Skip to main content

پاکستان

2022 کے واقعات

24 اگست 2022 کو پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے علاقے جعفرآباد میں شدید بارش کے بعد ایک بے گھر خاندان سیلاب زدہ علاقے سے گزر رہا ہے۔
 

 

© 2022 اے پی فوٹو/زاہد حسین

موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان سنگین خطرات سے دوچار ہے اور اسے عالمی اوسط سے کافی زیادہ درجہ حرارت کا سامنا ہے، جس سے تباہ کن موسمیاتی حادثات زیادہ شدید اور تواتر سے پیش آتے ہیں۔ مارچ اور اپریل میں، جنوبی ایشیا میں شدید گرمی کی لہر کی وجہ سے ملک کی حالیہ تاریخ کے سب سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کیے گئے جس کے نتیجے میں دوران زچگی ماؤں کی شرح اموات اور عمر رسیدہ افراد کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ اگست میں، پاکستان نے تباہ کن سیلاب کا سامنا کیا جس نے ملک کے ایک تہائی حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ 1,000 سے زائد افراد ہلاک، تین کروڑ سے سے زیادہ بے گھر، اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ بحران ایسے وقت آیاجب پاکستان کو پہلے ہی شدید سیاسی و معاشی بحرانوں اور خوراک اور ایندھن کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کا سامنا تھا۔

اپریل کے اوائل میں، وزیرِ اعظم عمران خان نےعدمِ اعتماد کی تحریک کے دوران پارلیمان کی اکثریت کی حمایت کھونے کے بعد قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی کوشش کی۔ عدالتِ عظمیٰ نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اس کے بعد پارلیمان نے 10 اپریل کو عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا۔ اکتوبر میں عمران خان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر پارلیمانی نشست سے نااہل قرار دے دیا تھا۔

حکومت نے پورا سال ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے اور اختلافِ رائے کا گلا گھونٹنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ حکام نے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنان کو حکومتی اہلکاروں اور پالیسیوں پر تنقید کرنے پر ہراساں کیا اور بعض اوقات حراست میں لیا۔ ذرائع ابلاغ  سے وابستہ لوگوں پر پُرتشدد حملے بھی جاری رہے۔

خواتین، مذہبی اقلیتیں، اور خواجہ سراؤں کو تشدد، امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کا سامنا رہا، اور حکام انہیں مناسب تحفظ فراہم کرنے یا مجرموں کا محاسبہ کرنے میں ناکام رہے۔ حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تشدد اور دیگر سنگین زیادتیوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔

اسلامی عسکریت پسندوں کے حملوں، خاص طور پر تحریک ِطالبان پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور مذہبی اقلیتوں پر حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

اظہار رائے کی آزادی، سول سوسائٹی تنظیموں پر حملے

ذرائع ابلاغ  کو ملنے والی حکومتی دھمکیوں اور اُن پر ہونے والے حملوں نے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں میں خوف کی فضا پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، جس کی وجہ بہت سے لوگوں نے زبان بندی کا راستہ اختیار کیا۔ حکام نے ذرائع ابلاغ  پر سرکاری اداروں یا عدلیہ پر تنقید نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالایا انہیں ڈرایا دھمکایا۔ 2022 میں کئی مواقع پر، سرکاری انضباطی ایجنسیوں نے کئی بار ایسے کیبل آپریٹرز اور ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات بند کیں جو تنقیدی پروگرام نشر کرتے تھے۔

پاکستان کا بغاوت کا قانون، جو نوآبادیاتی دور کی برطانوی دفعات پر مبنی ہے، مبہم اور حد سے زیادہ وسیع ہے اور اکثر سیاسی مخالفین اور صحافیوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ حزب ِاختلاف کی جماعت پاکستان تحریک ِانصاف (پی ٹی آئی) کے ایک سینئر عہدیدار شہباز گِل کو اگست میں اسلام آباد میں بغاوت اور  بغاوت پر اکسانے کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا جب اُنہوں نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کہا تھا کہ جونیئر فوجی افسران کو ایسے احکامات پر عمل نہیں کرنا چاہیے جو رائے عامہ کے خلاف ہوتے ہیں۔ بعدازاں، گِل کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

