Skip to main content

پاکستان

2019میں پیش آنے والے واقعات

کراچی، پاکستان میں پاکستانی صحافی 03 مئی 2019 کو صحافت کے عالمی دن کے موقع پر شمعیں روشن کر رہے ہیں۔ 

©2019 اے پی فوٹو/ فردید خان

وزیرؚاعظم عمران خان نے جولائی 2018 میں اپنے عہدے پر براجمان ہونے کے بعد سماجی انصاف کو ترجیح بنانے کاعہد تو ضرور کیا تھا مگر ان کی انتظامیہ نے ذرائع ابلاغ، حزبؚ اختلاف اور غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) پر پابندیاں بڑھا دی ہیں۔  

لوگوں کی بہت بڑی تعداد پاکستانی طالبان، القاعدہ، اور دیگر مسلح گروہوں کے حملوں میں ماری گئی ہے۔ انتہاپسند گروہوں، سرکاری اہلکاروں، اور سیاستدانوں نے ذرائع ابلاغ کو دھمکیاں دیں اور صحافیوں پر مُتشدد حملے کیے۔

عورتوں، مذہبی اقلیتوں اور خواجہ سراء برادری کو تشدد، امتیازی سلوک اور ایذارسانی کا بدستور سامنا رہا جبکہ حُکام اُنہیں مؤثر تحفظ فراہم کرنے یا مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے میں اکثر ناکام رہے۔

حکومت نے سیاسی جماعتوں کے اراکین اور حامیوں کے خلاف کاروائیاں کیں۔ ریاست کے سابق سربراہوں اور کابینہ کے اراکین سمیت حزبؚ مخالف کے کئی اراکین کو بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے اراکین نے احتجاجی مظاہرے کیے جن میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ملوث افراد کی جوابدہی کا مطالبہ کیا گیا۔

مئی میں، توہینؚ رسالت کے مقدمے میں آٹھ برس جیل میں گزارنے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو رہا کیا گیا اور اپنے خاندان سے دوبارہ ملنے کی اجازت دینے کے لیے کنیڈا جانے کی اجازت دی گئی۔

اظہارؚ رائے کی آزادی اور سول سوسائٹی پر حملے

پاکستان کے ذرائع ابلاغ خوف کی فضا میں کام کرتے رہے جس سے سرکاری سیکیورٹی فورسز اور انتہاپسند گروہوں کے مظالم کی کوریج متاثر ہوئی۔ 16 جون کو ایک آزاد پیشہ ور صحافی محمد بلال خان، جو سیاسی معاملات پر ایک مقبول یوٹیوب چینل چلاتا تھا، کو اسلام آباد میں تیز دھار آلے کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔ اس قسم کے خطرات اور حملوں کے ردؚعمل میں، صحافیوں میں سیلف سنسرشپ اختیار کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔

سرکار پر تنقید کرنے پر ذرائع ابلاغ پر حکام کا دباؤ بڑھا ہے۔ بعض واقعات میں، انضباطی ایجنسیوں نے کیبل آپریٹرز کو ایسے نیٹ ورک بند کرنے کی ہدایت کی جو تنقیدی پروگرام نشر کرتے تھے۔  ایک نجی ٹیلی ویژن چینل جیو ٹی وی کو حکومت پر تنقیدی ادارتی پروگرام چلانے کی پاداش میں بند کر دیا گیا یا پھر اُس کے سامعین کی اُس تک رسائی محدود کر دی گئی۔

09 جولائی کو، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے حزبؚ مخالف کے رہنماؤں کی تقریریں نشر کرنے پر تین ٹیلی ویژن چینلوں: کیپیٹل ٹی وی، 24 نیوز ایچ ڈی، اور اَب تک نیوز نیٹ ورک کی نشریات بند کیں۔ پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن، ایک نجی ایسوسی ایشن کا دعویٰ تھا کہ انہیں کوئی وجہ بتائے بغیر یا سننے کا موقع دیے بغیر چینلوں کی نشریات بند کی گئیں۔ یکم جولائی کو جیو ٹی وی پر سابق صدر آصف علی زرداری کا انٹرویو براہ راست شروع ہی ہوا تھا کہ پیمرا نے اس کی نشریات روک دیں۔

