)بیروت) ء HRW نے آج جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے مذہبی رہنما اور ادارے دیگر اقلیتوں بشمول شیعہ کے خلاف نفرت اور امتیازی برتاؤ کے لیے اکساتے ہیں۔
ساٹھ صفحات پر مبنی رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ ’’وہ ہمارے بھائی نہیں ہیں‘‘ سعودی حکام کی جانب سے نفرت انگیز تقاریر اور دوسرے فرقوں کے بارے میں دستاویز جاری کرنے کی علما اور مذہبی علما کو باقاعدہ طور پر اجازت دی گئی ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کو توہین آمیز انداز میں بیان کریں یا انھیں سرکاری دستاویزات میں بد نام کریں جس سے وہ حکومت کی قانون سازی پر اثر انداز ہوں۔ حالیہ برسوں میں حکومتی علما اور دیگر نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو شیعہ مسلمانوں اور دوسروں کے خلاف نفرت انگیز جذبات ابھارنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اور ان کے خلاف بھی جو ان کے خیالات کے ساتھ ہم آہنگی نہیں رکھتے۔
HRW کے مشرق وسطی کے ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن (Sarah Leah Whitson) نے کہا کہ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میںمتشدد بیانیہ کو بہتر کرنے کو فروغ دیا ہے اس کے باوجود حکومت سے منسلک مذہبی علما اور درسی کتابوں میں کھلے عام مذہبی اقلیتوں جیسے شیعہ کو شیطان کے نمائندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ نفرت انگیز تقاریر شیعہ اقلیت کے خلاف منظم طریقے سے تعصب کو جنم دیتی ہیں اور ان کے پر تشدد گروہ ان پر حملہ کرتے ہیں۔
HRW کے مطابق شیعہ مخالف متعصب فوجداری نظام انصاف اور وزارتِ تعلیم کا مذہبی نصاب سعودی عرب کے شیعہ شہریوں کے خلاف تعصب کو جنم دیتا ہے۔ HRW نے حال ہی میں دیگر مذہبی گروہوں بشمول یہودی، عیسائی اور صوفی اسلام کے خلاف توہین آمیز حوالہ جات کو دستاویزی شکل دی ہے۔
حکومتی علما جو سب کے سب سُنی ہیں اکثر شیعہ کو رافضی کے طور پر یا مسترد شدہ پکارتے ہیں۔ اور ان کے عقائد اور طرزِ عمل کو داغ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ ملنا جلنا اور شادی کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ سینئر مذہبی علما کونسل جو کہ ملک کا سب سے اونچے مقام کا مذہبی ادارہ ہے کے ایک رکن نے جلسہ عام میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ شیعہ ہمار بھائی نہیں ہیں بلکہ وہ شیطان کے بھائی ہیں۔‘‘
اس طرح کی نفرت انگیز تقاریر کے مہلک نتائج برآمد ہوتے ہیں جب ISIS القاعدہ ان کو شیعہ شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے جواز کے طور پرا ستعمال کرتی ہے 2015ء کے وسط سے ISIS نے سعودی عرب کے مشرقی صوبہ اور نجران میں چھ شیعہ مساجد اور مذہبی عمارتوں پر حملہ کیا ہے۔ جس میں چالیس سے زائد فراد مارے گئے۔ ISISنیوز ریلیز میں ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی اور کہا گیا کہ حملہ آواروں نے رافضی اور شرک کے مرکز پر حملہ کیا تھا یہ وہ اصطلاحیں ہیں جو سعودی مذہبی تعلیمی نصاب میں شیعہ کو نشانہ بنانتے ہوئے استعمال کی گئی ہیں۔
سعودی کے سابق مفتی اعظم عبدالعزیز بن باز جو کہ 1999ء میں فوت ہوئے نے بے شمار فتووں میں شیعہ کی مذمت کی جو کہ سعودی عرب کے حکومتی ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