مئی میں، صحافیوں سمیع ابراہیم، ارشد شریف، صابر شاکر، اور عمران ریاض خان پر اپنے صحافی کام کے دوران بغاوت کی اعانت کرنے اور ریاستی اداروں اور فوج پر پر تنقید کرکے عوام میں فساد پھیلانے والے بیانات دینے اور سوشل میڈیا پر مبہم  پوسٹیں لگانے کا الزام عائد کیا گیا۔ اکتوبر میں، ارشد شریف کو کینیا میں پولیس نے قتل کر دیا تھا۔ شریف نے اپنی جان کو لاحق خطرات کا کہہ کر پاکستان چھوڑ دیا تھا۔

 2022 میں متعدد صحافیوں کو پُرتشدد حملوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اپریل میں، سیاسی جماعت، پاکستان تحریک ِانصاف کے ارکان نے لاہور میں خاور مغل پر حملہ کیا۔ اس کے علاوہ اپریل میں ٹیلی ویژن کی معروف صحافی غریدہ فاروقی کو ریپ کی دھمکیاں دی گئیں۔

غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے سرکاری حکام کی دھونس و دھمکیوں، ہراسانی اور کڑی نگرانی کی اطلاع دی۔ حکومت نے بین الاقوامی انسانیت دوست تنظیموں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی رجسٹریشن اور کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے "پاکستان میں آئی این جی اوز کی ریگولیشن" پالیسی کا استعمال کیا۔

مذہب اور عقیدے کی آزادی

حکومت ِپاکستان توہینِ رسالت کے قانون کی دفعات کو تبدیل یا منسوخ کرنے میں ناکام رہی۔ یہ قوانین مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کا بہانہ فراہم کرتے ہیں اور ان کی بےجا گرفتاری اور مقدمات کے خطرے سے دوچار کرتے ہے۔ توہینِ رسالت کے لیے سزائے موت لازمی ہے، اور 2021 کے اواخر تک درجنوں افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔

جماعتِ احمدیہ کے ارکین توہینِ رسالت کے قوانین کے ساتھ ساتھ مخصوص احمدی مخالف قوانین کے تحت ناجائز قانونی کاروائیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ عسکریت پسند گروپ اور اسلامی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک (ٹی ایل پی) احمدیوں پر "مسلمان ظاہر کرنے" کا الزام لگاتے ہیں۔ ضابطہ فوجداری پاکستان بھی "مسلمان ظاہر کرنے" کو ایک فوجداری جرم کے طور پر دیکھتا ہے۔

جنوری میں، ایک انسداد سائبر جرائم عدالت نے ایک خاتون عنیقہ عتیق کو واٹس ایپ پر "گستاخانہ مواد" شیئر کرنے پر سزائے موت سنائی۔ فروری میں، مشتاق احمد، جو کہ نفسیاتی مرض کا شکار تھا، کو پنجاب کے علاقے میں خانیوال میں مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ایک ہجوم نے سنگسار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

مارچ میں، صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک 21 سالہ خاتون کو تین خواتین نے قتل کر دیا جنہوں نے اس پر توہینِ رسالت کا الزام لگایا تھا۔ پولیس کی تفتیش کے مطابق، ملزمان نے دعویٰ کیا کہ ان کی ایک 13 سالہ خاتون رشتہ دار کو "خواب" میں معلوم ہوا کہ مقتولہ نے توہینِ رسالت کی تھی۔

اگست میں، پنجاب میں حکام نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے پر وقار ستی نامی صحافی پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا۔