وفاتی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 09 فروری کو لاہور میں ایک صحافی اور ٹیلی ویژن کے میزبان رضوان الرحمان راضی کو گرفتار کیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان کے سائبرکرائم قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر کچھ مواد اَپ لوڈ کی تھیں جن میں ''اداروں کی تضحیک'' کی گئی۔ راضی کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔ مئی میں، ایک صحافی گوہر وزير کو اقلیتی پشتونوں کے احتجاجی مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔

ہیومن رائٹس واچ کو کئی ایسی مُستند اطلاعات ملی ہیں کہ سرکاری اہلکاروں نے کئی اداروں اور اُن کے عملے کو دھمکایا، ہراساں کیا اور اُن کی کڑی نگرانی کی۔ سرکار نے پاکستان میں عالمی انسانیت دوست اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے اندراج اور کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے پاکستان میں آئی این جی اوز ضابطہ استعمال کیا۔

مئی میں، اسلام آباد میں ایک 10 سالہ لڑکی کے ریپ اور قتل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بعد، عورتوں کے حقوق کی کارکن اور پشتون رہنماء گلالئی اسماعیل کے خلاف تشدد کی ترغیب دینے اور ریاستی اداروں کی تضحیک کے الزام میں فوجداری مقدمہ درج کیا گیا۔ کئی ماہ روپوش ہونے کے بعدد اسماعیل امریکہ منتقل ہوگئیں جہاں انہوں نے پناہ کی درخواست دی۔

 

 

مذہب اور عقیدے کی آزادی

 

پاکستانی حکومت مذہب کی تضحیک کےقانون میں ترمیم یا تنسیخ کرنے میں ناکام رہی۔ یہ قانون مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد، نیز من مانی گرفتاریوں اور مقدمہ سازی کا بہانہ فراہم کرتا ہے۔ سینکڑوں افراد کو مذہب کی تضحیک  کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں سے اکثریت مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ توہینؚ رسالت کے لیے سزائے موت لازمی سزا ہے، اور اؚس رپورٹ کے تحریر ہونے تک 40 لوگ اس جرم میں سزائے موت کی کوٹھڑی میں بند تھے۔

 اپریل میں، مقامی تاجروں اور مذہبی رہنماؤں نے ٹیکسلا میں ایک درزی پر توہینؚ مذہب کا الزام لگایا جس پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔ مئی میں، میرپورخاص، سندھ میں فسادات پھوٹ پڑے۔  جانوروں کی بیماریوں کے معالج ایک ہندو شخص پر الزام عائد کیا گیا کہ اُنہوں نے ایک ایسے کاغذ پر ادویات لپیٹ کر دیں جس پر اسلامی آیات تحریر تھیں۔

مذہبی اقلیت، احمدیوں کے ساتھ امتیاز کو دوام بخشنے والی مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعات بدستور اُسی حالت میں ہیں۔ اگست میں لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے ایک احمدی عبادت گاہ کو تالہ لگایا کیونکہ مقامی مذہبی پیشواؤں نے احمدیوں کو کھلے عام عبادت کرنے کی اجازت دینے پر اعتراض کیا تھا۔

عورتوں اور بچوں کے حقوق

اگرچہ عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد کے مختلف واقعات نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ متاثرین کو انصاف کے حصول میں رکاوٹیں درپیش ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ حکام چند بنیادی اصلاحات لانے میں کامیاب رہے ہیں۔

