پاکستان کو 2011میں ایک تباہ کن سال دیکھنے کو ملا، جہاں جنگجو گروپوں کے ذریعہ شہریوں پر بے تحاشہ حملے ہوئے، غذا اور ایندھن کی قیمتیں آسمان چھونے لگیں اور ایک فوجی کے ذریعہ خارجہ اور سلامتی پالیسی کے لگ بھگ مکمل کنٹرول کا مفروضہ سامنے آیا جس نے سزا سے بے خوف کر اپنا کام انجام دیا۔مذہبی اقلیتوں کو ناقابل قیاس عدم سلامتی اور مواخذہ کا سامنا ہوا۔عقیدے اور اظہار بیان کی آزادی زبردست خوف کے سایہ تلے آگئی کیونکہ اسلام پسند جنگجو گروپوں نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر (Salmaan Taseer)کو اور وفاقی اقلیتوں کے وزیر شہباز بھٹی (Shahbaz Bhatti)کو اس وجہ سے قتل کرڈالا کہ انہوں نے اکثر و بیشتر بیجا استعمال کیے جانے والے ملک کے ملحدانہ قوانین میں ترمیم کرنے کی عوامی طور پر تائید کی۔پاکستان کی منتخبہ حکومت انتہا پسندوں کے ذریعہ دھمکائے گئے افراد کو تحفظ فراہم کرنے، یا انتہا پسندوں کو جوابدہ قرار دینے میں واضح طور پر ناکام رہی۔
اگست اور ستمبر کے مہینے میں جنوبی صوبہ سندھکو سال کی دوسری زبردست سیلاب زدگی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے سبب 700,000افراد بے گھر ہوگئے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر، کراچی کو مسلح گروپوں کے ذریعہ انجام دی جانے والی سیکڑوں اہدافی ہلاکتوں کا سامنا ہوا جن کو سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔
سلامتی کا مسئلہ 2011میں بھی رو بہ زوال رہا، جب کہ جنگجو اور مسلکی جماعتوں کی طرف سےخودکش بمباری اور اہدافی ہلاکتیں پورے ملک میں جاری رہیں۔طالبان اور ان سے منسلک گروپوں نے شہریوں اور عوامی مقامات، بشمول بازاروں اورمذہبی اجتماعات کو نشانہ بنایا۔دہشت گردانہ حملوں کے باعث نفاذ قانون میں آنے والا انقطاع، پورے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں ہلاکتوں میں ڈرامائی اضافہ، مشتبہ مجرموں کو مسلسل اذیت رسانی اور ان کے ساتھ غلط برتاؤ، اور مشتبہ دہشت گردوں اور فوج کے مخالفین کا لاینحل طور پر جبرا غائب ہوجانا حقوق کی رواں تشویشات میں شامل ہیں۔پاکستانی پولیس کے ذریعہ بیجا استعمال، بشمول ورائے عدالت ہلاکتیں بھی 2011میں پورے ملک میں جاری رہنے کی اطلاعات بھی ملتی رہیں۔
پاکستان اور ریاستہائے متحدہ–پاکستان کے سب سے اہم اتحادی اور اس کا سب سے بڑا شہری و فوجی امداد عطیہ کنندہ –کے مابین تعلقات میں 2011میں زبردست انحطاط آیا، اور لاہور کے ایک ٹریفکچوراہےپر CIAکے ٹھیکیدار کے ذریعہ دو افراد کو قتل کردینے اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے ذریعہ ہلاک کیے جانے کے معاملے پر پیدا شدہ سفارتی بحران نے اس میں ایندھن کا کام کیا۔
بلوچستان
