(لندن، اپریل 24، 2019) ہیومن رائٹس واچ نے آج جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ملبوسات اورجوتوں کے برانڈزکوکاروبارکے ایسے طریقے ترک کرنے چاہییں جو فیکٹری مزدوروں کے استحصال کا سبب بنتے ہیں۔
66 صفحاتی رپورٹ، '' بس ٹکٹ کے پیسے دے کرجہاز میں سفرکرنے کی توقع': ملبوسات کے برانڈز کی خریدکے طرائق کارکس طرح مزدوروں کے استحصال کا سبب بنتے ہیں،'' نے ملبوسات کی کمپنیوں کے ان بنیادی طرائق کارکی نشاندہی کی ہے جوکہ فیکٹریوں کی طرف سے شدید حد تک لاگت کم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جس کا نقصان مزدوروں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ۔ ہیومن رائٹس واچ کے مشاہدے میں آیا ہے کہ کئی عالمی برانڈز کا دعویٰ ہے کہ وہ ان فیکٹریوں میں مزدوروں کو کام کے بہترحالات دینے پریقین رکھتے ہیں جو ان کی مصنوعات تیارکرتی ہیں تاہم وہ برانڈز اپنی کاوشوں کو آدھے راستے ہیں چھوڑدیتے ہیں جب وہ سپلائیرز پرقیمیتیں کم کرنے یا پیداوارمیں تیزی لانے کے لیے بہت زیادہ دبائو ڈالتے ہیں ۔ کئی سپلائرزنے دباؤ کے ردعمل میں میں مصنوعات کی پیداوارکے اخراجات تشویش حد تک کم کیے ہیں جس کا نقصان مزدوروں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک فیکٹری مالک نے افسردہ انداز میں اس مسئلے کا خلاصہ یوں بیان کیا کہ برانڈز '' بس کا ٹکٹ لے کرجہاز کاسفرکرنا چاہتے ہیں۔''
ہیومن رائٹس واچ نے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ہندوستان، میانمر، اورپاکستان میں مزدوروں، نیز جنوبی ایشیا اورجنوب مشرقی ایشیا سے کپڑوں کے سپلائرز؛ اوران ماہرین کا انٹرویو کیا ہے جن کے پاس فیکٹریوں میں برانڈز کے آرڈرز کی نشاندہی کرنے اورآرڈرزدینے جیسے معاملات میں کم ازکم ایک عشرے کا تجربہ ہے۔
24 اپریل 2013 کوبنگلہ دیش میں پیش آنے والے سانحے رانا پلازہ کی چھٹی برسی ان خطرات کی دلخراش یاددہانی کراتی ہے کپڑوں کے برانڈز کو جن کے خلاف حفاظتی اقدامات کرنے چاہییں۔ سانحے میں ڈھاکہ میں واقع ایک آٹھ منزلہ عمارت تباہ ہوئی تھی جس سے 1,138 مزدورہلاک اور2,000 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
ملبوسات کے برانڈزعام طورپراپنی مصنوعات کئی ممالک میں واقع متعدد فیکٹریوں میں تیار کرواتے ہیں۔ جس سے ان کے لیے ان فیکٹریوں میں کام کے حالات پرنظررکھنا بہت مشکل اورپچیدہ ہوجاتا ہے۔ خریداری کے پچیدہ فیصلے ہرایک برانڈ کی مصنوعات کی تیاری پراثرانداز ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہرایک فیصلہ اثررکھتا ہے چاہے وہ اثرمثبت ہو یا منفی اوریہ فیصلے ہی طے کرتے ہیں سپلائرزنے اپنے مزدوروں کے ساتھ کس قسم کا رویہ اختیارکرنا ہے۔