اگست میں، 'عزت' کے نام پر قتل کے خلاف مقدمہ جوئی کے لیے قانون کے نفاذ کی اہم کاوش میں جولائی 2016 میں پاکستان سوشل میڈیا کی نامور شخصیت قندیل بلوچ کے اپنے بھائیوں کے ہاتھوں قتل کے مقدمے میں اُس کے والدین کی مجرموں کو ''معافی'' کی درخواست رد کی گئی۔ قندیل کے قتل کے بعد، پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا تھا جس کے ذریعے خاندان کی طرف سے مجرموں کو معافی جیسے قانونی نقص کو دور کیا گیا۔ تاہم، عزت کے نام پر قتل کے بہت کم واقعات پر مجرموں کے خلاف قانونی کاروائی ہوئی ہے۔

جولائی میں، عدالتؚ عظمیٰ نے قرار دیا کہ تیزاب کے حملوں کے واقعات میں، متاثرہ فرد کی طرف سے دائر ہونے والی رحم کی درخواست جس میں مجرم کو معاف کیا گیا ہو، کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ '' سنگین ظلم'' کے مترادف ہے۔

صوبائی کابینہ سندھ نے اگست میں ایک نیا قانون منظور کیا جس کے باعث زرعی مزدور عورتوں کو تحریری معاہدے، کم از کم معاوضے، بہبود کے فوائد، اور معاوضے میں صنفی مساوات کا حق ملا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرعی مزدور عورتوں کا یونین سازی کا حق تسلیم کیا گیا۔

اگست میں، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے ایک مسودہ قانون مسترد کیا جس میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس تجویز کی گئی تھی۔ اوائل عمر میں شادی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یونیسف کے بقول، پاکستان میں 21 فیصد لڑکیوں کی 18 برس سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے۔ کئی عورتوں اور لڑکیوں کو چین اسمگل کیا گیا جہاں انہیں بطورؚ ''دُُلہن'' فروخت کیا گیا۔

پرائمری تعلیم کی عمر کے 50 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں جن میں سے زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اُن کے علاقوں میں اسکول نہیں، کمسنی کی شادیاں ہوتی ہیں اور صنف کی بنیاد پر امتیاز ہوتا ہے۔

بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی جاری رہی۔ ساحل نامی تنظیم کے مطابق، پاکستان بھر سے بچوں سے زیادتی کے ہر روز 10 واقعات سامنے آتے ہیں۔

دہشت گردی، دہشت گردی کا مقابلہ اور قانون نافذ کرنے والوں کی ذیادتیاں

تحریک طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی)، القاعدہ اور اُن کے اتحادیوں نے سیکیورٹی فورسز پر خودکش حملوں اور بلاامتیاز حملے جاری رکھے جو سینکڑوں شہریوں کو ہلاک اور زخمی کرنے کا سبب بنے۔ اُنہوں شہریوں پر بھی غیرقانونی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

12 اپریل کو کوئٹہ، بلوچستان کے ایک بازار میں ہزارہ برادری پر ایک بم حملے میں 20 افراد ہلاک اور 48 زخمی ہوئے۔ 21 جولائی کو خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں دو حملوں کے نتیجے میں چھ پولیس اہلکاروں سمیت نو لوگ مارے گئے۔ ٹی ٹی پی نے تمام حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

18 اپریل کو مکران کوسٹل ہائی وے پر نامعلوم حملہ آوروں نے 15 مسافروں کو ایک مسافر بس سے نیچے اتارا اور پھر اُنہیں قتل کر دیا۔ 12 مئی کو گوادر، بلوچستان میں ایک ہوٹل پر جنگجوؤں کے حملے میں پانچ لوگ مارے گئے۔ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پاکستان کی قانون کے نفاذ کی ایجنسیاں بغیر الزام کے حراست اور ماورائے عدالت قتل سمیت انسانی حقوق کی پامالیوں کی ذمہ دار ہیں۔ پاکستان ایذارسانی کو جرم قرار دینے کے لیے قانون بنانے میں ناکام ہے حالانکہ ایذا رسانی کے خلاف میثاق کے تحت پاکستان پر ایسا کرنا فرض ہے۔

