Skip to main content

اسرائیل اور فلسطین

2022 کے واقعات

اسرائیلی پولیس کا مقبوضہ مشرقی یروشلم میں صحافی شیریں ابو عاقلہ کے جنازے کے جلوس کے دوران فلسطینیوں پر حملہ۔ 13 مئی 2022

© 2022 اے پی فوٹو/مایا لیون

سیاسی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد پر مشتمل مخلوط حکومت کے تحت نفتالی بینیٹ اور یائر لاپڈ کی وزارت ِعظمیٰ کے دوران، اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں پر اپنے شدید جبر کو دوگنا کیا۔ اسرائیلی حکام کی کارروائیاں جو فلسطینیوں پر یہودی اسرائیلیوں کے تسلط کو برقرار رکھنے کی پالیسی کے حصے کے طور پر روا رکھی گئیں، انسانیت کے خلاف نسل پرستی اور ظلم و ستم پر مبنی جرائم کے مترادف ہیں۔  

اگست میں تین دن کی جھڑپوں کے دوران، اسرائیلی فورسز نے گنجان آباد غزہ کے بہت بڑے علاقے پر دھماکا خیز ہتھیاروں سے کئی فضائی حملے کیے۔ جب کہ مسلح گروپ فلسطینی اسلامی جہاد نے اسرائیلی آبادی کے مراکز پر اندھا دھند سینکڑوں راکٹ داغے۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر رابطہ  برائے انسانی امور (اوچا) کے مطابق 17 بچوں سمیت 49 فلسطینی ہلاک ہوئے۔ اس کشیدگی کے دوران 360 فلسطینی اور 70 اسرائیلی زخمی بھی ہوئے۔ 

اگست کی جھڑپیں ایسے حالات میں ہوئیں جب غزہ میں لوگوں اور سازوسامان کی نقل و حرکت کو اسرائیل کی 15 سالہ طویل وسیع تر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اسرائیل کی بندش کی پالیسی، جو غزہ  کی مصرسے متصل سرحد پر مصری پابندیوں کی وجہ سے اور زیادہ گھمبیر صورت حال اختیار کر لی ہے، نے غزہ کے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو، شاذونادر مستثنیات کے ساتھ، نقل و حرکت کی آزادی اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے مواقع سے محروم کیا، بجلی، صحت کی دیکھ بھال، اور پانی تک ان کی رسائی کو بہت زیادہ محدود کیا، اور معیشت کو تباہ کیا۔ اقوامِ متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین، مشرقِ قریب(یواین آر ڈبلیو اے) کے مطابق، غزہ کے 21 لاکھ باشندوں میں سے تقریباً 80 فیصد انسانیت دوست امداد پر انحصار کرتے ہیں۔  

مغربی کنارے میں، اسرائیلی فورسز نے مارچ میں اسرائیل پر فلسطینیوں کے متعدد حملوں کے بعد، اپنی کارروائیوں کو تیز کیاجن میں، اوچا کےمطابق، 21 دسمبر تک، 147 فلسطینیوں کو ہلاک ہوئے جو کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے 2005 میں منظم طریقے سے ہلاکتوں کی قلمبندی شروع ہونے کے بعد سے کسی بھی سال میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔ مئی میں، الجزیرہ کی معروف صحافی شیریں ابو عاقلہ کو شمال مغربی کنارے میں اسرائیلی چھاپے کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ متعدد آزاد تحقیقات اِس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اسرائیلی فورسز نے انہیں قتل کیا ہے۔ 

اسرائیلی جیل سروسز کے اعداد و شمار کے مطابق،31 دسمبر تک، 866 فلسطینی خفیہ ثبوتوں کی بنیاد پر بغیر کسی الزام یا ٹرائل کے اسرائیلی حکام کی انتظامی حراست میں تھے۔ اسرائیل کے حقوق کے گروپ بتسلیم کے مطابق یہ تعداد تقریباً دو دہائیوں کی بلند ترین سطح کو ظاہر کرتی ہے۔

اسرائیلی حکام نے  اسرائیلی شہریوں کو مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں میں منتقل ہونے میں سہولت فراہم کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا جو کہ ایک جنگی جرم ہے. اسرائیلی گروپ پیس ناؤ کے مطابق، بینیٹ-لیپڈ حکومت نے عہدہ سنبھالنے سے لے کر جون 2022 کے اواخر تک بستیوں میں 7,292 ہاؤسنگ یونٹوں کا منصوبہ بنایا۔ اس کا اگر 2012 اور 2020 کے عرصے میں بینجمن نیتن یاہو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران  ہاؤسنگ یونٹوں سے موازنہ کیا جائے تو سالانہ اوسط میں 26 فیصد اضافہ ہے۔