برانڈز کے ان غیرمنصفانہ حربوں کے جواب میں لاگت کم کرنے کے قابل مذمت طریقے اختیارکرتی ہیں۔ کام کارکے برے حالات والی کمپنیوں کو غیرقانونی ٹھیکے بھی دیے جاتے ہیں۔ دیگرزیادتیوں میں معاوضے کی خلاف ورزی، مزدوروں سے بغیرمناسب وقفے کے تیزی سے کام کرنے کا تقاضا اورکام کے خطرناک یا غیرصحت مند حالات شامل ہیں۔
فوزیہ خان، ایک 24 سالہ غیرشادی شدہ مزدورعورت پاکستان میں ایک فیکٹری میں کام کرتی ہیں۔ انہوں نے مزدوروں پرتیزکام کرنے کے لیے بے رحم دبائو کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا:
میں جائے ملازمت پرجیل جیسے ماحول سے نفرت کرتی ہوں، بیت الخلا جانے پرپابندی، پانی پینے کے لیے اٹھنے پرپابندی، کام کے پورے وقت کے دوران اٹھنے پرپابندی۔ ۔ ۔ اورایک گھنٹہ جو کام میں وقفے کے لیے معین ہے حقیقت میں نصف گھنٹہ ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ آخری بارمیں ایک گھنٹے کا وقفہ کب کیا تھا۔
برانڈز کودنیا بھرمیں پھیلے ہوئے اپنے سپلائی نیٹ ورک میں کام کارکے حالات کی نگرانی کرنےمیں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ کئی اپنی سپلائرفیکٹریوں کی تقصیلات تیارکرنے اوران کے بارے میں بتانے سے انکارکردیتے ہیں جس سے یہ مسئلہ اورزیادہ سنگین ہوجاتا ہے۔ یہ چیزشفافیت کے فقدان کی عکاسی کرتی ہے جس سے نگران اداروں کے لیے ان زیادتیوں کا سراغ لگانا مشکل ہوجاتا ہے جس کا سراغ لگانے میں برانڈز کی اپنی کوششیں بھی ناکام رہتی ہیں۔ اوربعض برانڈز اپنی مصنوعات کے لیے فیکٹریوں کے چنائو کے لیے ایجنٹوں کا استعمال کرتے ہیں اوروہ اس حوالے سے یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ فیکٹری کہاں واقع ہے، وہاں کام کارکے حالات کیا ہیں اورقیمتوں کا رجحان کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے مشاہدے میں آیا ہے کہ ملبوسات کے برانڈز صارف کے بدلتے مطالبات کے باعث منڈی کے ہاتھوں مجبوررہوتے ہیں کہ وہ اپنی مصنوعات کی پیداواراورفروخت میں ریکارڈساز تیزی لائیں ۔ تاہم،برانڈزاگرفیکٹری کی صلاحیت کو اچھی طرح پرکھے بغیریا مزدوروں کو مناسب وقت دیے بغیربشمول قومی تعطیلات اورہفتہ وارآرام کے دن ،مصنوعات کی تیاری کے لیے مزدوروں کو دستیاب وقت گھٹا دیتے ہیں تو وہ ان کے استحصال کا راستہ ہموارکرتے ہیں۔
ایسے برانڈزمزدوروں کے مسائل میں بہت زيادہ اضافہ کرتے ہیں جو تحریری معاہدے نہیں کرتے، یا یک طرفہ معاہدے استعمال کرتے ہیں جن میں مال کی سپلائی کی لچکدار تواریخ نہیں ہوتیں اورایسے واقعات میں مالی سزاؤں سے دستبرداری اختیارنہیں کی جاتی جہاں تاخیرکا سبب خود برانڈز ہوتے ہیں۔ اگرمعاہدے یک طرفہ ہوں تو برانڈ اپنی غلطیوں سے ہونے والے اخراجات کا سارا بوجھ فیکٹریوں پرڈال دیتے ہیں اورپھرفیکٹریاں اخراجات میں کمی لانے کے بے رحم طریقے بروئے کارلاتی ہیں۔ کمپنیاں جو اپنے سپلائرز کو بروقت ادائیگی نہیں کرتیں، مزدوروں کو معاوضوں اورفوائد کی فراہمی میں تاخیرکا سبب بن سکتی ہیں اورفیکٹریوں کو آگ سے بچاؤ اورعمارت سے متعلق حفاظتی اقدامات کے لیے سرمایہ لگانے کے لیے قرضے لینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوکےضابطہ برائے فوری ادائیگی ایک اچھے طرزعمل کی مثال ہے۔