19 جنوری کو پنجاب کے ضلع ساہیوال میں پولیس نے ایک کاروائی میں جس کا ہدف بقول پولیس کے ایک شدت پسند رہنما تھا، ایک کمسن بچی سمیت ایک ہی خاندان کے چار افراد کو مار دیا۔ تاہم، گواہوں کے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ پولیس نے متاثرہ خاندان کی گاڑی پر اندھادھند فائرنگ کی تھی۔ ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا اور وہ قتل کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔

یکم ستمبر کو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں صلاح الدین کو ایک اے ٹی ایم مشین سے پیسے چرانے پر گرفتار کیا گیا اور جلد ہی وہ پولیس کی تحویل میں ہلاک ہو گیا۔ اُن کے خاندان کا دعویٰ تھا کہ ایوبی جو کہ ایک ذہنی مریض تھے، پولیس کے تشدد سے ہلاک ہوئے تھے۔ بعد میں ہونے والی فورینسک رپورٹ نے تشدد کے دعووں کی تصدیق کی تھی۔

اگست میں، پنجاب کے محکمہ انسداد بدعنوانی نے لاہور میں پولیس افسران پر مشتبہ ملزموں کو ایک خفیہ حراستی مرکز میں رکھ کر تشدد کرنے کا الزام عائد کیا۔ پنجاب پولیس نے ان الزامات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا تھا۔

مئی میں، شمالی وزیرستان میں پشتون کارکنوں اور فوج کے درمیان تصادم میں تین افراد مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ دونوں فریق ایک فوجی چوکی پر، جھگڑا شروع کرنے کا الزام ایک دوسرے پر لگاتے رہے۔

سزائے موت

پاکستان میں 4,600 سے زائد افراد سزائے موت کے قیدی ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو سزائے موت کے بہت زیادہ قیدی رکھنے کے حوالے سے سرؚفہرست ہیں۔ دسمبر 2014 میں پاکستان میں پھانسی پر پابندی ہٹنے کے بعد سے 511 لوگوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں میں سے بیشتر سماج کے پؚسے ہوئے طبقوں سے ہیں۔

جون 2019 میں، پاکستان کی عدالتؚ عظمیٰ نے غُلام عباس کی پھانسی روکی۔ غُلام عباس نفسیاتی- سماجی معذوری کا شکار ہے اور 13 برس سے زائد عرصہ سے موت کی سزا کے قیدی کی حیثیت سے پابند سلاسل ہے۔ 

جنسی رجحان اور صنفی شناخت

مقامی تنظیموں کے مطابق، خیبرپختونخوا میں 2015 سے لے کر اب تک کم از کم 65 خواجہ سراء عورتیں قتل ہو چکی ہیں۔ جنوری میں کَرک، خیبر پختونخوا میں ایک خواجہ سراء عورت کو اُس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ ایک موسیقی کی تقریب سے واپس آ رہی تھی۔ جولائی میں پنجاب کے ضلع ساہیوال میں پولیس کو دو خواجہ سراء عورتوں کی لاشیں ملیں جنہیں تشدد کر کے مارا گیا تھا۔ اگست میں خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں ایک خواجہ سراء عورت ہنی کو مار دیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکام نے مجرموں کے خلاف کاروائی نہیں کی۔

پاکستان نے 2018 میں خواجہ سراؤں کے حقوق کا ایک بڑا اچھا قانون منظور کیا تھا۔ تاہم، پاکستان کا فوجداری قانون ایک ہی صنف کے لوگوں کے مابین جنسی سرگرمی کو جرم قرار دیتا ہے جس سے مردوں اور خواجہ سراء عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے والے مرد پولیس کی ذیادتی، اور دیگر قسم کے تشدد اور امتیاز کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

