2021 میں، پاکستانی حکومت نے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے اور اختلافِ رائے کا گلا دبانے کی کوششوں میں تیزی لائی ہے۔ حکام نے سرکاری عہدیداروں اور پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنانے پر صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنان کو ہراساں کیا اور بعض اوقات حراست میں لیا۔ ذرائع ابلاغ کے لوگوں پر پُرتشدد حملے بھی جاری رہے۔
حکام نے اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے غداری اور انسدادِ دہشت گردی قوانین کے اطلاق کا دائرہ وسیع کیا اور حکومتی کارروائیوں اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والی سول سوسائٹی تنظیموں پر سخت پابندیاں عائد کیں۔ حکام نے مخالف سیاسی جماعتوں کے اراکین اور حامیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا۔
عورتوں، مذہبی اقلیتوں اور خواجہ سراء افراد کو تشدد، امتیازی سلوک اور مظالم کا سامنا رہا جبکہ حکام اُنہیں مناسب تحفظ دینے اور مجرموں کی سرکوبی کرنے میں ناکام رہے۔ حکومت قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو ایذارسانی یا دیگر سنگین مظالم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں کر سکی۔
اِسلامی شدت پسندوں، خاص طور پر تحریکِ لبیک پاکستان کے کارکنان نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور مذہبی اقلیتوں کو حملوں کا نشانہ بنا کر درجنوں لوگوں کو ہلاک کیا
اظہارِ رائے، سول سوسائٹی کی تنظیموں پر حملے
ذرائع ابلاغ خوفزدہ ماحول کی بدولت سیکیورٹی فورسز اور شدت پسند تنظیموں کے مظالم کو اجاگر کرنے سے گریزاں رہے۔ دھمکیوں اور حملوں کا نشانہ بننے والے صحافیوں کی طرف سے خودساختہ زبان بندی کا رجحان بڑھتا ہوا نظر آیا۔ ذرائع ابلاغ پر سرکاری اداروں یا عدلیہ پر تنقید نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ 2021 میں سرکاری انضباطی ایجنسیوں نے کئی بار ایسے کیبل آپریٹرز اور ٹیلی ویژن چینلوں کی نشریات بند کیں جنہوں نے ناقدانہ پروگرام نشر کرنے کی جسارت کی تھی۔
2021 میں کئی صحافیوں پر پُرتشدد حملے ہوئے۔ 20 اپریل کو ایک نامعلوم حملہ آور نے ٹیلی ویژن کے صحافی ابصار عالم پر اسلام آباد میں اُن کے گھر کے باہر فائرنگ کی جس سے وہ زخمی ہو گئے۔ ابصار حکومت کے بہت بڑے ناقد ہیں۔ 25 مئی کو صحافی اسد علی طُور پر تین نامعلوم افراد نے حملہ کیا جو اسلام آباد میں اُن کے اپارٹمنٹ میں زبردستی گھسے، اُنہیں باندھا، اُن کی زبان بند کی اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ طُور نے کہا کہ حملہ آوروں نے اُس سے 'اُس کے فنڈز کے ذرائع' کے متعلق تفتیش کی اور اس کا موبائل فون اور دیگر برقی آلات ساتھ لے گئے۔ حکومت نے واقعے کی تحقیقات کا حکمنامہ صادر کیا مگر تحقیقات کے نتائج سے عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ 29 مئی کو خبروں کے چینل جیو نے پاکستان کے ممتاز ترین ٹاک شو کے میزبان حامد میر کو 'معطل' کر دیا۔ ان کی معطلی کی وجہ یہ بھی کہ وہ ایک اجتجاج کے دوران طُور کے ساتھ یک جہتی کے طور پر بولے تھے۔
غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے کئی سرکاری اداروں کی دھونس و دھمکی، ہراسانی اور کڑی نگرانی کی شکایات کیں۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے اندراج و سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے حکومت نے ''پاکستان میں آئی این جی اوز ریگولیشن'' پالیسی استعمال کی۔
مذہب اور عقیدے کی آزادی
