(برسلز)- ہیومن رائٹس واچ نے آج کہا ہے کہ عالمی عدالتؚ انصاف (آئی سی جے) نے 23 جنوری، 2020 کو حکم صادر کرتے ہوئے میانمر کو ہدایت کی کہ وہ ریاست رخائن میں باقی ماندہ رونگیا برادری کے تحفظ کے لیے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے تمام اقدامات کرے۔ عدالت نے متفقہ رائے سے '' عبوری اقدامات'' منظور کیے جو میانمر سے نسل کشی کی روک تھام کا مطالبہ کرتے ہیں اور شہادت کے تحظ کا تقاضا کرتے ہیں۔
میانمر کی فوج نے روہنگیا کے خلاف وسیع تر مظالم کیے ہیں بشمول قتل، ریپ، اور آتش زنی اور یہ مظالم 2017 کے اواخر کی نسل کشی کی مہم کے دوران عروج پر تھے جس نے 740,000 روہنگیا لوگوں کو بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور کیا۔ ستمبر2019 میں، میانمر پر اقوامؚ متحدہ کے حمایت یافتہ خودمختار عالمی فیکٹ فائنڈنگ مشن کو معلوم ہوا کہ میانمر میں باقی بچ جانے والے روہنگیا افراد کو '' نسل کشی کا پہلے سے زیادہ خطرہ ہے۔''
'' ہیومن رائٹس واچ میں ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر برائے عالمی انصاف پرم پریت سنگھ نے کہا ہے کہ '' روہنگیا کی نسل کشی روکنے کے لیے میانمر کو آئی سی جے کا حکم نامہ دنیا کی سب سے زیادہ ستم زدہ آبادیوں میں سرؚ فہرست روہنگیا آبادی کے خلاف مزید مظالم کی روک تھام میں اہم پیش رفت ہے۔ اب متعلقہ حکومتوں اور اقوامؚ متحدہ کے اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اؚس اَمر کو یقینی بنانے کے لیے کہ جوں جوں نسل کشی کا مقدمہ آگے بڑھتا ہے حکمنامے پر عملدرآمد ہو۔''
حکمنامے سے پہلے گیمبیا نے 11 نومبر2019 کو عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ریاست رخائن میں روہنگیا پر میانمر فوج کے مظالم نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے میثاق کی خلاف ورزی ہے اور درخواست میں فوری طور پر عبوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ آئی سی جے نے گیمبیا کے عبوری اقدامات کی درخواست کی دسمبر میں سماعت کی تھی۔
فریقین آئی سی جے کے عبوری اقدامات کے حکم نامے پر عملدرآمد کرنے کے قانونی طور پر پابند ہیں۔ نومبر میں، میانمر نے آئی سی جے کے اختیار کو واضح طور پر تسلیم کیا اور دسمبر میں آنگ سن سوچی، نے بطورؚ وزیرؚؚ خارجہ آئی سی جے کے سامنے میانمر کی نمائندگی کرتے ہوئے عدالت کے کردار کو ''عالمی انصاف کی اہم جائے پناہ'' تسلیم کیا۔
عدالت نے متفقہ رائے سے میانمر کو حکم دیا کہ وہ نسل کشی میثاق کے آرٹیکل کے تحت تمام اقدامات روکے اور یقیینی بنائے کہ اس کی فوج نسل کشی جیسی کاروائیاں نہ کرے، اور نسل کشی کے مقدمے سے متعلقہ شہادت کو محفوظ رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ عدالت نے میانمر کو یہ حکم بھی دیا کہ وہ عدالت کو چار ماہ میں حکمنامے کے اطلاق پر آگاہ کرے اور پھر بعد میں ہر چھ ماہ بعد آگاہ کرے۔
عدالتی حکمنامے نے ان سوالات کا تصفیہ نہیں کیا کہ آیا عدالت کو مقدمہ سننے کا اختیار ہے کہ نہیں، عدالت میں مقدمہ قابل سماعت ہے یا نہیں، یا گیمبیا کے یہ الزامات کس حد تک درست ہیں کہ میانمر نے نسل کشی میثاق کی دفعات کی خلاف ورزی کی ہے۔ آئی سی جے کے زیرؚسماعت مقدمے کا تصفیہ ہونے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
آئی سی جے کے قانون کے آرٹیکل 41 (2) کے تحت، عدالت کے عبوری اقدامات کے حکمنامے خودکار طریقے کے ذریعے اقوامؚ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاس چلے جاتے ہیں۔ اس قسم کا حکمنامہ کونسل پر دباؤ بڑھائے گا کہ وہ میانمر میں ٹھوس کاروائی کرے، بشمول ایک واجب التعمیمل قرارداد کے، تاکہ عالمی فیکٹ فائنڈنگ مشن کی 2018 کی جامع رپورٹ میں نسل کشی کی نیت جیسے معاملات سے نبٹا جا سکے۔