ایک پاکستانی انسانی حقوق کی تنظیم، مرکز برائے سماجی انصاف کے مطابق، 1987 سے فروری 2021 کے درمیان پاکستان کے مذہب کی بےحرمتی کے قوانین کے تحت کم از کم 1,855 افراد پر مقدمات درج ہوئے۔

خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی

خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد بشمول عصمت دری، قتل، تیزاب کے حملے، گھریلو تشدد، اور جبری اور بچپن کی شادیوں کا سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری رہا۔ انسانی حقوق کے دفاع کاروں کا اندازہ ہے کہ ہر سال تقریباً 1000 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر ماری جاتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ، یونیسیف کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ 89 لاکھ لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے اور 46 لاکھ کی 15 سال سے پہلے شادی ہو جاتی ہے۔ شادی شدہ لڑکیوں کو اکثر نوعمری میں خطرناک حمل ٹھہرانے اور تنگ وقفوں سے حمل ٹھہرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

 مذہبی اقلیتی برادریوں کی خواتین خاص طور پر جبری شادی کا شکار ہیں۔ حکومت نے بچوں اور جبری شادیوں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

سیلاب سے شدید متاثر ہونے والے لاکھوں افراد میں کم از کم  650,000 حاملہ خواتین اور لڑکیاں تھیں، جن میں سے  73,000 کی زچگی کی تاریخ قریب تھی۔ اقوامِ متحدہ کے آبادی فنڈ (یو این ایف پی اے) کے مطابق متاثرہ خواتین میں سے بہت سی صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات اور مدد  تک رسائی سے محروم ہیں جو انہیں بچے کی پیدائش کے عمل کو محفوظ طریقے سے انجام دینے کے لیے درکار ہیں۔

2022 کے سیلاب سے پہلے بھی، پاکستانی خواتین کو تولیدی صحت کے متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور جنوبی ایشیا میں زچگی کی شرح اموات میں ان کا شمار سب سے زیادہ تھا۔ جنوری میں پاکستان نے جسٹس عائشہ ملک کوعدالتِ عظمیٰ کی پہلی خاتون جج مقرر کیا۔

جنوری میں، پاکستان کی پارلیمان نے جائے روزگار پر خواتین کو تشدد اور ہراسانی سے تحفظ کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک مسودہ قانون منظور کیا۔ قانون نے جائے روزگار کی تعریف کو وسیع کیا تاکہ روزگار کے رسمی و غیر رسمی دونوں مقامات کو شامل کیا جاسکے، اور اسے عالمی تنظیم برائے محنت (آئی ایل او) کے ہراسانی کنونشن 2019 (سی 190) میں بیان کردہ تعریف کے قریب لایا گیا، جس کی پاکستان نے ابھی تک توثیق نہیں کی۔

بچوں کے حقوق

سیلاب میں 400 سے زائد بچے ہلاک اورمتعدد زخمی ہوئے۔ یونیسیف نے بتایا کہ کم از کم 34 لاکھ بچوں کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے اور وہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں، ڈوبنے اور غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔ تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ متاثرہ بچوں میں سے زیادہ تر بے گھر تھے، انہیں پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں تھی، اور انہیں غیر صحت بخش حالات میں رہنا پڑ رہا تھا۔

صورتِ حال اس حقیقت کی وجہ سے مزید خراب ہوئی کہ پاکستان کے سب سے زیادہ متاثرہ 72 اضلاع میں غربت کی سطح پہلے ہی بلند تھی اور بچوں کی مکمل نشوونما بھی نہیں ہو رہی تھی ۔ سیلاب نے 18,000 سے زائد سکولوں کو بھی مکمل یا جزوی طور پر تباہ کیا۔ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ میں ہی لگ بھگ 16,000 اسکول تباہ ہوئے۔ مزید 5,500 اسکول سیلاب سے بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے استعمال کیے گئے۔