احمدیہ برادری کے لوگ مذہب کی تضحیک کے قوانین، اور احمدی مخالف مخصوص قوانین کا بدستور نشانہ بنتے رہے۔ شدت پسند گروپ اور اسلامی سیاسی جماعت تحریکؚ لبیک (ٹی ایل پی) احمدیوں پر خود کو'مسلمان ظاہر کرنے'' کا الزام عائد کرتے ہیں۔ مجموعہ تعزیراتؚ پاکستان کی رُو سے بھی احمدیوں کا خود کو ''مسلمان ظاہر کرنا'' ایک جرم ہے۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیم، سنٹر فار سوشل جسٹس کے مطابق، پاکستان میں 1987 سے فروری 2021 کے دوران، کم از کم 1,855 افراد پر توہینِ مذہب کے تحت قانونی کارروائی کی گئی ہے۔
17 مئی کو درجنوں افراد نے توہینِ مذہب کے الزام میں دو بھائیوں کو پُرتشدد طریقے سے ہلاک کرنے کے لیے اسلام آباد کے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا، اُنہوں نے تھانے پر دھاوا بولا اور پولیس کے ساتھ لڑائی کی، بعدازاں فورسز نے تھانے پر قابو پا لیا۔ دونوں بھائی جسمانی لحاظ سے کسی قسم کے نقصان سے محفوظ رہے۔ پولیس نے کئی افراد کو گرفتار کیا جو اُس ہجوم کا حصہ تھے، تاہم کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
4 جون کو، عدالتِ عالیہ لاہور نے ایک مسیحی جوڑے شفقت ایمانوئیل اور شگفتہ کوثر کو رہا کیا جو سات سال تک سزائے موت کی کوٹھڑی میں پڑے رہے تھے۔ جوڑے کو 2014 میں ایک مذہبی پیشوا کو ایک 'گستاخانہ' پیغام بھیجنے کے الزام میں سزا ہوئی تھی۔
8 اگست کو، رحیم یار خان، پنجاب میں ایک ایک آٹھ سالہ ہندو بچہ پاکستان میں توہینِ مذہب کا سب سے کم عمر ملزم بنا۔ اُس پر ایک مذہبی مدرسے میں قالین کی بے حرمتی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ضمانت پر اُس کی رہائی کے بعد، ایک ہجوم نے مندر پر حملہ کر کے اسے نقصان پہنچایا۔ بعدازاں بچے پر لگائے گئے تمام الزامات واپس لے لیے گئے۔
عورتوں اور لڑکیوں پر مظالم
پاکستان بھر میں عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد بشمول ریپ، قتل، تیزاب کے حملے، گھریلو تشدد اور جبری شادی ایک سنگین مسئلہ بنا رہا۔ انسانی حقوق کے دفاع کاروں کے اندازے کے مطابق، ہر برس اندازاً ایک ہزار عورتوں کو نام نہاد عزت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔
جولائی میں اسلام آباد میں 27 سالہ نُور مقدم کے پُرتشدد قتل نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا۔ نُور مقدم کے بچپن کے دوست ظاہر جعفر، جس کی شادی کی تجویز اُس نے رد کی تھی، کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اُس سے قبل جولائی میں، پارلیمان نے گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے والے ایک مسودہ قانون کو منظور نہیں کیا تھا، عورتوں کے حقوق کے کارکنان نے مسودہ قانون کو نظرثانی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کو منتقل کرنے کے حکومتی فیصلے پر تنقید کی تھی۔ سی آئی آئی نے یہ کہتے ہوئے مسودہ قانون پر تنقید کی کہ اس میں 'غیراسلامی دفعات' ہیں جو خاندان کے ادارے کو تباہ کر دیں گی۔
اگست میں، لاہور کے ایک پارک میں ایک نوجوان عورت پر 400 سے زائد افراد کے حملے نے ملکی اور غیرملکی مذمت کو دعوت دی۔ لڑکی پر اُس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک ٹک ٹاک ویڈيو بنا رہی تھی۔ حکومت نے مجرموں کا سراغ لگانے کا عہد تو ضرور کیا تھا، تاہم عوام کو کسی فرد کی گرفتاری سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
کمسنی کی شادی کا مسئلہ پاکستان میں ابھی بھی موجود ہے۔ 18 فیصد لڑکیاں 18 برس کی عمر سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں جبکہ 4 فیصد کی شادی 15 برس کی عمر سے پہلے ہو جاتی ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی عورتیں خاص طور پر جبری شادی کا نشانہ بنتی ہیں۔ حکومت نے اِس قسم کی شادیوں کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
عالمی معاشی فورم کے جاری کردہ عالمی صنفی تفاوت گوشوارے 2021 کے مطابق، 156 ممالک کی فہرست میں پاکستان 153 درجے پر تھا۔