مثال کے طور پر، سلامتی کونسل ایک قرارداد منظور کر سکتی ہے جس میں وہ میانمرکو ہدایت دے سکتی ہے کہ وہ روہنگیا برادری کی نقل و حرکت پر عائد پابندیاں ہٹائے، ریاست رخائن میں انسانیت کی بنیاد پر امدادی سرگرمیوں پر غیرضروری رکاوٹیں دور کرے، امتیازی قوانین ختم کرے، اور ایسے رجحانات پر قابو پائے جو تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع تک روہنگیا لوگوں کی رسائی محدود کرتے ہیں۔ اؚس وقت تک، سلامتی کونسل نے میانمر پر کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا جس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ روس اور چین بظاہر میانمر کی حکومت اور فوج کو بچانے کے لیے اپنا ویٹو کا اختیار استعمال کرنے میں آمادہ نظر آتے ہیں
سنگھ نے کہا، ''آئی سی جے کے حکمنامے سے روہنگیا پر میانمر کے خوفناک مظالم کی چھان بین کے عمل کو تقویت ملی ہے اور بحران پر سلامتی کونسل کے کمزور ردؚعمل کے سیاسی اثرات میں اضافہ ہوا ہے''۔ ''چین اور روس کو چاہیے کہ وہ روہنگیا کے تحفظ کے لیے سلامتی کونسل کو اپنا کردار ادا کرنے دیں۔''
حتیٰ کہ تعطل زدہ سلامتی کونسل کے باوجود بھی، اقوامؚ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گٹریس اقوامؚ متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 99 کے تحت میانمر کا مسئلہ کونسل کے سامنے لا سکتے ہیں۔ 2 ستمبر 2017 کو گٹریس نے سلامتی کونسل کے صدر کو ایک خط لکھا تھا جس میں کونسل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ '' انسانی المیے سے بچنے کے لیے تحمل اور بردباری کے لیے'' ، اور '' انسانی حقوق اور انسان دوست عالمی قانون کے مکمل احترام، اور ضرورت مندوں کی امداد کے لیے اقوامؚ متحدہ کے ساتھیوں کی موجودگی کے تسلسل اور ان کی حفاظت کو یقینی بنوانے کے لیے دباؤ ڈالے۔''
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ یو این کے دیگر ادارے کو حکمنامے کے اطلاق کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ یواین کونسل برائے انسانی حقوق اور اقوامؚ متحدہ کی جنرل اسمبلی ایسی قراردادیں منظور کر سکتی ہیں جن میں میانمر سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی شرائط کی پاسداری کرے۔ اؚس سے متاثر ہو کر دوسرے ملک بھی میانمر کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات میں اؚس حوالے سے کوئی ٹھوس کاروائی کر سکتے ہیں۔
نسل کشی کا مقدمہ درج کرنے کے عمل میں گیمبیا کو تنظیم برائے اسلامی تعاون کے 57 ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ 9 دسمبر، 2020 کو کنیڈا اور نیدرلینڈ کی حکومتوں جو نسل کشی میثاق کی فریق ہیں، نے کہا، وہ سمجھتی ہیں کہ '' آئی سی جے کے سامنے گیمبیا کی حمایت کرنا ان کا فرض ہے کیونکہ تمام انسانوں کو اس معاملے کی فکر ہونی چاہیے۔ 9 جنوری، 2020 کو، برطانوی حکومت نے میانمر کے خلاف گیمبیا کے مقدمے کو خوش آئند قرار دیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ میثاق کے دیگر فریقین کو میانمر پر عدالتی حکمنامے کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ اگر میانمر پاسداری کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو پھر گیمبیا میانمر کی عدم پاسداری کا معاملہ یواین کے منشور کے آرٹیکل 94 کے تحت سلامتی کونسل میں اٹھا سکتا ہے۔
گیمبیا کے مقدمے کے لیے عالمی برادری کی بڑھتی ہوئی حمایت کی وجہ سے میانمر کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئی سی جے کی کاروائی میں بامعنی انداز میں شامل ہو اور رونگیا کے حوالے سے اپنا طرزؚعمل تبدیل کرے''، سنگھ نے کہا۔ ''میانمر حکومت نسل کشی میثاق کی رو سے اپنے پر عائد ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے اپنے طاقتور دوستوں یا اقتدارؚ اعلیٰ کے بینر پیچھے نہیں چھپ سکتا۔''