معدنیات سے بھرپور صوبہ بلوچستان میں حالات میں قابل غور حد تک انحطاط آیا۔ہیومن رائٹس واچ نے بدستور "گمشدگی" اور مشتبہہ بلوچ جنگجوؤں کی اور فوج، انٹلی جنس ایجنسیوں اور نیم فوجی سرحدی دستوں کے ذریعہ حزب اختلاف کے کارکنان کی ہلاکتوں کو ضبط تحریر کیا۔بلوچ قوم پرستوں اور دیگر جنگجو گروپوں نے بھی غیر بلوچ شہریوں، اساتذہ اور تعلیمی عملہ پر، ساتھ ہی اس صوبہ کے سلامتی دستوں کے خلاف بھی حملوں میں اضافہ کردیا۔پاکستانی فوج بدستور حکومت کی مصالحتی کوششوں اور "گمشدگی" کا موضوع بحث بننے والے نسلی بلوچ شہریوں کی نشاندہی کی کوششوں کی اعلانیہ طور پر مزاحمت کرتی رہی۔ایسا لگا کہ حکومت فوج کے بیجا استعمال پر نکیل کسنے میں بے اختیار ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اس سال کے دوران بلوچ قوم پرستوں کے کم از کم 200کارکنان کی ہلاکتوں، نیز گمشدگی کے درجنوں نئے واقعات ریکارڈ کیے۔مرنے والوں میں ایک معروف بلوچ قوم پرست کارکن عبد الغفار لنگو (Abdul Ghaffar Lango)، اور بلوچ طلباء تنظیم (آزاد) کے ایک کارکن حنیف بلوچ (Hanif Baloch)شامل ہیں۔
2011کی شروعات سے ہی، اس صوبہ میں فوج پر نکتہ چینی کرنے والے حقوق انسانی کے کارکنان اور ماہرین تعلیم ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ان میں غیر سرکاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رابطہ کار صدیق عیدو (Siddique Eido)؛ یونیورسٹی آف بلوچستان کے ایک پروفیسر صبا دشتیاری (Saba Dashtiyari)اور ایک مشہور زمانہ بلوچ مصنف اور شاعر اور بلوچ سیاستداں عبد السلام (Abdul Salam)شامل ہیں۔ستمبر میں مشرقی بلوچستان میں ہوئے ایک حملے میں BGPآئل اینڈ گیس کمپنی کے تین ملازمین ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے، جس کی ذمہ داری ایک جنگجو گروپ بلوچ لبریشن آرمی نے لی۔
مذہبی اقلتیں
پورے پاکستان میں شیعہ اور دیگر کمزور گروپوں کے خلاف حملے ہوئے۔سنی جنگجو جماعتیں، جیسے نام نہاد ممنوعہ لشکر جھنگوی، نے سزا سے بے خوف ہوکر ایسے علاقوں میں بھی جہاں ریاستی اتھارٹی اچھی طرح مستحکم تھی، جیسے صوبہ پنجاب اور کراچی میں، سرگرم عمل رہی۔19ستمبر کو، شیعوں کے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے بذریعہ بس ایران کا سفر کرنے والے ہزارہ برادری کے 26افراد کو بندوق برداروں نے مستنگ شہر کے قریب جبرا بس سے اتار لیا اور انہیں گولی مار کر موت کی نیند سلادیا۔مزید دیگر تین افراد کو اس وجہ سے ہلاک کردیا گیا کہ وہ زخمیوں کو ہسپتال لے گئے۔لشکر جھنگوی نے اس کی ذمہ داری لی۔ 4اکتوبر کو، موٹر سائکلوں پر سوار بندوق برداروں نے ایک بس کو روکا جس پر زیادہ تر ہزارہ شیعہ مسلمان سوار تھے جو بلوچستان کی راجدھانی کوئٹہ کے نواح میں ایک سبزی منڈی میں کام کرنے جارہےتھے۔حملہ آوروں نے مسافروں کو بس سے اترنے پر مجبور کیا، انہیں ایک قطار میں کھڑا کیا اور گولی چلادی، جس میں 13افراد ہلاک اور 6زخمی ہوئے۔
2001میں صوبہ پنجاب کی ایک عیسائی خاتون، آسیہ بی بی (Aasia Bibi)اس ملک کی تاریخ میں ارتداد کے سبب موت کی سزا پانے والی پہلی خاتون بنی۔نومبر 2010میں ایک متنازعہ تحریک میں لاہور ہائی کورٹ کے ذریعہ، صدر آصف علی زرداری