اوچا کے مطابق، اسرائیلی حکام نے 2022 کے پہلے گیارہ مہینوں کے دوران مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں 851 فلسطینیوں کے مکانات اور دیگر عمارات کو مسمار کیا، جس سے 966 افراد بے گھر ہوئے۔ زیادہ تر عمارتوں کو عمارت کے اجازت نامے نہ ہونے کی وجہ سے منہدم کیا گیا، جن کا حصول اسرائیلی حکام ان علاقوں میں فلسطینیوں کے لیے تقریباً ناممکن بنا دیتے ہیں۔

مئی میں، اسرائیل کی ہائی کورٹ آف جسٹس نے جنوب مغربی کنارے کے علاقے مسافر یطا میں 1,000 سے زیادہ فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کی منظوری دی، اس بنا پر کہ وہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ حدود میں واقع تھے۔ عدالت نے کہا کہ فوج کا فوجی زون بند قرار دینے کا اختیار بین الاقوامی قانون سے ماورا ہے۔

اگست میں، اسرائیلی حکام نے فلسطینی سول سوسائٹی کی سات سرکردہ تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے مارے۔  2021 میں ان میں سے چھ گروپس کو اسرائیلی قانون کے تحت 'دہشت گرد'' اور فوجی قانون جو کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں قابلِ اطلاق ہے، کے تحت ''غیرقانونی تنظیمیں' قرار دیا گیا تھا۔

فلسطینی سول سوسائٹی کو مغربی کنارے کے ان حصوں میں فتح کے زیرِانتظام فلسطینی اتھارٹی (پی اے) اور غزہ میں حماس کی طرف سے بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فلسطینی قانونی نگران ادارے، آزاد کمیشن برائے انسانی حقوق (آئی سی ایچ آر) کو پی اے کے خلاف من مانی گرفتاریوں کی 120 اور حماس کے خلاف 87 شکایات موصول ہوئیں۔ پی اے کے خلاف تشدد اور ناروا سلوک کی 106 اور حماس کے خلاف 113 شکایات؛ اور پی اے کے خلاف جنوری اور ستمبر 2022 کے درمیان علاقائی گورنر کے احکامات کی بدولت مقدمے یا چارج کے بغیر حراست میں لیے جانے کی 28 شکایات۔ 

بنیامین نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے 1 نومبر کے انتخابات کے دوران کنیسٹ کی اکثریتی نشستیں حاصل کیں، اسرائیل کا 2019 کے بعد سے یہ پانچواں انتخاب تھا۔ نیتن یاہو نے حکومت تشکیل دی جس میں اتامر بن گویر بھی شامل ہیں، جنہیں اسرائیلی عدالت نے نسل پرستی کے لیے اکسانے اور ایک دہشت گرد تنظیم کی حمایت کرنے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔  نیتین یاہو نے 29 دسمبر کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔

غزہ کی پٹی

5 اگست کو، اسرائیلی حکام نے غزہ میں اسلامی جہاد کے ایک رہنما کے گھر پر بِلااشتعال حملہ کیا، جس سے تین دن تک جھڑپیں جاری رہیں۔ اسلامی جہاد نے اسرائیل کی طرف اندھا دھند 1,100 راکٹ فائر کیے، جن میں سے کچھ نشانے پر نہ لگے اور غزہ کے اندر جا گرے۔ اسرائیل میں قائم میر امیت انٹیلیجنس اینڈ ٹیررازم انفارمیشن سینٹر کے مطابق، اسرائیلی حکام نے گنجان آباد غزہ کے وسیع  و عریض علاقے پر دھماکہ خیز ہتھیاروں سے 170 حملے کیے۔ اوچا کے مطابق، جھڑپوں کے نتیجے میں، ہلاکتوں اور زخموں کے علاوہ، 2,000 فلسطینی رہائشی یونٹس کو نقصان پہنچا۔

2 اور 8 اگست کے دوران، اسرائیلی حکام نے غزہ کی گزرگاہوں کو بند کر دیا، جس سے فوری طبی امداد کی ضرورت والے رہائشیوں کو غزہ سے باہر علاج کروانے سے روک دیا گیا۔ اس اقدام نے غزہ کے واحد پاور پلانٹ کو چلانے کے لیے ضروری ایندھن کے داخلے کو بھی روک دیا جس کی وجہ سے یہ بند ہو گیا۔ غزہ کی عام شہری آبادی کو نشانہ بنانے والے ایسے اقدامات غیر قانونی اجتماعی سزا کے مترادف ہیں۔