رپورٹ میں ان بنیادی اقدامات کا ذکرکیا گیا ہے جو ملبوسات کے برانڈز کو لینے چاہییں تاکہ مصنوعات کی خرید کے ناقص طریقوں کو درست کیا جائے اورمصنوعات کی سپلائی کے عمل میں ہونے والی زيادتیوں کا تدارک ہوسکے۔ برانڈزکو ذمہ دارانہ سورسنگ پرپالیسیاں بنانی اورشائع کرنی چاہییں اوراپنےتمام شعبوں میں انہیں متعارف کرنا چاہیے۔ انہیں کم ازکم معیار شفافیت کا عہد کی روشنی میں اپنی فیکٹریوں کی فہرست شائع کرنی چاہیے جسے 2016 میں محنت کشوں اورانسانی حقوق کی تنظیموں کے ایک اتحاد نے وضع کیا تھا ۔ انہیں خریداری ایجنٹوں کے استعمال کے طریقہ کارپرنظرثانی کرنے اوریہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سپلائرز کے ساتھ وہ تحریری اورشفاف معاہدے کریں۔
براںڈز کو بہترخریداری (Better Buying)جیسے سرووں میں شریک ہونا چاہیے جو سپلائرز کو برانڈز کی خریداری کے طرائق کارکی درجہ بندی کرنے اورپھران سرووں کے نتائج رپورٹ کرنے کا موقع دیتے ہیں؛ مزدوری کی لاگت کے معقول طریقے استعمال کریں جن میں مزدوری کی لاگت اورسماجی پاسداری کالحاظ رکھا جائے جو کہ فئیروئیرفاؤنڈیشن (Fair Wear Foundation) نے وضع کیے ہیں؛ اورایسے منصوبوں کا حصہ بنیں جو خریداری کے طرائق کارپربرانڈزمیں اجتماعی اصلاحات اورشعبوں کے اجتماعی سوداکاری معاہدوں کو یکجا کرتے ہیں جیسے کہ اے سی ٹی (عمل، تعاون، تبدیلی) منصوبہ ہے۔ انہیں اپنے سپلائرزمیں یونینوں کی تعداد اوراجتماعی سوداکاری معاہدوں کے متعلق اوران اقدامات کے متعلق عام لوگوں کو آگاہ کرنا چاہیے جو انہوں نے فیکٹری آپریشنوں کو متاثرکرنے والی خریداری طریقوں کی بہتری کے لیے کیے ہیں۔
حکومتوں کوایسے قوانین متعارف کرنے چاہییں جو کمپنیوں کی دنیا بھرمیں مصنوعات کی سپلائی کے نظام میں انسانی حقوق کے احترام کو لازمی قراردیں اوران قوانین میں ایسے اقدامات بھی ہونے چاہیں جن سے ان کی تجارتی سرگرمیوں کی نگرانی اورتصحیح ہوسکے۔
'' صارفین کو چاہیے کہ وہ برانڈز کومحض کاغذوں پرپالیساں بنانے اورکھوکھلے اہداف کا حصہ بننے پرکریڈٹ نہ لینے دیں، جب تک کہ وہ نتائج کے بارے میں بھی شفاف ہوں،'' کشیاپ نے کہا۔ '' کمپنیوں کوجو کام فوری طورپرکرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ انہوں نے خریداری کے ناقص طرائق کارکو بدلنے کے لیے اب تک جو کچھ کیا ہے اس سے وہ اپنے صارفین، سرمایہ داروں، مزدوروں اورمحنت کشوں کے حامیوں کو آگاہ کریں۔''
انٹرویوزسےمنتخب اقتباسات