(Asif Ali Zardari)کو اس کی رحم کی درخواست منظور کرنے سے روک دیئے جانے کے بعد، وہ جیل میں ہی زندگی بسر کرتی رہی۔ حکمراں پاکستان پیوپلز پارٹی (PPP)کے اعلی مرتبت اہلکاروں نے اس کی رہائی کا اور پاکستان کے ضابطۂ تعزیرات کی دفعہ 295(C)میں، جس کو بصورت دیگر قانون توہین رسالت کے نام سے جانا جاتا ہے، ترمیم کا مطالبہ کیا۔تاہم، حکومت انتہا پسند گروپوں کی جانب سے پڑنے والے دباؤ کے آگے جھک گئی اور مجوزہ ترمیم سے کنارہ کش ہوگئی۔
حکمراں جماعت کی قانون ساز ممبر شیری رحمان (Sherry Rehman)، جنھوں نے ترمیم کی بات سامنے رکھی،کو حکومت کی ناکارکردگی کی صورت میں کئی بار سر عام موت کی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ 4جنوری کو پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر
(Salmaan Taseer)کو اس ترمیم کی تائید کرنے کے پاداش میں ان کی سلامتی دستہ کے ایک ممبر کے ذریعہ تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیا گیا۔ 2مارچ کو اسی وجہ کے چلتے وفاقی وزیر برائے اقلیت شہباز بھٹی (Shahbaz Bhatti)کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔یوں تو سلمان (Salmaan)کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے والا موقع پر ہی گرفتار ہوگیا، مگر حکومت نے قاتلوں کے تئیں ردعمل کا اظہار اس طرح کیا کہ انتہاپسندوں کو جوابدہ قرار دینے کے بجائے ان کی خوشنودی حاصل کرنے لگی۔حوصلہ پانے والے انتہا پسندوں نے حکومت کی مثبت پسندی کا استحصال یوں کیا کہ اقلیتوں کو مزید خوف میں مبتلا کرنے لگے اور اس سال توہین رسالت کے معاملات اور الزامات میں اچانک اضافہ دیکھنے کو ملا۔اقلیتوں، مسلمانوں، بچوں اور ذہنی طور پر معذور افراد سبھی پر اس قانون کے تحت دفعات عائد کی گئیں۔
احمدیہ مذہبی برادری کے افراد بھی توہینی مواخذوں کے لئے ایک بڑا ہدف بنے رہے اور وہ پورے پاکستان میں احمدیہ مخالف مخصوص قوانین کا نشانہ یں۔انہیں روز افزوں سماجی امتیاز کا بھی سامنا ہے جس کی عکاسی یوں ہوتی ہے کہ اکتوبر میں صوبہ پنجاب کے حفیظ آباد میں واقع ایک اسکول سے 10طلباء کا اس وجہ سے اخراج کردیا گیا کہ وہ احمدیہ برادری کے تھے۔نومبر میں، چار ہندوؤں کو، جن میں سے تین ڈاکٹر تھے، صوبہ سندھ کے شکار پور شہر میں مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعہ کیے گئے ایک حملے میں ہلاک کردیا گیا، جس نے پوری اقلیتی برادری میں غم کی ایک لہر پھیلا دی۔
خواتین کےحقوق
خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ غلط برتاؤ –بشمول عصمت دری، خانگی تشدد اور جبری شادی –بدستور ایک سنگین مسئلہ ہے۔مذہبی انتہا پسندوں کے ذریعہ خواتین اور لڑکیوں کو برسر عام خوف میں مبتلا کرنے، اور انہیں دھمکیاں دینے کے واقعات 2011میں بڑے شہروں میں بڑھ گئے ہیں۔
