٹیں تھیں اور ظاہری طور پر دباؤ میں تھے، وہ آن لائن "جسم فروشی" کی حوصلہ افزائی کرنے پر اور ''قرآن کی آيات کی توہین'' کرنے پر معافی مانگ رہے ہیں۔

24 مئی کو طالبان حکام نے ریڈیو سیدائے آفتاب کے ڈائریکٹر مرزا حسنی کو ہرات شہر میں ایک چوکی سے حراست میں لے لیا اور ان پر مخالف گروپوں کی حمایت کا الزام لگایا۔ 10 مئی کو، جی ڈی آئی کے اہلکاروں نے ارزوگان میں ایک ٹی وی صحافی خان محمد سیال کو بغیر کسی وضاحت کے حراست میں لے لیا۔

طالبان نے افغانستان میں ذرائع ابلاغ کو خاموش کرنے کے لیے مختلف اقدامات کا استعمال کیا ہے، جن میں پابندیوں سے متعلق ہدایات کے اجراء سے لے کر انٹیلی جنس اہلکاروں کو ذرائع ابلاغ کے عملے سے ملاقات کے لیے بھیجنا اور میڈیا کارکنوں کو جرائم کا اعتراف کرنے پر مجبور کرنا شامل ہے

طالبان کی ذرائع ابلاغ پر پابندیاں خواتین صحافیوں کے لیے خاص طور پر تباہ کن رہی ہیں، جنہیں عام طور پر جنس پرستی اور سلامتی کے خطرات کے تناظر میں ذرائع ابلاغ میں اپنا کیریئر قائم کرنے کے لیے اپنے مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔

اہم بین الاقوامی عناصر

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے مارچ 2022 میں ایک قرارداد منظور کی جس میں افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن(یواین اے ایم اے) اور انسانی حقوق کے حالات پر رپورٹ کرنے کے اس کے اختیار میں توسیع کی گئی۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اکتوبر میں افغانستان پر اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندے کے اختیار کی تجدید کی اور اسے مستحکم کیا۔

سلامتی کونسل نے افغانستان پر متعدد بحثیں کیں اور متعدد پابندیوں میں توسیع کی اور ان رعایتوں کو ختم کر دیا جو طالبان کے بعض عہدیداروں کو دی گئی تھیں جن پر سفری پابندیاں عائد ہیں۔

اہم ڈونرز بشمول امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، اور جاپان نے امداد پر پابندیاں برقرار رکھی ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ناکافی اقدامات کیے کہ افغانستان سے منسلک جائز بینکنگ لین دین طالبان حکام پر اقوام متحدہ یا دو طرفہ پابندیوں سے متاثر نہ ہو۔ ہم خیال حکومتیں جو طالبان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر فکرمند تھیں، بشمول وہ بھی جنہوں نے حقوق نسواں کی خارجہ پالیسی کا عہد کیا، طالبان پر اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے مشترکہ اور پائیدار کثیرالجہتی مؤقف اور حکمت عملی اپنانے میں ناکام رہیں۔

 بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر نے عدالت کے ججوں سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کو شروع کرنے کی اجازت طلب کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، سابق افغان حکومت نے ان جرائم کے لیے اپنی تحقیقات کے تناظر میں آئی سی سی کو 2020 میں تحقیقات موخر کرنے کی درخواست کی تھی۔ چونکہ آئی سی سی آخری حربے کی عدالت ہے، آئی سی سی پراسیکیوٹر صرف ججوں کو پٹیشن دائر کر کے اس قسم کی التوا کی درخواست کو نظرانداز کر سکتا ہے۔ اگست 2022 کے ایک عرضی میں، پراسیکیوٹر نے دلیل دی کہ طالبان، جو اب ملک کو کنٹرول کرتے ہیں، متعلقہ قومی انصاف کی کوششوں کو "جاری نہیں رکھ رہے، جاری نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی جاری رکھیں گے"۔