Skip to main content

World Report 2014: پاکستان

Events of 2013

Keynote

 
Rights Struggles of 2013

Stopping Mass Atrocities, Majority Bullying, and Abusive Counterterrorism

Essays

 
Putting Development to Rights

Integrating Rights into a Post-2015 Agenda

 
The Right Whose Time Has Come (Again)

Privacy in the Age of Surveillance

 
The Human Rights Case for Drug Reform

How Drug Criminalization Destroys Lives, Feeds Abuses, and Subverts the Rule of Law

 2013پاکستان کے لیے ایک اور پُرتشدد سال تھا۔ نواز شریف  (Nawaz Sharif)کی پاکستان مسلم لیگ نے مئی میں پارلیمانی انتخابات جیتا اور جناب شریف جون میں وزیرِاعظم بن گئے۔ طالبان اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے الکیشن کے دوران کی جانے والی بمباری اور اہدافی قتل کی مہم نے الیکشن کے عمل میں بگاڑ پیدا کیا تاکہ الیکشن کے روح کو سبوتاژ کیا جاسکے۔ نئی حکومت نے پاکستان پیپلز پارٹی کے زیرِ قیادت 2008تک جاری رہنے والی حکومت کی جگہ سنبھالی۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا جب ایک عوامی حکومت نے آئینی طور پر اقتدار کی باگ ڈور دوسری حکومت کو منتقل کی ہو۔

فوج نے الیکشن کے عمل میں رکاوٹ پیدا نہیں کی، لیکن یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے جوا بدہی میں ناکام رہے اور خصوصا قومی سلامتی اور انسداد دہشت گردی کے معاملات میں غیرمناسب سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کیا گیا۔ ملک میں سلامتی بحران کی گہری جڑیں ناقابلیت اور فوج اور شہری اداروں کا عسکریت پسند گروہوں کی جانب سے آبادیوں پہ کیے جانے والے حملوں کو ختم کرنے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے نمایاں تھیں۔ اسلامی عسکریت پسندگروہوں کے ذریعے سینکڑوں شیعہ مسلمانوں - خصوصا ہزاراہ برادری کے شیعہ مسلمانوں - کو ہدف بناکر قتل کرنے کا عمل آزادی سے جاری رکھا۔ عیسائی برادری نے ستمبر میں اپنے ارکان پہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ہولناک حملہ اس وقت دیکھا جب پشاور میں ایک چرچ پر بم حملہ کے نتیجے میں 81افرادجاں بحق ہوگئے۔

سیاسی حملوں کی صورت میں قانون کے نفاذ کی خلاف ورزی ہوتی رہی جو کہ خصوصاً پورے بلوچستان میں اور کراچی میں اہدافی قتل کی صورت میں عام تھی۔ پولیس اور سیکیورٹی فورسیز متعدد ناانصافیوں، بشمول مشتبہ مجرمین پہ تشدد اور دیگر نامناسب طریقہ کاروں کا استعمال، ماورائے عدالت قتل، اور دہشت گردی کے مجرموں کی نا حل ہونے والی جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار رہے ہیں۔

ملک شدید مالی بحران کا شکار بھی رہا ہے جس کی مثالیں 2013میں بجلی کی قلت میں شدید اضافہ اور اشیائے خوردونوش اور تیل کے بڑھتے ہوے نرخ ہیں جس نے ملک کی غریب عوام کو بے انتہا نقصان پہنچایا۔

2012اور 2013کے حملوں میں، جن کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی، پولیو کے قطرے پلانے والے کم از کم 22کارکنان ہلاک اور 14زخمی ہوئے۔