اسرائیلی بندش

مسلسل 15ویں سال، اسرائیلی حکام نے غزہ کی زیادہ تر آبادی کو بذریعہ ایریز کراسنگ سفر کرنے سے روکے رکھا، جو غزہ سے اسرائیل کا واحد مسافر راستہ ہے جس کے ذریعے فلسطینی مغربی کنارے اور بیرون ملک سفر کر سکتے ہیں۔ اسرائیلی حکام اکثر اس بندش کو سلامتی کے خدشات کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں، جو کہ اُس وقت عمل میں آئی جب جون 2007 میں حماس نے فتح کی زیر ِقیادت فلسطینی اتھارٹی سے غزہ کا سیاسی کنٹرول اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ بندش کی پالیسی، اگرچہ، سلامتی کے خطرے کے انفرادی جائزے پر مبنی نہیں ہے؛ ایک عمومی سفری پابندی سب پر لاگو ہوتی ہے، سوائے اُن لوگوں کے جن کو اسرائیلی حکام "غیر معمولی انسانی حالات" سے دوچار سمجھتے ہیں، زیادہ تر وہ لوگ جنہیں طبی علاج کی ضرورت ہے اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ممتاز کاروباری افراد۔

اوچا کے مطابق، 2022 کی پہلی ششماہی کے دوران، غزہ سے باہر فوری طبی امداد کے لیے سفر کرنے والے ایک تہائی سے زیادہ لوگوں کو بروقت منظوری نہیں دی گئی۔ عالمی ادارہ صحت نے رپورٹ کیا کہ 2008 سے 2021 کے دوران غزہ میں 839 فلسطینی اپنی اجازت کی درخواستوں کے جواب کا انتظار کرتے کرتے ہلاک ہو گئے۔ 

اسرائیلی حقوق کے گروپ گیشا کے مطابق، 2022 کے پہلے گیارہ مہینوں کے دوران، غزہ میں تقریباً 1,120 فلسطینی روزانہ ایریز کے راستے باہر نکلے۔ ماہانہ اوسط حالیہ برسوں کے مقابلے میں اضافہ کی نشاندہی کرتی ہے۔اِس کی وجہ وہ اجازت نامے ہیں جو زیادہ تر غزہ میں فلسطینیوں کو تعمیرات اور زراعت میں کام کرنے کے لیے جاری کیے گئے۔  لیکن دوسری انتفادہ یا ستمبر 2000 میں فلسطینی بغاوت کے آغاز سے پہلے 24,000 سے زائد یومیہ اوسط کے 5 فیصد سے بھی کم ہے۔

گیشا کے مطابق، اس عرصے کے دوران غزہ کی برآمدات، زیادہ تر مغربی کنارے اور اسرائیل کے لیے آنے والی پیداوار، اوسطاً 617 ٹرک لوڈز فی ماہ تھی، جو کہ جون 2007 میں بندش کے سخت ہونے سے پہلے کی ماہانہ اوسط 1,064 ٹرک لوڈز سے کم ہے۔ حکام تعمیراتی سامان اور دیگر اشیاء کے داخلے پر سختی سے پابندی لگاتے رہتے ہیں جنہیں وہ "دوہرے استعمال" والا مواد سمجھتے ہیں جو فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسی اشیاء کی فہرست میں ایکسرے اور مواصلاتی آلات، معذوری کے شکار افراد کے زیرِ استعمال معاون آلات کے اضافی اجزاء اور بیٹریاں اور دیگر اہم شہری اشیاء بھی شامل ہیں۔

بندش بنیادی خدمات تک رسائی کو محدود کرتی ہے۔ اوچا کے مطابق، 2022 کے دوران، غزہ کے خاندانوں کو مرکز کی طرف سے فراہم کردہ بجلی کے بغیر دن میں اوسطاً تقریباً 12 گھنٹے کام کرنا پڑا۔ بجلی کی دائمی طویل بندش روزمرہ کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے، گرمی اور ٹھنڈک اور سیوریج کے مسئلے کے حل سے لے کر صحت کی دیکھ بھال اور کاروبار تک، خاص طور پر اُن افراد باہم معذوری کے لیے جو اشاروں کی زبان یا بجلی سے چلنے والے آلات کا استعمال کرتے ہوئے بات چیت کرنے کے لیے روشنی پر انحصار کرتے ہیں، جیسے کہیں آنے جانے کے لیے لفٹ یا بجلی والی وہیل چیئرز پر ۔ اوچا کے مطابق، غزہ میں 97 فیصد سے زیادہ زمینی پانی، جو اِس کا واحد قدرتی آبی ذریعہ ہے،"انسانی استعمال کے لیے غیر موزوں" ہے۔