سیلاب سے پہلے بھی، پاکستان میں پرائمری اسکول جانے کی عمر کے 50 لاکھ بچے اسکول سے باہر تھے، جن میں زیادہ تر لڑکیاں تھیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ لڑکیاں اسکولوں کی کمی، پڑھائی سے منسلک اخراجات، بچوں کی شادی، بچوں کی مشقّت، اور صنفی امتیاز سمیت دیگر وجوہات کی بناء پر اسکول نہیں جاتیں۔ کوویڈ-19 کے پھیلاؤ سے بچاؤ کے لیے اسکول کی بندش سے تقریباً  ساڑھے چار کروڑ طلباء متاثر ہوئے؛ پاکستان میں انٹرنیٹ کی ناقص سروس اور بہت سے خاندانوں کو انٹرنیٹ سروس اور ڈیوائسز کے حصول میں مشکلات کی وجہ  سے بھی آن لائن تعلیم متاثر ہوئی۔

بچوں کا جنسی استحصال عام ہے۔ بچوں کے حقوق کی تنظیم ساحل نے 2022 کے پہلے چھ مہینوں میں پاکستان بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے روزانہ اوسطاً 12 سے زیادہ واقعات رپورٹ کیے ہیں۔ کم رپورٹنگ کی وجہ سے امکان ہے کہ حقیقی اعداد و شمار کافی زیادہ ہوں گے۔

دہشت گردی، انسداد دہشت گردی اور قانون نفاذ کرنے والوں کی زیادتیاں

تحریکِ ِطالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور ان سے وابستہ تنظیموں نے سیکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں پر خودکش بم دھماکوں اور دیگر حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ ان حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث رہے۔ ان خلاف ورزیوں میں بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھنے اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔ پاکستان تشدد کو جرم قرار دینے والا قانون  بنانے میں ناکام رہا حالانکہ اس پر تشدد کے خلاف کنونشن کے ایک فریق کے طور پر ایسا کرنے کی بین الاقوامی ذمہ داری عائد ہے ۔

پاکستان میں سزائے موت کے 3831 سے زائد قیدی ہیں، جو پھانسی کے خطرے سے دوچار دنیا کی سب سے بڑی آبادی میں سے ایک ہے۔ دسمبر 2014 میں پاکستان کی طرف سے سزائے موت پر سے پابندی اُٹھنے کے بعد سے کم از کم 516 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں کی بڑی تعداد سماج کے پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔

جون میں، عدالتِ عالیہ اسلام آباد نے ایک تاریخی فیصلے میں کہا کہ ’’جب یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہوں کہ بادی النظر میں یہ جبری گمشدگی کا واقعہ ہے تو پھر ریاست اور اس کے تمام اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لاپتہ شہری کا سراغ لگائیں۔ " تاہم حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات کرنے میں ناکام رہی۔

جنسی رغبت اور صنفی شناخت

ضابطہ تعزیراتِ پاکستان کی رُو سے ہم جنس پرست افراد کا جنسی تعلق ابھی بھی جرم ہے جس سے ہم جنس پرست مردوں اور خواجہ سراؤں کو پولیس کی بدسلوکی اور دیگر پُرتشدد اور امتیازی سلوک کا خطرہ لاحق رہا۔ 

پاکستان میں، خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراء عورتیں بدستور خطرات میں گھری رہیں اور 2022 میں صوبے میں کم از کم سات خواجہ سراء خواتین کو قتل کیا گیا۔ ستمبر میں، 2018 کے خواجہ سراؤں کے حقوق کے قانون کے خلاف مذہبی گروہوں کے احتجاج نے قانون سازوں کو قانون کا ازسرنو جائزہ لینے پر غور کرنے پر مجبور کیا جس سے قانون میں موجود تحفظات کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