ہیلتھ ورکرز پر حملے

ٹی ٹی پی اور دیگر شدت پسند گروہوں نے سماج کی نچلی سطحوں پر صحت کی سہولیات اور پولیو ویکیسین دینے والے ہیلتھ ورکرز پر حملے کیے۔

اپریل میں حملوں کی ایک لہر نے حکومت کو ملک بھر میں پولیو کی ویکسین کی مہم عارضی طور پر معطل کرنے پر مجبور کیا۔ 23 اپریل اور 24 اپریل کو خیبرپختونخوا میں پولیو ورکرز کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ 30 اپریل کو چمن، بلوچستان میں دو نامعلوم حملہ آوروں نے ایک خاتون پولیو ورکر کو قتل کیا۔ حکومت نے شعوری مہم چلائی اور ویکسین مخالف مواد ہٹانے کے لیے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارموں سے رجوع کیا۔ جس کے بعد ویکسین کی مہم دوبارہ شروع ہوئی۔

اہم عالمی کردار

وزیرؚاعظم خان نے جولائی میں ملک کے سب سے بڑے ترقیاتی اور عسکری معاون امریکہ کا دورہ کیا اور عہد کیا کہ وہ افغان امن عمل کی مدد کریں گے۔

پاکستان اور چین نے 2019 میں وسیع تر معاشی و سیاسی تعلقات مضبوط ہوئے، اور شاہراہوں، ریلویز، اور توانائی کی پائپ لائنوں کے منصوبے چین- پاکستان معاشی راہداری پر کام جاری رہا۔ جولائی میں، پاکستان نے درجن بھر سے زائد مسلم ممالک کے ہمراہ سؚنکیانگ میں چین کی پالیسیوں کی حمایت میں ایک دستاویز پر دستخط کیے جس میں علاقے کے مسلمانوں پر ہونے والے وسیع تر جبر کو نظرانداز کیا گیا تھا۔

مئی میں، پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پاکستان کے لیے چھ ارب امریکی ڈالر کے قرضے پر متفق ہوئے۔

جون میں، یورپی یونین اور پاکستان نے اپنے 2019 اسٹرٹیجک شراکت منصوبے کا اعلان کیا جس میں انسانی حقوق پر تعاون بھی شامل ہے۔ جنوری میں، یورپی یونین کی اعلیٰ نمائندہ فریدیریکا موگیرینی نے آسیہ بی بی کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے اُن کی اور اُن کے خاندان کی سلامتی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔

پاکستان اور ہندوستان کے مابین تاریخی لحاظ سے خراب تعلقات جموں و کشمیر کے علاقے پلوامہ میں فروری میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کے ایک قافلے پر خودکش بم دھماکے کے بعد مزید بگڑ گئے۔ ایک اسلامی جنگجو تنظیم جیش محمد جس کی بنیادی طور پر جڑیں پاکستان سے ملتی ہیں، نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

ستمبر میں ریاست جموں و کشمیر کی آئینی خودمختاری کے خاتمے کے ہندوستانی فیصلے، اور کشمیری رہنماؤں کی گرفتاری اور فون و انٹرنیٹ کے سروس بند ہونے کے بعد، پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کردیے، ہندوستانی ہائی کمشنر کو ملک سے نکال دیا اور اور سیکیورٹی کونسل میں معاملے کو زیرؚبحث لا کر معاملے میں عالمی برادری کی مداخلت کا مطالبہ کیا۔ سلامتی کونسل نے پاکستان کی درخواست اور چین کی حمایت پر معاملے پر بحث کے لیے ایک بند کمرہ اجلاس منعقد کیا۔ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوامؚ متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی قرارداد منظور کروانے کی کوشش بھی کی۔ مگر ایسا کروانے میں ناکامی پر پاکستان نے چین اور اسلامی تعاون تنظیم کے کئی ملکوں کی مدد سے ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