بچوں کی تعلیم کا حق
یہاں تک کہ کوویڈ 19 وباء سے پہلے بھی، پاکستان میں پرائمری تعلیم والی عمر کے پچاس لاکھ بچے اسکول سے باہر تھے۔ ہیومن رائٹس واچ کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اسکولوں کی قلت، تعلیم کے ساتھ جڑے اخراجات، بچپن کی شادی، بچوں کی خطرناک مشقّت، اور صنفی امتیاز کی وجہ سے بچیاں اسکول نہیں جا پاتیں۔ کوویڈ 19 کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے اسکولوں کی بندش نے لگ بھگ ساڑھے چار کروڑ طالبعلموں کی تعلیم کو متاثر کیا
پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے مظالم
تحریکؚ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور ان کے اتحادیوں نے سیکیورٹی فورسز پر بم دھماکوں اور بلاامتیاز حملوں کا سلسلہ جاری رکھا جن میں سینکڑوں عام شہری مارے گئے اور زخمی ہوئے۔ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے جنگجوؤں نے سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جولائی میں، خیبر پختونخوا میں داسو ہائيدرو پراجیکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کی ایک بس پر حملے کے نتیجے میں نو چینی انجینئیر مارے کئے۔ اگست میں، کراچی میں ایک گرنیڈ حملے میں چھ عورتوں اور بچوں سمیت 12 افراد مارے گئے۔ کسی گروپ نے ان میں سے کسی حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
پاکستان کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں بغیر الزام کے حراست اور ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہیں۔ مارچ میں، پاکستان نے وزیرِاعظم اُن لوگوں کے اہلِ خانہ سے ملے جنہیں مبینہ طور پر پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے جبری طور پر غائب کر دیا تھا۔ وزیرِاعظم نے اُن سے عہد کیا کہ اُن کے تحفظات کا ازالہ کیا جائے گا۔ البتہ، اُن کی حکومت نے کسی بھی ایسے کیس کی تحقیقات کروانے کا اعلان نہیں کیا۔
پاکستان نے ابھی تک ایذارسانی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی نہیں کی، حالانکہ ایذارسانی کے خلاف اقوامِ متحدہ کے عالمی میثاق کے تحت پاکستان ایسا کرنا کا پابند ہے۔ جولائی میں، پاکستان کے سینٹ نے پولیس کی حراست میں تشدد کو جرم قرار دینے اور نتیجتاﹰ دورانِ حراست اموات کی روک تھام کے لیے متفقہ طور پر ایک انتہائی اہم قانون منظور کیا۔ اس رپورٹ کے تحریر ہونے تک، قومی اسمببلی نے قانون کی منظوری نہيں دی تھی۔ قانون اگر منظور ہو گیا تو ایسا پہلی دفعہ ہو گا کہ پاکستان میں ایذارسانی کے خلاف کنونشن کی مطابقت میں ایذارسانی کی جامع تعریف طے ہو گی۔ مسودہ قانون نے پولیس کی حراست میں موت کے لیے مجرمانہ ذمہ داری عائد کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔
پاکستان میں موت کے قیدیوں کی تعداد 4,600 ہے جس کے باعث پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں سزائے موت کے سب سے زيادہ قیدی پائے جاتے ہیں۔ موت کی کال کوٹھڑی میں پڑے لوگوں کی زيادہ تعداد پسے ہوئے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
جون میں، بین الحکومتی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کا 'زیادہ زیرِنگرانی' والے ممالک کا درجہ برقرار رکھا۔ یہ ایسے ممالک کی خاکستری فہرست ہے جو دہشت گردی کی مالی مدد اور پیسے کی اسمگلنگ کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف کے معیارات پر پورا نہیں اترتے۔ پاکستان 2018 سے خاکستری فہرست میں ہے۔ ایف اے ٹی ایف نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان نے 27 اہداف میں سے 26 اہداف پورے کر کے کافی زیادہ پیش رفت کی ہے، مگر اسے اب بھی یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کی مالی مدد کے معاملات کی تحقیقات اور قانونی کارروائیاں '' اقوامِ متحدہ کے قرارشدہ دہشت گرد گروہوں کے سینئیر قائدین اور کمانڈروں کو ہدف بنا رہی ہیں۔''
