Skip to main content

افغانستان

2019 کے واقعات

عبدل جبار جنہوں نے اپنے خاندان کے چار افراد کھوئے، اُن دیہاتیوں کی فہرست دکھا رہے ہیں جو جلال آباد، افغانستان میں 19 ستمبر 2019 کو ایک فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ یکم اکتوبر 2019 

 

2019©رحمت گل/ اے پی فوٹو

افغان اور امریکی حکومت کی افواج اور طالبان کے درمیان عسکری جھڑپیں 2019 میں تیز ہو گئیں جس کے باعث یکم جنوری اور 30 ستمبر کے دوران 8,000 سے زائد لوگ مارے گئے۔ امریکی حملوں میں اضافے کے باعث، 2019 کے پہلے نصف میں، پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ افغان حکومت اور امریکہ کے حملوں میں ہونیوالی اموات طالبان کے حملوں کی اموات سے بڑھی ہیں اور اس کی وجہ امریکی حملوں میں تیزی سے اضافہ ہے۔ طالبان نے بلاامتیاز حملے کیے، خاص کر ستمبر کے صددارتی انتخابات سے پہلے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں عام شہری زخمی ہوئے۔

امریکہ – طالبان تنازعے کے تصفیے جو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا سبب بن سکے،  پر ہونے والے مذاکرات کی راہ میں ستمبر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ آڑے آ گئے اورافغان حکومت، طالبان اور دیگر افغان گروہوں کے مابین امن مذاکرات کو بے یقینی کی کیفیت سے دوچار کر دیا۔ افغان عورتوں کے حقوق کی کارکنان اور دیگر کارکنوں نے مطالبہ کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں افغانوں کو مؤثر نمائندگی دی جائے اور کسی بھی طرح کے سمجھوتے میں عورتوں کی برابری کی آئینی ضمانتوں سمیت انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔

15 مئی کو نئی پارلیمان کا افتتاح ہوا، اگرچہ دھوکہ دی کے بھروسہ مند الزامات نے انتخابی نتا‏ئج کی شفافیت کو داغ دار کر دیا ہے۔ 28 ستمبر کے صدارتی انتخابات سے پہلے سیاسی ریلیوں اور انتخابات سے متعلقہ مراکز پر طالبان کے خودکش اور دیگر بم دھماکوں نے پورے ملک میں سینکڑوں لوگوں کو قتل اور زخمی کیا۔

افغان حکومت نے بعض حراستی مراکز میں تشدد کم کرنے میں کچھ پیش رفت کی مگر سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور نامور سیاسی شخصیات کو مظالم بشمول جنسی حملوں کے لیے جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہی ہے۔

 7اکتوبر، 2019، ویڈیو
تصادم سے جڑے ذہنی صدمے کے متاثرین کی امداد کا کوئی مؤثربندوبست نہیں

نصف سے زائد افغان آبادی بشمول کشیدگی سے متعلققہ تشدد سے زندہ بچنے والے کئی متاثرین ذہنی دباؤ، فکر اور صدمے کے بعد کےتناؤ جیسی صورتحال سے دوچار ہیں، مگر سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے لوگ 10 فیصد سے بھی کم ہیں جنہیں ریاست سے مؤثر نفسیاتی امداد ملی۔ افغان حکومت اور عالمی ڈونررز کو ذہنی صحت کی سہولیات اور لوگوں تک رسائی جیسی مہموں کا دائرہ وسیع کرنا ہو گا۔

انسان دوست عالمی قانون کی خلاف ورزیاں

اگرچہ 2019 میں شہری علاقوں میں بڑے خودکش بم دھماکوں سے شہری ہلاکتوں میں کمی ہوئی مگر باغیوں کی طرف سے بلاامتیاز حملوں نے ہزاروں لوگوں کو ہلاک اور زخمی کیا ہے۔ دولتؚ اسلامیہ کی افغان شاخ، صوبہ خراسان کی دولتؚ اسلامیہ (آئی ایس کے پی) نے 17 اگست کو کابل کے ایک شادی ہال میں ہونے والے خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 63 افراد ہلاک اور 180 زخمی ہوئے تھے۔ 07 مارچ کو آئی ایس کے پی نے کابل میں ایک ہزارہ سیاسی رہنماء عبدل علی مزاری کی موت کی چوبیسویں برسی کے موقع پر کابل میں ایک تقریب پر مارٹر بم کا حملہ کیا جس نے 11 زندگیاں لینے کے علاوہ 94 افراد کو زخمی کیا۔