مصر بھی غزہ کے ساتھ  متصل اپنی رفح کی گزرگاہ کے ذریعے لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر پابندی لگاتا رہتا ہے، بعض اوقات گزرگاہ کو مکمل طور پر بند کر دیتا ہے۔ گیشا کے مطابق، 2022 کے پہلے گیارہ مہینوں میں، دونوں اطراف سے فی ماہ اوسطاً 23,060 فلسطینیوں نے گزرگاہ عبور کی، جو مصر میں 2013 کی فوجی بغاوت سے پہلے کی ماہانہ اوسط 40,000 سے کم ہے۔ 

سیو دی چلڈرن کی جون کی رپورٹ کے مطابق، غزہ میں جن پانچ بچوں کا انٹرویو کیا گیا اُن میں سے چار نے بتایا کہ وہ 15 سال کی بندش کے بعد افسردگی، غم اور خوف کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

حماس کے حکام نے فروری 2021 میں جاری کردہ ضوابط کی پیروی کرتے ہوئے کچھ خواتین کو سفر کرنے سے روک دیا ہے جن کی رُو سے مرد سرپرست اس بنا پر اپنی غیر شادی شدہ خواتین کو غزہ چھوڑنے سے روکنے کے لیے عدالتوں میں درخواست دائر کر سکتے ہیں کہ یہ سفر "مطلق نقصان" سبب بنے گا، یہ ''مطلق نقصان' کی وسیع اصطلاح مردوں کو خواتین کے اپنی مرضی سے سفر پر پابندی لگانے کی اجازت دیتی ہے۔

حماس اور فلسطینی مسلح گروپ

جون میں، حماس کے حکام نے ایک تصویر شائع کی جس میں اسرائیل کے شہری ایک فلسطینی بدو ہشام السید  کو دکھایا گیا جو غزہ میں داخل ہونے کے بعد سات سال سے زیادہ عرصے تک حراست تھے۔ انہوں نے ایک اور اسرائیلی شہری ایویرا منگیسٹو کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں جسے وہ بظاہر 2014 سے اپنی حراست رکھے ہوئے ہیں، حماس کا نفسیاتی معذوری کے شکار دونوں شہریوں کو حراست میں رکھنا غیر قانونی ہے۔ 

ستمبر میں، حماس کے حکام نے پانچ فلسطینیوں کو پھانسی دی جن میں دو ایسے افراد بھی شامل تھے جن پر اسرائیل کے ساتھ "تعاون" کا الزام تھا۔ ٹرائل میں قانونی ضابطوں کا خیال نہیں رکھا گیا  ۔ پانچ سالوں میں یہ پہلی پھانسیاں تھی۔ جون 2007 میں غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد حماس کے حکام اب تک مجموعی طور پر 33 افراد کو پھانسی دے چکے ہیں۔ غزہ میں قائم فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق کے مطابق، 19 اکتوبر تک غزہ کی عدالتیں، اِس برس 24 افراد کوجبکہ جون 2007 سے اب تک 188 افراد کو موت کی سزا سنا چکی تھیں۔ 

مغربی کنارہ

اکتوبر میں، اسرائیلی حکام نے نئی ہدایات جاری کیں جو غیر ملکی شہریوں کے مغربی کنارے میں خاندان سے ملنے، کام کرنے، پڑھنے یا پڑھانے کی صلاحیت کو شدید متاثر کرتی ہیں۔   

اسرائیلی طاقت کا استعمال اور حراست

مارچ میں اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کے کئی حملوں کے بعد، اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے اپریل میں مغربی کنارے میں فلسطینی لوگوں پر فوجی چھاپوں کے پیمانے اور تعداد میں اضافہ کیا۔ اپریل میں، اُس وقت کے وزیر اعظم بینیٹ نے اعلان کیا کہ اسرائیلی افواج کے اقدامات پر "کسی قسم کی پابندی"  لاگونہیں ہوگی۔ اوچا کے مطابق، 21 دسمبر تک، اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے میں 147 فلسطینیوں کو ہلاک کیا، جن میں کم از کم 34 بچے  شامل تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایسے فلسطینی شامل ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر اسرائیلیوں، صحافیوں، علیحدگی والی رکاوٹوں کے راستے سے گزرنے والے ورکرز پر حملہ کیا تھا (حالیہ برسوں میں اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو رکاوٹ سے گزرنے کی اشارۃً اجازت دی ہے)، اور مارے جانے والوں میں راہ گیر  اور 44 سالہ غدا سباطین سمیت، چھ بچوں کی ایک غیر مسلح ماں  بھی شامل تھی جسے ایک چوکی پر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

اوچا کے مطابق، 21 دسمبر تک اسرائیلی آباد کاروں نے  594 واقعات میں چھ فلسطینیوں کو ہلاک، 281 کو زخمی کیا، اور املاک کو نقصان پہنچایا۔