ایک مایوس کن پیشرفت یہ ہوئی کہحکومت خانگی تشدد (انسداد و تحفظ) کا مسودہ قانون دوبارہ پیش کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی، جو اگست 2009میں قومی اسمبلی کے ذریعہ اتفاق رائے سے پاس ہوا تھا، لیکن پاکستانی دستور کے تحت حسب تقاضہ تین ماہ کے اندر سینیٹ کے اسے پاس نہ کرپانے کے بعد یہ کالعدم ہوگیا۔اپریلمیں سپریم کورٹ نے صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کی ایک دیہی خاتون، مختار مائی (Mukhtar Mai)کی اجتماعی عصمت دری کے ملزم چھ مردوں میں سے پانچ کو بری قرار دینے کے صوبائی لاہور ہائی کورٹ کے2005 کے فیصلے کو برقرار رکھا، جس کی عصمت دری 2002میں گاؤں کی ایک پنچایت کے احکامات پر کی گئی تھی۔
جنگجوؤں کے حملے اور دہشت گردی مخالف کارروائیاں
طالبان، القاعدہ، اور ان سے منسلک جماعتوں کے ذریعہ خودکش بمباری، مسلح حملوں اور ہلاکتوں نے پاکستانی معاشرے کے تقریبا ہر فرقے کو نشانہ بنایا، جس میں صحافی اور مذہبی اقلیتیں بھی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں سیکڑوں اموات ہوئیں۔امریکہ اور دوسرے ممالک کا الزام ہے کہ فوج اور انٹرسروسز انٹلیجنس (ISI)ان نیٹ ورکس کے ساتھ ملوث تھے، حالانکہ فوج اور حکومت نے سختی کے ساتھ ان دعووں کی تردید کی۔
سیکیورٹی فورسیز دہشت گردی مخالف کارروائیوں کی انجام دہی میں عموما بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔بسا اوقات مشتبہ افراد کو بغیر الزام کے زیر حراست رکھا گیا یا منصفانہ مقدمہ کے بغیر انہیں سزا سنا دی گئی۔القاعدہ، طالبان، اور دیگر مسلح گروپوں کے ہزاروں مشتبہ افراد–جو سوات اور وفاقی حکومت کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں 2009میں شروع ہوئی ملک گیر حکومتی کارروائی میں پکڑے گئے تھے –غیر قانونی فوجی حراست میں رہے؛ ان میں سے چند ہی کا مقدمہچلا یا انہیں عدالتوں میں پیش کیا گیا۔فوجی کارروائی کے دوران زیر حراست لیے گئے افراد تک ان کے وکیلوں، رشتہ داروں، خود مختار نگرانوں، اور انسانیت نواز ایجنسیوں کے عملہ کی رسائی سے فوج مسلسل انکار کرتی رہی۔
شمالی پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کے مشتبہ افراد پر امریکہ کے ذریعہ کیے جانے والے ہوائی ڈرون حملے 2011میں بھی جاری رہے، جس میں کوئی 70حملے لگ بھگ اوائل نومبر میں ہی ہوئے۔
سابقہ سالوں کی طرح ان حملوں میں بڑی تعداد میں شہریوں کے زخمی ہونے کے دعوے کیے گئے، لیکن ان لڑائِی والے علاقوں تک رسائی کی کمی آزادانہ تصدیق میں مانع بن گئی ہے۔
کراچی
کراچی کو اس سال کے دوران خصوصی طور پر اعلی درجے کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا، جس میں کوئی 800افراد ہلاک ہوئے۔یہ ہلاکتیں مسلح گروپوں کے ذریعہ ہوئیں جنہیں اس شہر میں موجود سبھی سیاسی جماعتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔متحدہ قومی موومنٹ (MQM)، کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو، جس کے پاس زبردست مسلح کیڈر ہے اور جو حقوق انسانی کی خلاف ورزی اور سیاسی تشدد کی ایک باقاعدہ دستاویز بند تاریخ کی حامل ہے، وسیع پیمانے پر اہدافی ہلاکتوں کا ارتکاب کرنے والے ایک بڑے مجرم کی حثیت سے دیکھا گیا۔عوامی نیشنل پارٹی (ANP)اور PPPکی پشت پناہی والی امن کمیٹی نے MQMکے کارکنان کو ہلاک کیا۔تشدد کا خاتمہ کرنے کے لئے 6اکتوبر کو پاکستان کی عدالت عظمی کے جاری کردہ ایک فرمان کے باوجود، حکام نے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو جوابدہ قرار دینے کے لئے کوئی بامعنی اقدام نہیں کیا۔