طالبان نے اُن عام شہریوں کو ہدف بنایا جو افغان حکومت یا غیرملکی افواج کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ 08 مئی کو طالبان کے جنگجوؤں نے یوایس ایڈ کے منصوبوں کا اطلاق کرنے والی امریکی غیرملکی تنظیم (این جی او) کاؤنٹرپارٹ انٹرنیشنل کے کابل ہیڈکوارٹرز پر حملہ کیا۔ اس سے جڑی ہوئی کئیرانٹرنیشل کی عمارت میں تین شہری مارے گئے۔ افغان طالبان نے افغان حکومت اور غیرملکی فوج کے مقامات پر حملے کر کے سینکڑوں شہریوں کو ہلاک اور زخمی کیا۔ طالبان نے 17 ستمبر کو افغان وزارتؚ دفاع کے قریب ایک خودکش حملہ کر کے 22 شہریوں کو ہلاک اور 38 کو زخمی کیا۔ 05 ستمبر کو نیٹو کے فوجیوں پر ایک خودکش حملے میں کم از کم 10 شہری مارے گئے تھے۔

طالبان نے 06 اگست کو اعلان کیا تھا کہ وہ ریلیوں اور دوسرے سیاسی اجتماعات پر حملے کر کے انتخابات کو متاثر کریں گے۔ 17 ستمبر کو پروان میں ایک انتخابی ریلی پر خودکش حملے میں کم از کم 20 شہری ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوئے۔

امریکی اور افغان فضائیہ کی کاروائیوں نے 2019 کے پہلے نو ماہ میں 1000 سے زائد شہریوں کو ہلاک کیا جوکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 2018 کی نسبت 45 فیصد اضافہ ہے۔ جنوری اور ستمبر کے دوران فضائی حملوں میں 100 سے زائد بچے مارے گئے۔ 23 ستمبر کو ضلع ہلمند کے علاقہ موسیٰ قلعہ میں امریکی فضائی حملے میں 40 شہری مارے گئے جن میں 05 بچے بھی شامل تھے۔ کئی مقتولین ایک شادی سے واپس آ رہے تھے جب ان کی گاڑیاں نشانہ بنیں۔

افغان اسپیشل فورسز نے امریکی سنٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کی مدد سے کیے جانے والے نام نہاد رات چھاپوں کے دوران لوگوں کو موقع پر قتل کیا اور کئی کو اٹھا کر غا‏ئب کر دیا۔ ''02'' کے نام سے معروف نیشنل ڈائریکٹوریٹ سیکیورٹی (این ڈی ایس) یونٹ جسے سی آئی اے کی مدد حاصل ہے، نے 05 ستمبر کو جلال آباد شہر میں ایک حملے کے دوران چار بھائیوں کو قتل کیا جو عام شہری تھے۔ 11- 12 اگست کو یونٹ ''02'' نے ضلع زرمت، ننگرہار میں رات کے چھاپے کے دوران 11 افراد کو موقع پر ہلاک کیا جن میں سے زیادہ تر ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ شہریوں پر سی آئی اے کی مدد سے ہونے والے ان حملوں کے پیچھے مقامی سیاسی رقابتوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

محکمہ صحت کے لوگوں اور مراکز پر حملے

جنگ کے تمام فریقین نے شعبہ صحت کے حوالے سے انسان دوست عالمی قانون کی تمام حفاظتی ضمانتوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ 20 ستمبر کو صوبہ زابل کے علاقے قلات میں این ڈی ایس کی عمارت پر طالبان کے خودکش حملے میں 20 لوگ مارے گئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، اور شہر کے اکلوتے ہسپتال کو شدید نقصان پہنچا۔ حملے نے 80 سے زائد افرا کو زخمی کیا اور کئی ایمبولینسوں کو بری طرح تباہ کر کے امدادی عمل کو شدید متاثر کیا۔

افغان سیکیورٹی فورسز نے طبی مراکز پر چھاپے مارے جہاں انہوں نے طبی عملے اور دیگر شہریوں پر حملہ کیا۔ 08 جولائی کی رات کو اسپیشل فورسز نے صوبہ وردک میں ایک کلینک پر لیبارٹری کے ایک ورکر، ایک محافظ، اورضرورت مند لوگوں کی دیکھ بھال کرنے والے ایک فرد کو مار ڈالا۔