کچھ علما ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شیعہ ریاست کے خلاف سازش کا حصہ ہیں اور ایرانی ایجنٹ ہیں اور فطرتاً محب الوطن نہیں۔ دیگر علما جن کے سوشل میڈیا پر لاکھوں پیرو کار ہیں اور ذرائع ابلاغ کو بھی اجازت دیتی ہے کہ وہ شیعہ کو بغیر کسی خوف کے بد نام کرے۔ شیعہ مخالف تعصب سعودی نظام عدل میں بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔ جس کو مذہبی اسٹیبلشمنٹ کنڑول کرتی ہے اکثر شیعہ کے ساتھ متعصبانہ برتاؤ کیا جاتا ہے اور شیعہ کو ان کے مذہبی طرزِ عمل کی بنا پر موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 2015ء میں ایک سعودی عدالت نے شیعہ شہری کو دو ماہ قید اور ساٹھ کوڑوں کی سزا سنائی محض اس لیے کہ اس کے گھر میں شیعہ اجتماعی نماز کی میزبانی کی۔ 2014ء میں سعودی عرب میں ایک سعودی کو شیعہ کے ساتھی بننے پر سزا دی۔
سعودی وزارتِ مذہبی تعلیم کے نصاب میں التوحید یا واحدانیت پر ایمان جو پرائمری مڈل اور ثانوی سطح پر پڑھایا جاتا ہے۔ شیعہ مذہبی طرزِ عمل کو ڈھکی چھپی زبان میں بد نام کرتے ہوئے شرک یا غلو (مبالغہ آمیزی) سے تعبیر کیا ہے۔ سعودی مذہبی تعلیمی نصاب میں شیعہ اور صوفیا کی قبروں اور مذہبی مزاروں پر حاضری کو تنقید کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ جس میں پیغمبر اور اہل بیت کو اللہ تعالیٰ کے درمیان ثالث مانا جاتا ہے۔ درسی کتب میں یہ بتایا گیا کہ سُنی اور شیعہ شہری دونوں کا طرز عمل ان کو شیعہ ثابت کرتا ہے۔ ان کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے لیے کافی ہیں اور ہمیشہ کے لیے ان کو جہنمی قرار دیا جاتا ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق حکومتوں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ قومی، نسل اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے والے قوانین پر پابندی عائد کریں۔ تعصب، دشمنی اور تشدد پر اکسانے والے ضوابط کبھی کبھار مذہبی گروہوں کو نشانہ بنانا بھی غیر قانونی ہے۔ نفرت آمیز تقریر کو کنڑول کرنے کے اقدامات بھی آزادی اظہار رائے کے ضوابط سے تجاوز نہیں کرنے چاہیں۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں ماہرین نے اس بات کے تعین کے لیے کہ آیا مخصوص تقریر کوقانونی طور پر محدود کیا جا سکتا ہے کہ تجویز دی ہے۔ اس فارمولے کے تحت ہیومن رائٹس واچ نے دستاویزات تیار کی ہیں کہ سعودی مذہبی عالم کئی دفعہ نفرت انگیز تقریر یا نفرت پر اکسانے یا تعصب پھیلانے کی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں لیکن حکام کو عوامی طور پر ردِ عمل کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ان علما کے اثر و رسوخ اور رسائی کو دیکھتے ہوئے ان کے بیانات شیعہ شہریوں کے خلاف تعصب کا نظام پیش کرتے ہیں۔
سعودی حکومت کو ریاست سے منسلک علما اور حکومتی اداروں کی طرف سے نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے فوری حکم دینا چاہیے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کمیٹی برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (USCIRF) نے بار بار سعودی عرب کو خاص ’’تشویش‘‘ کے ملک کی درجہ بندی کی ہے۔ یہ ممالک جو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کے لیے سب سے سخت نامزدگی ہے۔ 1998ء بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مخصوص حالات میں کسی ملک کو مندرجہ بالا درجہ بندی سے استثنا دے۔ امریکی صدر نے سعودی عرب کو 2006ء سے یہ استثنا دیا ہوا ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر استثنا کو منسوخ کرے اور سعودی حکام کے ساتھ کام کرتے ہوئے شیعہ اور صوفی شہریوں کے ساتھ دیگر مذاہب کو چاہیے کہ وہ شیعہ اور صوفی مذہبی طرزِ عمل پر تنقید کو ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالے اور اس کے علاوہ باقی مذاہب اور شیعہ کے خلاف سعودی مذہبی تعلیمی نصاب سے ایسا مواد خارج کروائے۔ واٹسن نے کہا کہ ’’سعودی عرب کے مذہبی آزادی پر بُرے ریکارڈ کے باوجود امریکہ نے سعودی عرب کو ممکنہ پابندیوں سے بچایا ہوا ہے۔ امریکی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے قوانین کو اپنے سعودی اتحادی پر لاگو کرے۔