اسرائیلی حکام نے ضرورت سے زيادہ طاقت کا استعمال کرنے والے سیکیورٹی اہلکاروں کو یا فلسطینیوں پر حملہ کرنے والے آباد کاروں کو شاذ و نادر ہی جوابدہ ٹھہرایا ہے۔ اسرائیل میں حقوق کے گروپ یش دین کے مطابق، 2017 اور 2021 کے دوران مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کی بدسلوکی کے خلاف فلسطینیوں کی درج شدہ شکایات میں سے ایک فیصد سے بھی کم شکایات  میں فردِ جرم عائد ہوئی۔ حتیٰ کہ شیریں ابو عاقلہ کے دنیا بھر میں تشہیر پانے والے قتل اور ان کے جنازے کے جلوس پر واضح طور پر دستاویزی پرتشدد حملے میں بھی، اسرائیلی حکام نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ ممکنہ طور پر کسی اسرائیلی فوجی نے انہیں ہلاک کیا، کہا کہ یہ حادثاتی تھا اور اس کی کوئی فوجداری تحقیقات نہیں ہوں گی۔  

اوچا  کے مطابق، 26 نومبر تک، مغربی کنارے میں فلسطینیوں نے چھ اسرائیلی آباد کاروں کو ہلاک اور 130 کو زخمی کیا۔

اسرائیلی حکام آباد کاروں پر اسرائیلی شہری قانون کا اطلاق کرتے ہیں جبکہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں پر، ماسوائے یروشلم کے رہائشیوں کے، سخت فوجی قانون کے تحت حکومت کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے، وہ انہیں بنیادی قانونی کارروائی سے محروم کرتے ہیں اور تقریباً 100 فیصد سزا کی شرح کے ساتھ فوجی عدالتوں میں ان کا مقدمہ چلاتے ہیں۔ اسرائیلی اخبار ہاریٹز نے اگست میں رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیلی عدالتوں نے 2022 میں انتظامی حراست کے حکم کو منسوخ کرنے کے لیے ایک بھی درخواست منظور نہیں کی اور اسرائیلی تنظیم ایسوسی ایشن فار سول رائٹس کے مطابق وہ کسی واقعے سے آگاہ نہیں جس میں اسرائیلی حکام نے ایسا نہ کیا ہو۔

اسرائیلی جیل سروسز کے اعداد و شمار کے مطابق، 31 دسمبر تک، اسرائیل نے 4,658 فلسطینیوں کو "سیکورٹی" کے جرائم کے لیے حراست میں رکھا۔ فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے گروپ آدمیر کے مطابق، 12 دسمبر تک، اسرائیلی حکام نے 150 فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا۔ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے (او پی ٹی)  سے بہت سے فلسطینیوں کو اسرائیل اپنی حدود کے اندر اپنی حراست میں رکھتا ہے، جو ان بچوں سے خاندانی اراکین کی ملاقاتوں کا معاملہ پچیدہ ہو جاتا ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی قانون کی ان کی مقبوضہ علاقے سے باہر منتقلی کے خلاف پابندی کی خلاف ورزی بھی ہے۔

مارچ میں، اسرائیلی حکام نے فرانسیسی فلسطینی انسانی حقوق کے محافظ صلاح حموری کو گرفتار کر کے انتظامی حراست میں رکھا۔ دسمبر میں، اسرائیلی فورسز نے بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، جو کہ مقبوضہ علاقے سے محفوظ افراد کو بے دخل کرنے سے منع کرتا ہے، کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، حموری کو اسرائیل سے "بیعت کی خلاف ورزی" کی بنیاد پر ان کے آبائی یروشلم سے بے دخل کرتے ہوئے ملک بدر کر دیا۔

اگست میں، خلیل عودہ نے اپنی مہینوں کی انتظامی حراست کے خلاف تقریباً چھ ماہ کی بھوک ہڑتال اُس وقت ختم کی جب اکتوبر میں اسرائیلی حکام نے انہیں رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ تاہم، اسرائیلی حکام نے انہیں اکتوبر میں رہا نہیں کیا اور وہ 10 نومبر تک حراست میں رہے۔ 

اگست میں، اسرائیلی حکام نے غزہ کے امدادی کارکن محمد الحلبی کو 12 سال قید کی سزا سنائی۔ انہیں ان کے ٹرائل سے پہلے اور اس کے دوران انہیں چھ سال تک قید میں رکھنے کے بعد سزا سنائی گئی۔ ان پر مبینہ طور پر فلسطینی مسلح گروپوں کو لاکھوں ڈالر منتقل کرنے کا الزام تھا۔ ان کا ٹرائل باضابطہ قانونی کارروائی کی خلاف ورزیوں جیسے نقائص سے دوچار ہوا۔ ان کے خلاف بہت سے ثبوتوں کو خفیہ بھی رکھا کیا۔ حلبی کے آجر، ورلڈ ویژن کے ایماء پر بہت سی ڈونر حکومتوں اور آزاد فرموں کے آڈٹ میں حلبی کی جانب سے کسی غلط کارروائی کے شواہد نہیں ملے۔  