اپریل میں، طالبان نے اپنے زیرؚکنٹرول علاقے میں عالمی کمیٹی برائے صلیب احمر (آئی سی آر سی) کو دی گئی حفاظتی ضمانت واپس لے لی۔ ستنمبر میں تنازعہ حل ہونے کے بعد آئی سی آر سی دوبارہ پوری طرح سرگرم ہوئی۔ اپریل میں ہی، طالبان نے عالمی ادارہ صحت کی پولیو ویکسینیشن پروگراموں کو'' مشتبہ سرگرمیاں'' قرار دے کر بند کر دیا، مگر ستنمبر میں پابندیاں ہٹا لیں۔

عورتوں پر تشدد اور ان کی جنسی ہراسانی

افغانستان کے اٹارنی جنرل نے افغان فٹبال فیڈریشن (اے ایف ایف) کے صدر کریم الدید کریم پر 2017 میں خواتین فٹبال کھلاڑیوں کے ساتھ جنسی تشدد، جنسی حملے اور ہراسانی کی فرد جرم عائد کی تھی۔ فٹبال کے انتظامات کی دیکھ بھال کرنے والی عالمی تنظیم فیفا نے کریم پر زندگی بھر کی پابندی اور دس لاکھ سوس فرانکس (لگ بھگ دس لاکھ امریکی ڈالر) کا جرمانہ عائد کیا۔ مگر اکتوبر تک صورت حال یہ تھی کہ کریم جو کہ سابق گورنر ہیں، کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ عورتوں کی قومی ٹیم کی کھلاڑیوں کے الزامات پر کاروائی کرنے میں ناکامی پر اے ایف ایف کے سابق جنرل سیکریٹری سید آغا زادہ پر فیفا نے پانچ برس کی پابندی عائد کی۔

عالمی فاؤنڈیشن برائے انتخابی نظام نے اتنخابات میں عورتوں پر تشدد کے حوالے سے اپریل میں ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق عورت امیدواروں کی ساکھ متاثر کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال، عورت رائے دہنگان کو درپیش سماجی رکاوٹوں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں؛ اور افغانستان کی عوامی زندگی میں عورتوں پر جنسی حملے اور تشدد کے واقعت بھی بڑھے ہیں۔ وزارتوں میں جنسی ہراسانی، جبر، اور حملوں کے الزامات کے بعد، جولائی میں افغان حکومت نے افغانستان آزاد ہیومن رائٹس کمیشن (اے آئی ایچ آر سی) میں ایک خصوصی یونٹ قائم کیا تاکہ ریاستی اداروں میں عورتوں کی جنسی ہراسانی اور حملوں کی  اطلاعات کی چھان بین ہو سکے۔

ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے دفاع کاروں پر حملے

عبدالصمد امیری جو صوبہ گھور میں اے آئی ایچ آر سی کے قائم مقام سربراہ تھے،کوایک سرکاری ملازم کے ہمراہ 3 ستمبر کو گرفتار کیا گیا۔ 05 ستمبر کو دونوں افراد کی لاشیں میدان وردک صوبے کے ضلع جلریز سے ملیں جو کہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں طالبان نے سرکاری ملازمین کی تلاشی کے لیے چوکیاں قائم کی ہوئی ہیں۔

24 جون کو ایک بیان میں طالبان نے افغانستان کے تمام ٹی وی چینلوں، ریڈیو اسٹیشنوں اور دیگر ذرائع ابلاغ جو ان کے جنگجوؤں پر تنقیدی اشتتہارات نشر کرتے یا چھاپتے تھے، کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی۔

04 اگست کو ایک نجی میڈیا چینل خورشید ٹی وی کے ملازمین کو لے جانے والی بس پر حملہ کر کے بس ڈرائیور اور ایک راہ گیر کو ہلاک جبکہ ایک میڈیا ورکر کو زخمی کر دیا۔ 12 مارچ کو ہلمند کے علاقے لشکرگاہ میں سباوون ٹی وی کے ایک رپورٹر نثار احمدی اس وقت زخمی ہو گئے جب ان کی کار میں نصب بارودی مواد پھٹا۔

آئی ایس کے پی کے نے بھی ذرائع ابلاغ پر حملے کیے اور خوست میں واقع ایک نجی ٹی وی ژمن کے رپورٹر اور ریڈیو براڈکاسٹر سلطان محمود خیرکھواہ کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ خیرخواہ 15 مارچ کو خوست میں اپنی کار پر دو موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔  