سورسنگ ٹیموں اورخریداروں پر(فیکٹری میں مصنوعات تیارکرنے کے لیے) دباؤ ہمیشہ بہتر(کم) قیمت کی تلاش کے لیے ہوتا ہے۔ ۔ ۔ جس چیز کو مدنظر نہیں رکھا جاتا وہ یہ ہے کہ کسی ایک جگہ پر(قیمت) قیمتوں کے لیے دباؤ ڈالنے کا نتیجہ کسی اورجگہ نکلتا ہے۔ کاروبارمیں ایسے ہوتا ہے۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی برانڈزکے لیے ملبوسات، جوتوں اورغیرملبوسات مصنوعات کی سورسنگ کا 25 برس سے زائد تجربہ رکھنے والے ایک ماہر، لندن، جنوری15، 2019۔
'' قیمت پرکسی قسم کے مذاکرت نہیں ہوتے۔ ان کے لیے بہت زیادہ آپشنز(دیگرسپلائرز) ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ان کے لیے یہ انڈے خریدنے(برانڈز) جیسی بات ہے''۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان سے ایک سپلائرجنہوں نے نام ظاہرنہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ جون 2018۔
'' میرے لیے اوورٹائم کام کروانا اورطے شدہ تاریخ تک مال سپلائی کرنا آسان ہے بنسبت تاخیرکرنے اورفلائٹ کے اخراجات اداکرنے کے۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آفیسرجنہوں نے نام خفیہ رکھنے کی درخواست کی تھی، چین، جنوب مشرقی ایشیا، اورجنوبی ایشیا میں گارمٹ فیکٹریوں کا گروپ جو 17 سے 20 برانڈز کے عالمی ملبوسات سپلائی کرتا ہے، جنوب مشرقی ایشیا، اپریل اورمئی 2018۔
'' مزدوروں کو آرڈرزکی وجہ سے اوٹی (اوورٹائم) کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم مال سپلائی کی تاریخوں کے ساتھ آرڈرزقبول کرلیں مگرسٹائل، نمونے وغیرہ کے لیے تمام منظوریاں حاصل کرنا ابھی باقی ہوں۔ پھر، ہمیں مقررہ تاریخ تک مال سپلائی کرنے کے لیے وہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے جو ہم کرسکتے ہیں۔ بعض فیکٹریاں (کمپنیاں) بہت چالاک ہیں اوروہ دیکھتی ہیں کہ آیا اوٹی پہ زيادہ لاگت آتی ہے یا جہاز کے ٹکٹ پر۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان سے ایک سپلائرجنہوں نے نام ظاہرنہ کرنے کی درخواست کی تھی، جون 2018۔
'' ایک ایجنٹ نے فی ائٹم ریٹ 10 روپے رکھا ہوا ہے(0.14امریکی ڈالر)۔ پورے لباس پرلاگت 50 روپے($0.72) آئے یا 500 روپے($7.20) اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان سے سپلائرجنہوں نے نام ظاہرنہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے '' کمشینوں'' کے بارے میں بتایا جو ایجنٹ سپلائرز سے لیتے ہیں۔ ستمبر2018۔
''اگرکوئی برانڈ کہتا ہے(فیکٹری کو) وہ 150,000 آئٹمزکا آرڈردینے جارہے ہیں اورآرڈردینے کے اصلی وقت ان کا ذہن بدل جاتا ہے اوروہ 250,000 آئٹمزکا کہہ دیتے ہیں، تو پھرآپ کو مقررہ اوقات سے زیادہ کام کرنا پڑے گا یا پھرذیلی ٹھیکے کا بندوبست کرنا ہوگا۔''
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صنعت میں 30 برس سے زائد کام کرنے والے سورسنگ کے ماہر۔ انہوں نے نام ظاہرنہ کرنے کی درخواست کی تھی۔، یو ایس، اکتوبر2018 اورجنوری 2019۔