میڈیا کی آزادی
اس سال کے دوران پاکستان میں کم از کم چھ صحافی ہلاک ہوئے۔ہانگ کانگ میں واقع ایشیا ٹائمز آن لائن اور اطالوی خبر رساں ایجنسی اڈنکرونوس انٹرنیشنل (Adnkronos International)کے نامہ نگار سلیم شہزاد (Saleeem Shahzad)29مئی 2011کی شام کو وسطی اسلام آبادراجدھانی سے غائب ہوگئے۔ شہزاد کو فوج کی خوفناک ISIایجنسی کی جانب سے بار بار اور بلا واسطہ دھمکیاں ملی تھیں۔شہزاد کی لاش جس پراذیت رسانی کے واضح نشانات موجود تھے، دو دن کے بعد 31مئی کو اسلام آباد سے 80میل دور جنوب مشرق میں، منڈی بہاؤ الدین کے قریب دریافت ہوئی تھی۔قتل کی وجہ سے ایک بین الاقوامی اور ملکی اضطراب پیدا ہونے کے بعد، ISIکے ملوث ہونے کے الزامات کی چھان بین کرنے کے لئے چند دنوں کے اندر ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا۔9اگست کو ہیومن رائٹس واچ نے کمیشن کے سامنے بیان دیا۔اس تحریر میں کمیشن نے اپنے نتائج کا اعلان نہیں کیا ہے۔
قبل ازیں، 13جنوری کو جیو ٹی وی کے نامہ نگاہ ولی خان بابر (Wali Khan Babar)کو کراچی میں گروہی تشدد کو منظر عام پر لانے کے فورا بعد ہی شہر میں ہی ان پر گولیاں برسا کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ 10مئی کو ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس کے صدر نصر اللہ خان آفریدی (Nasrullah Khan Afridi)کو اس وقت ہلاک کردیا گیا جب وہ ان کی کار پشاور میں دھماکے سےاڑا دی گئی ؛ صوبائی وزیر اطلاعات نے اس کارروائی کو "طالبان کے ذریعہ اہدافی ہلاکت" کا نام دیا۔ 14اگست کو بلوچستان کے خضدر ضلع میں بلوچ قوم پرستوں کے ذریعہ ایک مظاہرہ کو کور کرنے کے بعد آن لائن خبر رساں ایجنسی کے نامہ نگاہ منیر احمد شاکر
(Munir AhmedShakir)کو غنڈوں نے ہلاک کرڈالا۔5نومبر کو اردو زبان کے روزنامہ ٹاور کے سب ایڈیٹر جاوید نصیر رند
(Javed Naseer Rind)کی لاش بلوچستان صوبہ کے خضدر شہر میں اس حالت میں ملی کہ اس پر اذیت رسانی کے نشانات اور گولیوں کے زخم تھے۔وہ 9ستمبر سے ہی غائب تھے۔
خوف کی ایک فضا فوج جنگجو گروپوں کے میڈیا کوریج کو مشکل بنا دیتی ہے۔صحافی حضرات دہشت گردی مخالف کارروائیوں میں فوج کے ذریعہ حقوق انسانی کے بیجا استعمال کی رپورٹ شاذ و نادر ہی دیتے ہیں، اور طالبان و دیگر مسلح گروپ اپنی کوریج کے تعلق سے ذرائع ابلاغ کے اداروں کو مستقل دھمکی دیتے رہتے ہیں۔