ایذا رسانی

اپنی اپریل 2019 کی رپورٹ میں یواین امدادی مشن برائے افغانستان (یواین اے ایم اے) نے کشیدگی سے متعلقہ قیدیوں پر تشدد میں کمی کا مشاہدہ کیا۔ تاہم، اس نے خاص طور پر قندھار سمیت بُرے ترین حراستی مراکز، یا حکومت کی اسپیشل فورسز کے زیرؚکنٹرول حراستی مراکز میں تشدد کی بلند شرح کا مشاہدہ بھی کیا۔ رپورٹ کے مطابق، 2018-2017 میں کشیدگی سے متعلقہ 32 فیصد قیدیوں پر تشدد کیا گیا۔ اس سے پہلے کے دو سالوں کے دوران یہ تعداد 39 فیصد تھی۔   

 یواین اے ایم اے نے صوبہ اروزگان میں طالبان کی حراست سے رہا ہونے والے قیدیوں کے بیانات کی بنیاد پر طالبان کی ایک جیل میں موقع پر قتل کرنے، ایذارسانی، اور برے سلوک بشمول جبری مشقت جیسے واقعات بھی اپنی رپورٹ میں شامل کیے ہیں۔

انتخابات

طالبان نے دھمکیاں دیں اور کئی حملے کیے تاکہ ووٹروں کو 28 ستمبر کے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکے۔ ایسے حملوں میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 75 سے زائد زخمی ہوئے۔ حکومت نے انتخابات والے دن کئی اضلاع کے غیرمحفوظ ہونے کا دعویٰ کر کے ایک تہائی پولنگ اسٹیشن بند کر دیے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ہعض پولنگ اسٹیشن حزبؚ مخالف کے مضبوط گڑھ تھے۔

قندھار میں پولنگ اسٹیشن کے طور پر استعمال ہونے والی ایک مسجد میں بم دھماکہ ہوا جس میں کم از کم 16 ووٹر، انتخابی عملے کے لوگ اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ جلال آباد میں ایک پولنگ مرکز کے قریب دھماکے میں ایک آدمی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ طالبان نے قندوز، تکھر اور وردک اور دیگر صوبوں میں پولنگ مراکز پر راکٹ حملے کیے۔

اہم عالمی کردار

سفیر زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں ایک امریکی مذاکراتی ٹیم دوحہ میں جنوری سے اگست کے دوران طالبان رہنماؤں سے نو بار ملی؛ افغان حکومت کو اس عمل سے باہر رکھا گیا۔ دونوں فریقین نے دیگر امور کے علاوہ طالبان کے اؚس عہد کی بنیاد پر امریکی فوجوں کے انخلاء پر گفتگو کی کہ طالبان افغانستان کی سرزمین سے کسی مخالف مسلح گروہ کو امریکہ پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اطلاعات کے مطابق مذاکرات کار ان دو معاملات پرمتفق ہو گئے اورافغان حکومت، طالبان اور دیگر افغان گروہوں کے درمیان پہلے مذاکرات کے مقررہ وقت پر بھی اتفاق ہو گیا تھا تاکہ وہ مل کر انسانی حقوق اور عورتوں کی برابری کی ممنکہ ضمانتوں سمیت افغانستان کے سیاسی نظام اور دستور کے مستقبل پر بات چیت کر سکیں۔ صدر ٹرمپ نے 07 ستمبر کو امریکی مذاکرات منسوخ کر کے امن پر مزید بات چیت کو غیریقینی صورتحال سے دوچار کیا۔

ایک طرف مذاکرات ہو رہے تھے تو دوسری طرف اس دوران امریکی فوجی کاروائیاں بھی تیز ہو گئیں۔ افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر آسٹن سکاٹ ملر نے کہا کہ امریکہ طالبان رہنماؤں کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ '' ان کی اکٹھا ہونے اور حملوں کی منصوبہ بندی کی استعداد کو محدود کیا جائ''، اور''سیاسی تصفیے کے لیے شرائط عائد کی جا سکیں۔'' افغانستان میں فضائی حملوں میں ریکارڈ ساز اضافہ ہوا۔ جنوری اور ستمبر کے دوران افغانستان پر 8,000  بم اور میزائل داغے گئے۔   

28 ستمبر کو صدارتی انتخابات سے ایک ہفتہ قبل، امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ غنی انتظامیہ میں مبینہ بدعنوانی کی وجہ سے 10 کروڑ ڈالر واپس لے رہا ہے جو اُس نے افغان توانائی منصوبے کے لیے مختص کیا تھا اور اس کے علاوہ منصوبہ بند امداد کی مد میں چھ کروڑ ڈالر کی رقم بھی روک لے گا۔

