(بیروت، جون 22، 2021) -ہیومن رائٹس واچ نے آج کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اکتوبر 2020 سے لے کر اب تک کم از کم چار پاکستانی شہریوں کو جبری طور پر لاپتہ اور کم از کم چھ کو بغیر کسی وضاحت کے ملک بدر کیا ہے۔ ایسا بظاہر اࣳن کے مذہبی پس منظر کی وجہ سے کیا گیا۔ یو اے ای نے چھ پاکستانیوں کو تین سے چھ ہفتوں تک جبری گمشدگی کی حالت اور حراست میں رکھنے کے بعد اکتوبر اور نومبر میں ملک بدر کیا تھا۔
تمام 10 افراد یواے ای کے شیعہ مسلمان ہیں اور اࣳن میں سے زيادہ تر کئی برسوں سے ملک میں مقیم تھے اور وہاں مینیجر، سیلز اسٹاف، چھوٹی کاروباری صنعتوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسر(سی ای او)، نیز مزدور اور ڈرائیور کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ایک شخص وہاں 40 برسوں سے مقیم تھا اور کام کر رہا تھا؛ دوسرا یو اے ای میں ہی پیدا ہوا اور وہیں پلا بڑھا تھا۔ حکام نے حراست سے رہائی پانے والے اࣳن افراد میں سے کسی پر بھی الزامات عائد نہیں کیے، پھر بھی اࣳنہیں ملک بدری کو چیلنج کرنے کا موقع دیے بغیر فوری طور پر ملک سے نکال دیا۔
''یواے ای کی سیکیورٹی فورسز عرصہ دراز سے محاسبے سے مکمل استثنیٰ کے ساتھ لوگوں کو اࣳٹھا کر غائب کر رہی ہیں۔ اور اࣳٹھائے جانے والوں کے اہلؚ خانہ خوف، تذب زب اور ناامیدی کا شکار ہو جاتے ہیں۔''، مشرقؚ وࣳسطیٰ میں ہیومن رائٹس واچ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل پیج نے کہا۔ '' یواے ای کے حکام کا یہ غیرذمہ دارانہ رویہ قانون کے ساتھ کھلا مذاق ہے جس کے باعث وہاں کوئی بھی فرد سنگین نوعیت کے مظالم سے محفوظ نہیں۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ یواے ای کے حکام نے شیعہ باشندوں کو بغیر کسی الزام کے بےجا حراست میں رکھ کر اور بلاجواز ملک بدر کرنے سمیت دیگر زیادتیاں کر کے اࣳنہیں بظاہر اپنی من مانی کاروائیوں کا نشانہ بنایا ہو۔ شیعہ باشندوں چاہے وہ لبنانی، عراقی، افغان، پاکستانی یا دیگر ملک کے شہری ہوں، کے ساتھ یو اے ای کے حکام کی من مانی کاروائیوں کی اؚطلاعات اکثر اࣳس وقت سامنے آتی ہیں جب علاقائی کشیدگیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
جبری گمشدگی اࣳس وقت وقوع پذیر ہوتی ہے جب کوئی ریاستی اہلکار یا حکومت کی اجازت یا معاونت سے کچھ افراد یا گروہ کسی فرد کو اࣳس کی آزادی سے محروم کر دیں اور آزادی سے محرومی کا اعتراف کرنے سے انکار کریں یا متاثرہ فرد کی حالت یا اتا پتا کو چھپائیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے تمام 10 افراد کے اہلؚ خانہ سے رابطہ کیا تھا جنہیں یو اے ای کے حکام نے ستمبر اور نومبر کے درمیان گرفتار کیا تھا، اور 2020 کے اواخر میں رہائی پانے والے ایک فرد کے خاندان سے بھی۔ اࣳن تمام افراد کے اہلؚ خانہ نے کہا کہ وہ دیگر پاکستانی شیعہ مسلمانوں کو بھی جانتے ہیں جنہیں یو اے ای کی سیکیورٹی فورسز نے ستمبر کے وسط سے اٹھا رکھا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بےجا طور پر حراست میں لیے گئے اور جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد کی تعداد چار سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