اگست میں، اسرائیلی حکام نے بتسلیم کے کے فیلڈ ریسرچر ناصر نواجہ کو پر 12 گھنٹے سے زائد عرصے تک حراست میں رکھا. ان پر "مشکلات پیدا کرنے" کا الزام لگایا۔

اسرائیلی حقوق کے گروپ، انسداد تشدد پبلک کمیٹی کے مطابق، 2001 سے لے کر اب تک اسرائیل کی وزارت انصاف کو اذیت کی 1,300 سے زیادہ شکایات، درج ہوئیں۔ ان میں تکلیف دہ ہتھکڑیاں، نیند کی کمی، اور انتہائی درجہ حرارت میں رکھنے کی شکایات شامل تھیں ہے۔ ان کے نتیجے میں دو فوجداری تحقیقات ہوئیں اور کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔ گروپ ملٹری کورٹ واچ نے رپورٹ کیا کہ 2022 میں انٹرویو کیے گئے 100 فلسطینی بچوں میں سے 74 نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز کی حراست میں ان کے ساتھ جسمانی زیادتی کی گئی، اور 42 فیصد کو قید تنہائی کا نشانہ بنایا گیا۔

14 ستمبر تک، اسرائیلی حکام نے 2015 سے لے کر اب تک، بقول ان کے سیکیورٹی واقعات میں ہلاک ہونے والے 106 فلسطینیوں کی لاشیں اپنے پاس رکھی ہوئی تھیں جنہیں وہ 2014 میں حماس کے ساتھ جھڑپ میں مارے جانے والے دو اسرائیلی فوجیوں کی لاشوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ یروشلم لیگل ایڈ اینڈ ہیومن رائٹس سینٹر کے مطابق، حکام نے تسلیم کیا تھا۔

بستیوں اور گھروں کی مسماری

اسرائیلی حکام مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں تقریباً 700,000 آباد کاروں کو سیکیورٹی، بنیادی ڈھانچہ اور خدمات فراہم کرتے ہیں۔  

مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے 60 فیصد اسرائیل کے مکمل کنٹرول (علاقہ سی) والے علاقوں میں اسرائیل سے عمارتوں کے اجازت نامے حاصل کرنے میں دشواری نے فلسطینیوں کو ایسے ڈھانچے تعمیر کرنے پر مجبور کیا ہے جو غیر مجاز ہونے کی وجہ سے مسمار یا ضبط کیے جانے کے مستقل خطرے سے دوچار ہیں۔ ان میں درجنوں اسکول بھی شامل ہیں۔ جنوبی ہیبرون پہاڑیوں جیسے علاقوں میں پوری فلسطینی برادری خود کو بے گھر ہونے کے خطرے میں گھری پاتی ہے۔ بین الاقوامی قانون قابض اتھارٹی کو املاک کو تباہ کرنے سے منع کرتا ہے ماسوائے اس کے کہ یہ "فوجی کارروائیوں" کے لیے "انتہائی ضروری"ہو۔

مارچ میں، اسرائیلی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ مشرقی یروشلم کے پڑوس میں شیخ جراح کے چار خاندان عارضی طور پر اپنے گھروں میں رہ سکتے ہیں، جبکہ وزارتِ انصاف زمین کی ملکیت کا جائزہ لے رہی تھی۔ اسرائیلی آباد کار تنظیموں نے شیخ جراح اور مشرقی یروشلم کے ایک اور پڑوس سلوان میں فلسطینیوں کے مکانات پر قبضہ کرنے اور ان کے طویل مدتی رہائشیوں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے ایسا ایک امتیازی قانون کے تحت کیا ہے، جسے اسرائیلی عدالتوں نے برقرار رکھا ہے، جو ان گروہوں کو اس اراضی کے دعوے کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 1948 سے قبل مشرقی یروشلم میں یہودیوں کی ملکیت تھی۔ فلسطینی بشمول شیخ حراح کے رہائشی جو بے دخلی کے خطرے سے دوچار ہیں، اسرائیلی قانون کے تحت اس علاقے میں وہ املاک دوبارہ لینے کے مجاز نہیں جس کے وہ مالک تھے جو اب اسرائیل بن گیا ہے اور جس سے وہ 1948 میں فرار ہو گئے تھے۔  