چیف جسٹس افتخار چودھری (Iftikhar Chaudhry)اور صوبائی اعلی عدالتوں نے 2011میں توہین عدالت کی کارروائیوں کی دھمکی کی معرفت عدلیہ پر ذرائع ابلاغ کی نکتہ چینی پر مؤثر طریقے سے نکیل کس دی، اور یہ معاملہ تو پاکستان کی خود مختار عدلیہ کو 2009میں دوبارہ منصب پر بحال کیے جانے کے وقت سے ہی رہا ہے۔ ایک مثبت پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ زبانی طور حکومت کی نکتہ چینی کرنے والے صحافی حضرات کو منتخب عہدیداران کی جانب سے پچھلے سالوں کی بہ نسبت قدرے کم دخل اندازی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کلیدی بین الاقوامی کردار
امریکہ پاکستان کا سب سے اہم حلیف رہا ہے اور یہ پاکستان کے لئے شہری اور فوجی امداد کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ تھا، لیکن 2011میں ان کے رشتوں میں واضح طور پر انحطاط آیا۔ 27جنوری کو اس وقت ایک زبردست سفارتی بحران پیدا ہوگیا جب CIAکے ایک ٹھیکیدار ریمنڈ ڈیوس (Raymond Davis)نے لاہور کے ایک بھیڑ بھاڑ والے چوراہے پر دو افراد کو ہلاک کرڈالا۔یوں تو امریکہ اس دعوے پر بضد رہا کہ ڈیوس(Davis)کو سفارتی تحفظ حاصل ہے، مگر پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس دعوے سے اختلاف کیا۔ڈیوس (Davis)کو 16مارچ کو ملک کے متنازعہ اسلامی قانون کے تحت متاثرہ فرد کے اہل خانہ کو "خون بہا" کے طور پر 2.4ملین امریکی ڈالر ادا کرنے کے بعد رہا کیا گیا ۔
تعلقات میںمزید تناؤ پیدا اس وقت پیدا ہوا جب ایبٹ آباد شہر میں ایک کامیاب فوجی کارروائی کے بعد القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن مارا گیا۔جولائی میں امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ فوجی امداد کی شکل میں پاکستان کو $800ملین کی رقم موقوف کر رہا ہے۔"حقانی نیٹ ورک" کے جنگجوؤں کے لئے پاکستان کے مبینہ مستقل تعاون کے معاملے پر ان رشتوں میں مزید زوال آیا، یہ وہ گروپ ہے جس پر امریکی اہلکاروں نے افغانستان میں امریکی سفارتخانہ اور امریکی فوجی ٹکڑیوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
اکتوبر 2010میں امریکہ نے لیہی قانون کے تحت سوات گھاٹی میں مصروف عمل پاکستانی فوج کی چھ اکائیوں پر منظوری دے دی۔اسقانون کے تحت امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اس امر کی تصدیق کرنے کا متقاضی ہے کہ امریکی امداد پانے والی کوئی بھی فوجی اکائی بنیادی حقوق انسانی کے بیجا استعمال میں ملوث نہیں ہے اور، اس طرح کی بدسلوکی پائے جانے پر، ان کی پورے طریقے سے اور باقاعدہ طور پر چھان بین کی جائے گی۔وعدوں کے باوجود، اس قانون کے تقاضے کے تحت پاکستان نے بدسلوکی کا ارتکاب کرنے والوں کو جوابدہ قرار دینے کے لئے 2011میں کوئی اقدام نہیں کیا۔سوات، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں پیش آمدہ متعدد واقعات میں، لیہی قانون کے برخلاف پاکستان کو امریکی امداد بدستور جاری و ساری رہی۔
امریکہ اور پاکستان کے بیچ بڑھتے تناؤ کے مدنظر، پڑوسی ملک چین نے بار بار پاکستان کے لئے تعاون کا اظہار کیا۔پاکستان اور نیوکلیائی حریف ہندوستان کے آپسی رشتے بدستور تناؤ زدہ رہے، حالانکہ ایک اہم پیشرفت میں پاکستان نے اپنے قدرے بڑے پڑوسی کے لئے نومبر میں "انتہائی ترجیحی ملک" کی تجارتی حیثیت کو منظوری دی۔