حکام نے زيرؚحراست چار افراد میں سے صرف ایک کو اپنے خاندان کو فون کرنے کی اجازت دی، اور وہ بھی اࣳسے چھ ماہ تک ''مکمل تاریکی میں'' رکھنے کے بعد، اࣳس کے بیٹے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہیومن رائٹس واچ کو بتایا۔ اࣳس شخص کے خاندان کو ابھی تک نہیں پتا کہ حکام نے اࣳسے کہاں اور کیوں قید میں رکھا ہوا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے قیدیوں کے اہلؚ خانہ کی مرتب کردہ ایک دستاویز بھی دیکھی ہے جس میں شمالی پاکستان کے علاقے پاراچنار سے تعلق رکھنے والے 27 پاکستانیوں کے نام شامل تھے جنہیں یو اے ای نے ستمبر یا اکتوبر میں گرفتار کیا تھا۔ پاکستانی پارلیمان کے ایک رࣳکن نے کہا کہ اࣳنہیں یقین ہے کہ فہرست درست ہے اور وہ ہر ایک قیدی کے خاندان سے خود ملے ہیں۔
اہلؚ خانہ کا کہنا تھا کہ اࣳنہیں اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کا علم مختلف ذرائع سے ہوا۔ سیاہ فوجی وردی میں ملبوس مسلح ریاستی اہلکاروں نے آدھی رات کے وقت ایک گھر پر چھاپہ مار کر دو افراد کو اࣳن کے گھر والوں کی موجودگی میں گرفتار کیا۔ ایک فرد کو اࣳس کے دفتر سے گرفتار کیا گیا، اور اࣳس وقت وہاں موقع پر موجود اࣳس کے ساتھیوں نے اࣳس کے خاندان کو بتایا کہ اماراتی لوگ آئے اور بغیر کوئی وجہ بتائے اࣳسے پکڑ کر لے گئے۔
ایک اور شخص کے رشتہ دار نے بتایا کہ اࣳٹھائے جانے والے شخص کے ساتھ اپارٹمنٹ میں رہنے والے اࣳس کے دوستوں نے اࣳنہیں مطلع کیا تھا کہ وہ حسبؚ معمول شام کے وقت ایک رہائشی اپارٹمنٹس کی کار پارکنگ میں اکٹھے بیٹھے تھے کہ چار افراد آئے اور اࣳسے بغیر وجہ بتائے گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ اࣳن میں سے تین اشخاص کو فون کالیں موصول ہوئی تھیں جن میں اࣳنہیں یو اے ای کے مختلف پولیس اسٹیشنوں کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ تاہم، اࣳس کے بعد، اہلؚ خانہ نے بتایا، اࣳن کے ساتھ کسی نے رابطہ نہیں کیا۔
جبری گمشدہ ہونے والوں میں سے ایک کے رشتہ دار نے اکتوبر میں اپنے عزیز کی گمشدگی کے فوری بعد کہا، ''میرا ایک سادہ سا سوال ہے''، ''اگر اࣳنہیں گرفتار کیا گیا ہے تو میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اࣳن کا جرم کیا ہے۔ اࣳن کے خلاف کوئی مقدمہ ہے تو ہم اس کا دفاع کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ لیکن جب ہم الزامات کے بارے میں ہی کچھ نہیں جانتے تو پھر ہم اپنے بیٹوں کی بے گناہی کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟''
رشتہ داروں نے بتایا کہ کئی واقعات میں حراست میں لیے گئے افراد کے پاس اࣳن کے پاسپورٹ نہیں تھے اور یہ کہ سیکیورٹی فورسز نے اࣳن کی تلاش کے لیے بعد میں اࣳن کے گھروں پر چھاپے مارے۔ بعض واقعات میں، حکام نے امیگریشن سے متعلق دیگر کاغذات اور کام کی دستاویزات اپنے قبضے میں لیں۔ زیادہ تر کے رشتہ داروں نے بتایا کہ انہوں نے کئی پولیس اسٹیشنوں، جیلوں، اور ملک بدری کے مراکز سے اࣳن کے بارے میں دریافت کیا مگر حکام نے اࣳن کی حراست کی جگہہ اور وجہ بتانا تو درکنار اࣳن کی گرفتاری کا اعتراف تک نہیں کیا۔