نقل و حرکت کی آزادی

اسرائیلی حکام ،شاذونادر مستثنیات کے ساتھ، فلسطینی شناخت کے حامل افراد سے اسرائیل اور مغربی کنارے کے بڑے حصوں بشمول مشرقی یروشلم میں داخل ہونے کے لیے محدود وقت کے حامل اجازت نامے طلب کرتے رہے، جن کا حصول بہت مشکل ہے۔ بتسلیم کے بقول یہ "ایک من مانا، مکمل طور پر غیر شفاف بیوروکریٹک نظام" ہے جہاں "بہت سی درخواستوں کو بغیر کسی وضاحت کے مسترد کر دیا جاتا ہے، جس میں اپیل کا کوئی حقیقی راستہ بھی نہیں۔"

اوچا کے مطابق، اسرائیلی حکام نے جون 2020 تک، مغربی کنارے کے اندر تقریباً 600 چوکیوں اور دیگر مستقل رکاوٹوں کو برقرار رکھا، اس کے علاوہ اپریل 2019 اور مارچ 2020 کے دوران قریب قریب 1,500 عارضی "فضائی" چوکیاں قائم کی گئیں۔ اسرائیلی فورسز معمول کے مطابق پیچھے ہٹ جاتی ہیں یا تاخیر کرتی ہیں اور بغیر کسی وضاحت کے فلسطینیوں کو چوکیوں پر خوار کرتی ہیں، جبکہ اسرائیلی آباد کاروں کو بڑی حد تک بلا روک ٹوک نقل و حرکت کی اجازت دیتی ہیں۔

اسرائیل نے علیحدہ کرنے والی رکاوٹ کی تعمیر جاری رکھی۔ حکام نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ قبل اس رکاوٹ کی تعمیر شروع کی تھی، بظاہر سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر، لیکن اس کا 85 فیصد حصہ مغربی کنارے میں آتا ہے ناکہ گرین لائن کے ساتھ جو کہ اسرائیلیوں کو فلسطینی سرزمین سے الگ کرتی ہے۔ ایسا کرنے سے، اس  رکاوٹ نے ہزاروں فلسطینیوں کو ان کی زرعی زمینوں سے منقطع کر دیا ہے، 11,000 فلسطینیوں کو الگ تھلگ کر دیا ہے جو رکاوٹ کے مغربی جانب رہتے ہیں لیکن انہیں اسرائیل جانے کی اجازت نہیں ہے اور جن کی اپنی املاک اور بنیادی خدمات تک رسائی کے لیے رکاوٹ کو عبور کرنے کی صلاحیت انتہائی محدود ہے، اور، مکمل ہونے پر، یہ مغربی کنارے کا 9 فیصد حصہ کاٹ دےگی۔

فلسطینی اتھارٹی

جون 2021 میں پی اے کی سیکیورٹی فورسز نے ممتاز کارکن اور نقاد نزار بنات کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا جب وہ حراست میں تھے اور ان کی موت پر انصاف کا مطالبہ کرنے والے درجنوں افراد کو پکڑا ، کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا گیا۔ استغاثہ نے 14 سیکیورٹی افسران کے خلاف الزامات عائد کیے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ حکام بہت سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور متعصب ہیں۔

پی اے کے ذاتی حیثیت کے قوانین بشمول شادی، طلاق، بچوں کی تحویل، اور وراثت کے حوالے سے متعلقہ قوانین خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک برتتے ہیں، ۔ فلسطین میں گھریلو تشدد کا کوئی جامع قانون نہیں ہے۔ پی اے طویل عرصے سے خاندانی تحفظ کے قانون کے مسودے پر غور کر رہی ہے، لیکن خواتین کے حقوق کے گروپوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یہ بدسلوکی کو روکنے اور پسماندگان کی حفاظت کے لیے مؤثر نہیں۔ 

موسم گرما میں، مغربی کنارے میں کئی سماجی اور ثقافتی تقریبات منتظمین کے خلاف دھمکیوں کے بعد منسوخ کر دی گئیں۔ فلسطینی حقوق کے گروپ الحق نے پی اے سے مطالبہ کیا کہ وہ ان جگہوں کی بہتر حفاظت کرے اور اس طرح کی سرگرمیوں کے خلاف خطرات کی تحقیقات کرے۔

اسرائیل

مارچ میں، فلسطینیوں کے حملوں میں 9 اسرائیلی شہری اور 2 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ ان حملوں میں حدیرہ اور بنی بارک میں فائرنگ اور بیرشیوا میں چھرا گھونپنے اور کار ٹکرانے کا واقعہ شامل تھا۔ نومبر میں، یروشلم میں ایک فلسطینی کی طرف سے دو بم دھماکوں میں ایک 15 سالہ اسرائیلی بچہ اور ایک دوسرا اسرائیلی شہری ہلاک ہوا۔