کلیدی بین الاقوامی عناصر

اگست میں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے جولائی 2019 میں منظور ہونے والے تعطل کے شکار قرضہ پروگرام کو بحال کرنے  کے لیےتقریباً 1.17 بلین امریکی ڈالر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ پاکستان کی عوام پر معاشی بحران کے بوجھ کو کچھ حد تک کم کیا جا سکے۔ اس سے قبل، آئی ایم ایف نے قرض کے پروگرام کو کفایت شعاری کے اقدامات سے مشروط کیا تھا، جس میں بجلی اور ایندھن کی سبسڈی کو ختم کرنا اور ایندھن پر ٹیکس لگانا شامل تھا جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور بہت سے پاکستانیوں کے معاشی حقوق سے مستفید ہونے کی استعداد مزید متاثر ہوئی۔

یورپی پارلیمان کی ذیلی کمیٹی برائے انسانی حقوق (ڈی آر او آئی)  کے ایم ای پیز نےستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا۔ وفد نے 2014-2033 کے لیے ''جی ایس پی پلس'' اسکیم کے تحت یورپی یونین کی منڈی تک پاکستان کی ترجیحی تجارتی رسائی کے معاملے میں یورپی یونین کی نگرانی کے آخری دور کے حصے کے طور پر انسانی حقوق کی صورتِ حال پر توجہ مرکوز کی اور اگلے جی ایس پی سسٹم کی درخواست جس کا تعین2024 میں ہو گا، کے لیے اس کی تیاریوں کا جائزہ لیا۔ وفد نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کے معاملات پر پُرعزم اور منظّم کارروائی کر کے بروقت اصلاحات اور قانون سازی کرے، اور اس مقصد کے لیے تشدد اور جبری گمشدگیوں کے خلاف فوری قانون سازی کرے، اور سزائے موت دینے والے جرائم کی تعداد کو کافی حد تک کم کرے۔

ستمبر میں، پاکستان کے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے دنیا سے "موسمیاتی انصاف" کا مطالبہ کیا۔ ستمبر میں ہی، اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ایک مسودے میں تجویز پیش کی گئی کہ پاکستان کے قرض دہندگان کو قرضوں کے معاملے میں ریلیف دینے پر غور کرنا چاہیے تاکہ پاکستان اپنے مالی وسائل صرف کرنے کے حوالے سے قرضوں کی ادائیگی پر آفات سے نمٹنے کے لیے درکار اقدامات کو ترجیح دے سکے۔

پاکستان اور چین کی حکومتوں نے 2022 میں وسیع اقتصادی و سیاسی تعلقات کو مستحکم کیا، اور چین -پاکستان اقتصادی راہداری پر کام جاری رکھا۔ یہ منصوبہ سڑکوں، ریلوے اور توانائی کی پائپ لائنوں کی تعمیر پر مشتمل ہے۔

ستمبر میں، امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے امریکہ- پاکستان تعلقات کی 75 ویں سالگرہ منانے کے لیے وزیرِ خارجہ، بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی اور کہا: "ماضی میں ہمارے اختلافات تھے؛ یہ کوئی راز نہیں ہے. لیکن ہمارا ایک مشترکہ مقصد ہے: افغانستان کے لیے اور پورے خطے میں بسنے والے لوگوں کے لیے پہلے سے زیادہ مستحکم، پہلے سے زیادہ پرامن، اور آزاد مستقبل۔'' یو ایس ایڈ کی منتظم سمانتھا پاور نے سیلاب سے متعلق امدادی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر پاکستان کا دورہ کیا جس سے ملک کو پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ ملین ڈالر کی امداد ملی۔ سال کے اوائل میں، سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے الزام عائد کیا کہ امریکہ اُنہیں عہدے سے ہٹانے میں ملوث ہے اور اس عمل کو اُس وقت کی پاکستانی حزب ِاختلاف کی جماعتوں کی ملی بھگت سے امریکی حمایت یافتہ "حکومت کی تبدیلی" کی کارروائی قرار دیا اور ثبوت کے طور پر "سائفر" کا حوالہ دیا۔ امریکہ نے ان الزامات کی تردید کی۔