دو رشتہ داروں نے بتایا کہ اࣳنہوں نے اپنے گھر کے نزدیک واقع پولیس اسٹیشنوں میں شکایات درج کروائی تھیں مگر پولیس نے کاروائی سے انکار کر دیا تھا اور صرف یہ کہا تھا کہ وہ فون کال کا انتظار کریں۔''کون ہمیں کال کر سکتا ہے؟''، ایک رشتہ دار نے بتایا۔ ''ہم نہیں جانتے''۔ کئی رشتہ داروں کا مؤقف تھا کہ اࣳنہوں نے یو اے ای میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تھا اور سفارت کاروں کے نمائندوں نے جواب دیا تھا کہ وہ اࣳن کے لاپتا رشتہ داروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
ہیومن رائٹس واچ نے ماضی میں زیرؚحراست رہنے والے ایک نوجوان سے اࣳس کی ملک بدری کے بعد بات چیت کی تھی۔ وہ نومبر کے اواخر میں، دبئی میں آدھی رات کے بعد ایک پولیس اسٹیشن میں طلب کیے جانے کے بعد سے لاپتا تھا۔ حکام نے اࣳسے تین ہفتے سے زائد عرصہ حراست میں رکھنے کے بعد چھوڑا، اور پھر فوری طور پر ملک بدر کر دیا۔ دورانؚ حراست یو اے ای کی فورسز نے اࣳسے اپنے اہلؚ خانہ سے ملنے کی اجازت نہ دی، اور نہ اࣳسے قانونی نمائندگی اور قونصلر تک رسائی کا حق دیا۔
اࣳس نے بتایا کہ حکام نے اࣳس کے ساتھ برا سلوک کیا تھا۔ اࣳسے ایک سے دوسرے مقام پر منتقل کرتے وقت اࣳس کے ہاتھ باندھے گئے اور آنکھوں پر پٹی باندھی گئی، 5 اور دس گھنٹوں کے تحقیقاتی اجلاس ہوئے اور دو دن تک سونے نہ دیا گیا اور گرم کپڑے بھی فراہم نہیں کیے گئے تھے۔ اࣳسے ایک سرد کمرے میں رکھا گیا تھا جہاں ہر وقت لائٹس آن رہتی تھی۔
رہا ہونے والے دیگر پاکستانی شیعوں کے اہلؚ خانہ نے بتایا کہ اࣳن کے رشتہ داروں پرکبھی کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا، نہ ہی اࣳنہیں قانونی مشاورت یا قونصلر تک رسائی دی گئی اور حراست سے نکال کر فوری ملک بدر کر دیا گیا۔ وہ کئی برسوں سے یو اے ای میں مقیم تھے اور ملک سے نکالتے وقت اࣳنہیں اپنے ضروری امور نمٹانے کا موقع تک نہ دیا گیا۔ اگرچہ اہلؚ خانہ کا کہنا تھا کہ اࣳنہیں ابھی تک اپنے رشتہ داروں کی حراست اور ملک بدری کی قطعی وجہ معلوم نہیں ہو سکی، مگر اࣳن کا خیال ہے کہ ایسا مسلک کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی بدولت ہوا ہے۔
پاکستانی حکام کو یو اے ای میں پاکستانی شیعہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات کرنی چاہییں، اپنے لاپتا شہریوں کا اتاپتا اور اࣳن کی گرفتاری کی وجہ سامنے لانے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور اࣳنہیں فوری طور پر قونصلر نمائندگی کی فراہمی کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے۔ یو اے ای کے حکام کو ہر اࣳس فرد کا نام، اتاپتا اور گرفتاری کی وجہ ظاہر کرنا ہو گی جنہیں اࣳنہوں نے جبری گمشدہ کیا یا سب سے الگ تھلگ حراست میں رکھا ہوا ہے۔