کنیسٹ نے مارچ میں ایک عارضی حکم نامہ بحال کیا جس میں چند مستثنیات کے ساتھ، مغربی کنارے اور غزہ سے تعلق رکھنے والے ایسے فلسطینیوں کو اسرائیل کے اندر طویل مدتی قانونی حیثیت دینے سے روک دیا گیا تھا جو اسرائیلی شہریوں یا رہائشیوں سے شادی کرتے ہیں۔ ایسی پابندی، جو 2003 سے نافذ ہے، عملی طور پر کسی دوسری قومیت کے میاں بیوی کے لیے وجود نہیں رکھتی۔ 

جولائی میں، اسرائیلی ہائی کورٹ نے 2008 کے ایک قانون کو برقرار رکھا جس میں اسرائیلی حکام کو "وفاداری کی خلاف ورزی" کی بنیاد پر کسی شخص کی شہریت منسوخ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

اسرائیلی حکام ملک میں تقریباً 28,000 افریقی، زیادہ تر اریٹیرین اور سوڈانی، پناہ گزینوں کے سیاسی پناہ کے دعووں کو منصوبہ بندطریقے سے مسترد کرتے رہے، جبکہ ہزاروں یوکرائنی مہاجرین کو داخلے کی اجازت دیتے رہے۔   حکومت نے پناہ گزینوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کی نقل و حرکت، ورک پرمٹ،صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک رسائی پر  کئی برسوں سے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

اہم بین الاقوامی عناصر

 امریکی صدر بائیڈن نے جولائی میں اسرائیل اور فلسطین کا دورہ کیا۔ انتظامیہ بڑی حد تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بات کرنے میں ناکام رہی، اسرائیل کی طرف سے ممتاز فلسطینی سول سوسائٹی گروپوں کو غیر قانونی قرار دینے کے عمل پر بھی بات نہیں کی۔ تاہم انتظامیہ نے شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی مذمت کی اور تحقیقات کا آغاز کیا۔ مارچ میں، امریکی کانگریس نے اسرائیل کے آئرن ڈوم ایئر ڈیفنس سسٹم کے لیے 1 بلین ڈالر کی فنڈنگ کی منظوری دی، جو کہ امریکہ کی جانب سے ملک کو فراہم کی جانے والی سالانہ 3.7 بلین ڈالر کی سیکیورٹی امداد میں اضافی رقم تھی۔

یورپی یونین کی نو ریاستوں نے جولائی میں کہا کہ انہیں "ایسی کوئی ٹھوس معلومات نہیں ملیں" جو اسرائیل کو فلسطینی سول سوسائٹی گروپوں کو "دہشت گرد تنظیمیں" اور "غیر قانونی انجمنیں" قرار دینے کا جواز فراہم کرتی ہوں اور یہ کہ وہ ان کی مالی مدد جاری رکھیں گے۔

یورپی یونین نے اسرائیل کی آبادکاری کی پالیسی کی مذمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ یورپی یونین کی بنیادی توجہ "امن کے عمل" کو بہتر بنانے کی کوشش پر رہی۔ انسانی حقوق کی کچھ خلاف ورزیوں کو تسلیم کرتے ہوئے، یونین نے ان خلاف ورزیوں کے حوالے سے کوئی معنی خیز نتائج مرتب نہیں کیے۔ اسرائیلی جبر میں اضافے کے باوجود اکتوبر میں، یورپی یونین-اسرائیل ایسوسی ایشن کونسل نے دہائی میں صرف ایک اجلاس منعقد کیا۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کی فلسطین پر تفتیش جاری ہے۔ دسمبر میں، پراسیکیوٹر نے 2023 میں ہونے والے اپنے فلسطین کےمجوزہ سفر کے مقصد کے بارے میں آگاہ کیا۔ 

ستمبر میں، فیس بک اور انسٹاگرام کی بنیادی کمپنی میٹا نے مئی 2021 میں اسرائیل اور فلسطین کے مواد کے جائزے کے دوران انسانی حقوق  کی مناسب جانچ پرکھ کی مشق کی جس میں پتا چلا کہ کمپنی نے فلسطینیوں اور ان کے حامیوں کی سوشل میڈیا پوسٹس کو سنسر کیا۔ ان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق پوسٹیں بھی شامل تھیں۔

دسمبر میں، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے اسرائیل کے طویل قبضے کی قانونی حیثیت اور فلسطینیوں کے خلاف اس کی زیادتیوں سے پیدا ہونے والے قانونی نتائج پر مشاورتی رائے طلب کی۔