امن عمل پر خلیل زاد کی مصالحتی سفارت کاری میں پاکستان، ہندوستان اور چین میں ہونے والی ملاقاتیں بھی تھیں۔ 25 اپریل کو ماسکو میں افغانستان کے لیے اپنے مندوبین کے اجلاس کے بعد، امریکہ، روس اور چین نے'' افغانستان کی زیرؚقیادت، افغانستان کے امن عمل'' کی حمایت میں ایک سہ طرفہ بیان جاری کیا۔ 

فروری میں روس نے طالبان کے نمائندوں اور افغان سیاسی رہنماؤں جن میں دو افغان خواتین  اراکین پارلیمان بھی تھیں مگر غنی کی انتظامیہ سے کوئی نمائندہ نہیں تھا، کے درمیان ماسکو میں ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ یہ 2001 کے بعد سے افغان سیاسی رہنماؤں اور طالبان کے درمیان پہلی ملاقات تھی۔ مئی میں، اُسی افغان وفد نے نام نہاد ماسکو مذاکراتی عمل کے دوسرے راؤنڈ میں افغان نمائندوں کے ساتھ ملاقات کی۔

جولائی میں، جرمنی اور قطر نے دوحہ میں طالبان کے عہدیداروں اور افغانستان کے سیاسی و سول سوسائٹی کے رہنماؤں بشمول کئی خواتین، کے مابین ایک ملاقات کا اہتمام کیا؛ مذاکرات میں افغانستان کے سرکاری عہدیدار بھی شامل تھے جو امن سمجھوتے پر گفتگو کرنے کے لیے اپنی ذاتی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ یورپی یونین نے اس گفتگو کو امن عمل کے لیے''ایک اہم پیش رفت'' قرار دیا جس میں''حقوق کی پاسداری ہواور خطرات میں گھرے گروہوں کو تحفظ ملے۔''

13 اپریل کو عالمی بینک نے واشنگٹن میں عالمی ڈونرز کا ایک اجلاس منعقد کیا جس کا مقصد افغانستان میں مصالحت کے بعد کے لیے ایک مجوزہ معاشی منصوبے پر گفتگو کرنا تھا۔ افغانستان کے امدادی ممالک اور عالمی ایجنسیوں کے اہلکار انسان دوست امداد کے لیے گفتگوکرنے کے لیے 19 ستمبر کو لندن میں ملے۔

یورپی یونین نے ستمبر کے انتخابات کی کوریج کے لیے افغان ذرائع ابلاغ کو فنڈز دیے اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ افغانستان میں جوابدہی اور شمولیتی سماج کے لیے اُن کا کردار '' ناگزیر'' ہے

آسٹریلوی وفاقی پولیس کے تحقیقات کاروں نے افغانستان کا دورہ کیا۔ دورے کا مقصد اُن جنگی جرائم کی تحقیقات کرنا تھا جو آسٹریلوی اسپیشل فورسز نے 2006 سے 2013 کے دوران صوبے اروزگان میں اپنی تعیناتی کے دوران مبینہ طور سرزد کیے تھے۔ مبینہ جرائم میں افغان شہریوں کو موقع پر ہلاک کرنے اور دیگر مظالم شامل ہیں۔ افغانستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے آسٹریلوی نشریاتی کارپوریشن کو جو معلومات فراہم کیں وہ اؚن الزامات کی تصدیق کرتی ہیں کہ آسٹریلوی اسپیشل فورسز نے اروزگان میں ایک کسان اور اُس کے بچے کو غیرقانونی طور پر قتل کیا تھا۔ اے ایف پی کی تحقیقات کے متوازی، 2016 سے، آسٹریلوی ڈیفنس فورس کے انسپکٹر جنرل افغانستان میں جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

اپریل میں، عالمی فوجداری عدالت کے تین رکنی بنچ نے آئی سی سی کے پراسیکیوٹر فاٹو بین سوڈا کی افغانستان کی مسلح کشیدگی کے دوران ممکنہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کی درخواست رد کی۔ ججز کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اور ''کلیدی ریاستوں ''میں'' متعلقہ سیاسی منظرنامے میں تبدیلیاں''تحقیقات کے لیے مشکلات پیدا کریں گی'' ان کا بظاہر اشارہ افغانستان میں مذاکرات اور ٹرمپ انتظامیہ کی آئی سی سی پر تنقید کی طرف تھا جس سے لگتا تھا کہ  تحقیقات شروع ہونے کی صورت میں امریکی شہریوں پر فرد جرم لگ سکتی ہے۔  پراسیکیوٹر نے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہے اور اس رپورٹ کے مرتب ہونے تک اپیلیٹ ایوان نے اپیل پر فیصلہ نہیں سنایا تھا۔