''یو اے ای کا دعویٰ ہے کہ وہ مذہبی آزادی اور تنوع کا احترام کرتا ہے''، پیج نے کہا۔ ''مگر ملک میں عرصہ دراز سے مقیم شیعہ باشندوں کی بےجا گمشدگی اور ملک بدری سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ برداشت اور احترام تمام مسالک کے لیے نہیں ہے۔''
ہیومن رائٹس واچ، نیز ڈوچے ویلے اور کئی دیگر عالمی و علاقائی ذرائع ابلاغ نے 2009 اور 2016 کے دوران یو اے ای سے سینکڑوں لبنانیوں کی بلاامتیاز ملک بدریوں کی اطلاعات دیں۔ اطلاعات کے مطابق، انہیں بغیر کسی باضابطہ کاروائی اور ملک بدری کو چیلنج کرنے کا موقع دیے بغیر ملک سے نکالا گیا تھا۔ بعض واقعات میں، اماراتی حکام نے ملک سے نکالنے کا جواز دینے سے انکار کر دیا تھا اور دیگر میں، اطلاعات کے مطابق، ملک بدر ہونے والوں پر حزب اللہ اور ایران کے ساتھ منسلک ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
2019 میں، ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، اماراتی حکام نے آٹھ لبنانی شہریوں کو ایک برس تک کسی نامعلوم مقام پر بغیر کسی الزام کے قید رکھا، اࣳن کے ساتھ بࣳرا سلوک کیا اور اࣳنہیں باضابطہ کاروائی کے حق سے محروم رکھا۔ لبنانی شہری شیعہ مسلمان تھے اور ایک عشرے سے زائد عرصے سے یو اے ای میں رہائش پذیر تھے۔ 15 مئی 2019 کو، ایک انتہائی غیرشفاف سماعت کے بعد، یو اے ای کی ایک عدالت نے ایک فرد کو ایک برس قید، دو کو 10 برس کی قید سزا سنائی اور پانچ کو رہا کر کے ملک بدر کر دیا۔
یو اے ای کے قانون ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل 47 کی رࣳو سے، زیرؚحراست افراد کو دو روز کے اندر پبلک پراسیکیوٹر کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے۔ البتہ، یو اے ای کا 2003 کا سٹیٹ سیکیورٹی آپریٹس لاء نے ریاستی اہلکاروں کو کسی عدالتی کاروائی کے بغیر طویل عرصے تک قیدیوں کو حراست میں رکھنے کے وسیع تر اختیارات تفویض کیے ہیں۔
سٹیٹ سیکیورٹی آپریٹس لاء کے آرٹیکل 28 کو آرٹیکل 14 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو یہ آرٹیکل ریاستی سلامتی کے نظام کے سربراہ کو اجازت دیتا ہے کہ اگر ''اࣳس کے پاس یہ یقین کر لینے کی معقول وجوہ ہوں کہ کوئی فرد دیگر امور کے علاوہ، ''ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے جو ریاست کو نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ ۔ ۔ یا قومی سلامتی کو خطرے سے دوچار کر سکتی ہیں'' یا ''ایسی سرگرمیاں جو معیشت کے لیے نقصان دہ ہیں''، یا کسی بھی ایسی کاروائی میں ملوث ہے جو ریاست کو نقصان سے دوچار کر سکتی ہے، اسے کمزور یا اس کے وقار کو غیرمستحکم کر سکتی ہے، ریاست کے خلاف مخالفت کو ہوا دے سکتی یا اس پر اعتماد ختم کر سکتی ہے۔'' تو وہ اࣳس فرد کو 106 روز تک قید میں رکھنے کا اختیار رکھتا ہے۔
سٹیٹ سیکیورٹی آپریٹس لاء اپنی نوعیت کے اعتبار سے عرب منشور برائے انسانی حقوق کے آرٹیکل 14 (5) کے منافی ہے جو کہتا ہے کہ ''گرفتار ہونے والے ہر فرد کو فوری طور پر کسی جج کے سامنے یا عدالتی اختیار کے حامل کسی دوسرے افسر کے سامنے لایا جائے گا اور وہ فرد معقول وقت کے اندر سماعت یا رہائی کا مستحق ہو گا۔ یو اے ای نے 2006 میں منشور پر دستخط کیے تھے۔