اکتوبر میں، پاکستان کے سینٹ نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی جو خودکشی کو جرم قرار دے گا، رپورٹ کے تحریر ہونے تک، پارلیمانی منظوری کا انتظار تھا۔ افراد باہم معذوری کے حقوق کے کارکنان اور ذہنی صحت پر کام کرنے والوں نے اس پیش رفت کو ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
جنسی رجحان اور صنفی شناخت
مجموعہ تعزیراتؚ پاکستان کی رُو سے، ایک ہی صنف کے افراد کا جنسی تعلق جرم ہے جس کی وجہ سے ہم جنسی تعلق والے مرد اور خواجہ سراء پولیس کی زیادتی، اور دیگر قسم کے تشدد اور امتیازی سلوک کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ جولائی میں، کارکنان نے دعویٰ کیا کہ کراچی میں ایک منظم سوشل میڈيا مہم کے ذریعے خواجہ سراء برادری کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ ان کے افراد کے خلاف تشدد کو ہوا دی جا سکے۔ 6 اپریل کو، نامعلوم حملہ آوروں نے کورنگی، کراچی کے رہائشی 60 سالہ ممتاز کے گھر میں گھس کر انہیں فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
اہم عالمی کردار
یورپی یونین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اپریل میں، پوری پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کی جس میں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور جی ایس پی پلس رُتبے کے لیے پاکستان کے استحقاق پر فوری نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا۔ جی ایس پی پلس کی بدولت پاکستان کو انسانی حقوق کے فرائض کی ادائيگی کے عوض تجارتی فوائد حاصل ہیں۔ جون میں، ای یو اور پاکستان نے انسانی حقوق پر گفتگو کی۔ جی ایس پی پلس برقرار رکھنے کے لیے انسانی حقوق کے فرائض کی پاسداری کے حوالے سے پاکستان کی کارکردگی پر ای یو کی رپورٹ 2022 کے اوائل میں شائع ہو گی۔
اپریل میں، حکمران جماعت کے ایک رکن نے قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جس میں صدر ایمانؤل مارکون کے 'اِسلام مخالف' بیانات پر فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ کیا گیا۔
اپریل میں، پاکستان کو اقوامِ متحدہ کے تین پینلوں کی رُکنیت ملی: جرائم کی روک تھام اور فوجداری انصاف کا کمیشن، کمیشن برائے حقوقِ نسواں، کمیشن برائے آبادی و ترقی۔
ترقی وعسکری شعبوں میں پاکستان کے سب سے بڑے امدادی ملک امریکہ کے ساتھ تعلقات 2021 میں غیرمستحکم رہے۔ امریکہ نے افغانستان میں کشیدگی کے حل کے لیے بطورِ بنیادی فریق کے پاکستان کے کلیدی کردار کا اعتراف کیا۔ البتہ، ستمبر میں، امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ امریکہ افغانستان پر اپنی مستقبل کی پالیسی کی تشکیل کے وقت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرے گا۔ انہوں نے پاکستان سے اُس وقت تک طالبان کی حکومت تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا جب تک وہ عالمی برادری کے مطالبات پورے نہيں کرتی۔ وزارتِ خارجہ پاکستان نے کہا کہ بلنکن کے بیانات دونوں ممالک کے درمیان'قریبی تعاون سے ہم آہنگ نہیں تھے۔''
اگست میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد، پاکستان نے عندیہ دیا کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان اور چین نے 2021 کے دوران اپنے معاشی و سیاسی تعلقات اور مستحکم کیے اور چين- پاکستان معاشی راہداری پر کام جاری رہا جس کا مقصد شاہراہیں، ریلویز تعمیر کرنا اورتوانائی کی لائنیں بچھانا ہے۔ اکتوبر میں، پاکستان نے چین کے ساتھ مل کر انسدادِ دہشت گردی کی مشترکہ فوجی مشقیں کیں۔