یہ قانون لوگوں کو جبری گمشدگی کے شدید خطرے سے بھی دوچار کرتا ہے۔
عالمی قانون کی رࣳو سےاذیت رسانی اور جبری گمشدکی کے درمیان قریبی تعلق ہوتا ہے۔ تمام افراد کو جبری گمشدگیوں سے تحفظ فراہم کرنے کے عالمی میثاق 2006 کے آر ٹیکل 5 کے مطابق، ''وسیع پیمانے پر اور منظّم منصوبہ بندی کے ساتھ کی جانے والی جبری گمشدگی انسانیت کے خلاف جرم ہے، جیسا کہ مروجہ عالمی قانون میں بیان ہے اور اؚس کے نتائج اس روائج الوقت عالمی قانون کے تحت مرتب ہوں گے۔
یو اے ای میں ایک سابق قیدی کا حراست میں رہنے کا تجربہ
اپریل میں، ہیومن رائٹس واچ نے ایک ایسے پاکستانی شیعہ سے بات چیت کی جو لگ بھگ ایک ماہ تک یو اے ای میں زیرؚحراست رہا اور پھر رہائی کے بعد دسمبر 2020 کے اواخر میں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔
اࣳس نے بتایا، ''21 روز تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں''۔ اࣳس کی آزمائش کا آغاز نومبر کی ایک رات کو اࣳس وقت ہوا جب اࣳسے ایک نامعلوم فون نمبر سے کال موصول ہوئی جس میں اࣳسے بغیر کسی وجہ بتائے پولیس اسٹیشن سے رابطہ کرنے کو کہا گیا۔ پولیس اسٹیشن پہنچنے پر، پولیس اہلکار اࣳسے باہر لائے جہاں ایک سیاہ کار اس کی منتظر تھی۔ مکمل طور پر سیاہ لباس میں ملبوس ایک اماراتی نے اس کے ہاتھ باندھے، آنکھوں پر پٹی باندھی اور کار میں بیٹھنے کو کہا''، اࣳس نے بتایاکہ کار تقریباً 15 منٹ تک چلتی رہی اور پھر وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جو اس کے خیال میں جیل کی بارک تھی۔ اࣳس نے کہا کہ ''ایک ایسے آدمی کے لیے جو پہلی مرتبہ جیل کی بارک میں آیا تھا، وہ وقت بہت مشکل تھا''۔ ''میں بہت بڑے صدمے سے دوچار تھا۔''
اࣳس نے بتایا کہ اگلی صبح اࣳس کی آنکھوں پر دوبارہ پٹی باندھی گئی، ہاتھ بھی باندھے گئے اور ایک دوسری کار میں بٹھایا گیا جو لگ بھگ ایک گھنٹہ تک چلی اور پھر ایسے مقام پر پہنچی جو بعد میں اࣳسے پتا چلا کہ ابو ظہبی میں محکمہ فوجداری تحقیقات کا دفتر تھا۔''مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ زمین پر کیا ہو رہا ہے، مجھے باالکل بھی کچھ پتا نہیں تھا''، اࣳس نے بتایا۔ ''میں نے ایک ماہ قبل ہونے والی پیش رفتوں کے متعلق سن رکھا تھا، یہ کہ شیعہ افراد کو اٹھایا جا رہا تھا۔ یہ سب کچھ یو اے ای اور اسرائیل کے مابین ہونے والے سمجھوتے کی بدولت تھا۔ مگر کسی نے مجھے کچھ نہ بتایا۔''
اماراتی اہلکار پھر اࣳسے ایک ایسی جگہ لے گئے جو ایک دفتر کی طرح نظر آ رہی تھی جس میں کافی میٹنگ رࣳومز تھے: ''پورے دو روز تک میں اࣳن میٹنگ رومز میں رہا۔ میں نے کرسی پر سونے کی کوشش کی۔ وہاں ایک صوفہ بھی تھا، مگر مجھے اࣳس صوفے کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعض اوقات، بہت زیادہ تھکاوٹ کی وجہ سے میں نے فرش پہ سونے کی کوشش کی اور اپنے جوتے تکیے کے طور پر استعمال کیے۔ اگر وہ مجھے سوتا دیکھتے تو جگا دیتے۔ وہاں الماریاں نہیں تھیں، لائٹس ہر وقت آن رہتی تھیں، وقت کا پتا صرف تب ہی چلتا تھا جب کھانا آتا تھا۔ کمرہ بھی سرد تھا اور مجھے (خود کو گرم رکھنے کے لیے) کچھ نہیں دیا گیا تھا۔''
اࣳس نے بتایا کہ پھر اࣳسے اࣳسی عمارت کے ایک بڑے ہال میں لے جایا گیا جس میں 15 سے 16 سونے کے تختے پڑے ہوئے تھے اور دیگر قیدیوں کو بھی وہاں رکھا گیا تھا۔ اࣳس نے بتایا کہ اࣳس کے قیام کے دوران قیدیوں کی تعداد بدلتی رہتی تھی۔ ایک وقت پر یہ تعداد 40 تک پہنچ گئی تھی۔ ''مجھے اب بھی نہیں پتا کہ میں وہاں کیوں تھا، دیگر لوگ کون تھے، یا وہ کتنے عرصے سے وہاں تھے''، اࣳس نے بتایا۔ ''محافظوں کا صرف ایک اصࣳول تھا: خاموش رہو، کسی سے بات نہ کرو نہ ہی کسی کی طرف دیکھو۔''
10 روز بعد ریاست کے سیکیورٹی اہلکاروں نے اࣳسے پوچھ گچھ کے لیے بلایا جو بقول اࣳس کے تقریباً 10 گھنٹوں تک جاری رہی:تحقیقات کار نے میری زندگی کے بارے میں پوچھ گچھ کی،مکمل تفصیل کے ساتھ، میرا کام، خاندان، دوست، تعلیم، سفر، رشتہ دار۔ میرا فون اࣳس کے ہاتھ میں تھا اور وہ اࣳس کا جائزہ لیتا رہا، واٹس ایپ گروپس، تصاویر، اور مجھ سے سوالات کرتا رہا۔ اࣳس نے مجھ سے پوچھا کہ میں شیعہ ہوں یا سࣳنّی۔'' دو روز بعد، ایک اور تحقیقات کار نے تقریباً پانچ گھنٹوں تک اࣳس سے تحقیقات کیں، اؚس بار، بقول اࣳس کے، توجہ کا مرکز اࣳس کے سفر تھے۔ اࣳس نے بتایا کہ تحقیقات کار نے اࣳس سے عربی زبان میں تحریر ایک بیان پر دستخط کروائے جس کے ذریعے اࣳس سے یہ وعدہ لیا گیا تھا کہ وہ اپنی اؚس حراست کے بارے میں کسی کو نہیں بتائے گا بصورت دیگر اࣳسے مقدمے کا سامنا کرے گا۔
''بارہویں دن، لوگ جانا شروع ہو گئے تھے، ہال خالی ہو رہا تھا،'' اࣳس نے کہا۔ '' چودہویں دن، بہت بڑی تعداد ہال چھوڑ چکی تھی۔ کسی کو بھی رہا کرنے سے پہلے، اࣳس کا کویڈ 19 کے لیے دوسرا معائنہ ہوتا، اؚس طرح ہمیں معلوم ہوا کہ اࣳنہیں رہا کیا جا رہا تھا۔''
21 روز تک اࣳس کے خاندان، قانونی مشاورت یا قونصل نمائندگی کے بغیر اور اࣳسے پبلک پراسیکیوٹر کے سامنے پیش کیے یا اس پر باقاعدہ الزام عائد کیے بغیر حراست میں رکھنے کے بعد، یو اے ای کی ریاستی سیکیورٹی فورسز نے اࣳسے بتایا کہ وہ اࣳسے رہا کر دیں گے۔ ''مجھے امید تھی کہ مجھے گھر واپس بھیج دیا جائے گا، اࣳس نے بتایا۔ '' مجھ سے صاف دامن کسی کا نہیں ہو سکتا تھا، میرا کبھی بھی کسی غلط کام کی وجہ سے پولیس اسٹیشن جانا نہیں ہوا تھا۔ مجھے آخر وقت تک امید رہی کہ میں گھر واپس چلا جاؤں گا۔''
اࣳس نے بتایا، اؚس کے بجائے، ریاست کی سیکیورٹی فورسز نے اࣳس کے پاؤں ایک ساتھ باندھ دیے اور اࣳسے حراستی مرکزی سے سیدھا ملک بدری مرکز بھیج دیا۔ چند دنوں بعد وہ اپنی گرفتاری کے بعد پہلی دفعہ اپنے خاندان کو فون کال کرنے کے قابل ہوا۔ ''اور وہ فون کال صرف (اہلؚ خانہ) کو رقم، میرا پاسپورٹ اور میرے کپڑے لانے کے لیے تھی کیونکہ مجھے پاکستان بھیجا جا رہا تھا۔ مجھے ملک بدر کرتے وقت اپنے ضروری معاملات نمٹانے کا موقع تک نہ دیا گیا اور میری شریکؚ حیات، جو میری اسپانسرشپ کےذریعے وہاں رہ رہی تھی، کے پاس ملک چھوڑنے کے لیے صرف ایک ماہ تھا۔''