انتخابات

انتخابی مہم کے دوران انتخابات کو غیر اسلامیقرار دینے والے طالبان اور ان کے ساتھیوں نے ووٹ ڈالنے والوں کو حکومتی اتحادی جماعتوں کی سیاسی ریلیوں سے دوررہنے کے لیے خبردار کیا تھا۔ ان گروپوں نے کم از کم 130افراد کو ہلاک اور 500سے زائد کو زخمی کیا۔ یورپی یونین کے انتخابی مبصرین نے لکھا کہ “غیر حکومتی عناصر کے تشدد نے کھیل کے میدان کو غیر متوازن کردیا اور متاثرہ علاقوں میں انتخابی عمل کو کافی حد تک بگاڑ دیا،” لیکن اقتدار سے باہر جانے والی سیاسی جماعتوں نے نتائج کو قبول کیا۔ صدر آصف علی زرداری  (Asif Ali Zardari)باضابطہ جمہوری تبدیلی کی نگرانی کے بعد ستمبر میں اپنی معیاد کے مکمل ہونے پر رخصت ہوئے۔

مسلکی حملے

بظاہر کالعدم لشکر جھنگوی (ایل ای جے(LEJ) ) ، جو کہ القاعدہ کا ساتھی گروہ ہے، جیسے سنی جہادی گروہ پاکستان بھر میں مجازی آزادی کے ساتھ کام کرتا ہے، کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار یا تو اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں یا پھر حملوں کی روک تھام میں لاچار نظر آتے ہیں۔

2013میں، پاکستان میں ہونے والے اہدافی حملوں میں 400سے زائد شیعہ مسلمانوں کو قتل کیاگیا۔ بلوچستان میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کم از کم 200شیعوں کو صبوبائی دارالحکومت کوئٹہ یا اس کے اطراف میں قتل کیا گیا۔ جنوری میں ایک خودکش حملے میں ہزارہ برادری کے 96افرادجاں بحق اور کم از کم 150زخمی ہوئے۔ فروری میں، کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن کی سبزی منڈی میں بم پھٹنے سے کم از کم 84افراد جاں بحق اور 160سے زائد زخمی ہوئے۔ دونوں حملوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی۔ مارچ میں، بندرگاہ والے شہر کراچی میں جب شیعہ اکثریتی محلہ ایک بم حملے کا نشانہ بنا تو کم از کم 47شیعہ ہلاک اور 135زخمی ہوئے تھے۔ کوئی 50اپارٹمنٹ اور 10دُکانیں تباہ ہوئی تھیں۔ سارا سال پاکستان بھر میں درجنوں شیعوں کو نشانہ بناکر قتل کیا گیا۔

مذہبی اقلیتیں

ملک کے غیر مہذب توہین رسالت قانون کے تحت ظلم غالب ہے جسے اکثر مذہبی اقلیتیوں کے خلاف ذاتی رنجشوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 2013میں، درجنوں افراد پر اس قانون کے تحتمقدمہ چلایا گیا۔ بوقتِ تحریر، کم ازکم 16لوگ توہین رسالت کی وجہ سے پھانسی کی بھینٹ چڑھے اور دیگر 20عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ آسیہ بی بی، صوبہ پنجاب کی ایک عیسائی خاتون، جو 2010میں توہین رسالت کے تحت موت کی سزا پانے والی ملک کی پہلی خاتون بنی، قید میں نڈھال تھیں۔ 14سالہ عیسائی لڑکی رمشا بی بی کو، جس پہ توہین رسالت کا الزام عائد ہوا اور 2012میں رہا ہوئی، جون میں کینیڈا میں پناہ دی گئی تھی۔ مارچ میں ایک مقامی مسیحی شہری ساون مسیح کے خلاف توہین رسالت کے الزامات کے بعد کئی ہزار عیسائیوں لاہور میں اپنے گھروں سے بھاگنے پہ مجبور ہوگئے۔ ہزاروں کے ہجوم نے پولیس کے سامنے تقریبا 150گھروں اور 2چرچوں کو لوٹا اور جلادیا۔ بوقت تحریر، ساون مسیح جیل میں تھا۔

ستمبر میں، پشاور کے ایک چرچ میں اتوار کے دن ایک بڑے ہجوم کی موجودگی میں خودکش حملے میں 81عبادت گزار جاں بحق اور 130سے زائد زخمی ہوئے، یہ حملہ مسلسل زیر دباؤ مسیحی اقلیت پر پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ خطرناک حملہ تھا۔

احمدیہ مذہبی برادری کے ارکان کے توہین رسالت کے مقدمات میں نشانہ بننے کا عمل جاری رہا اور ان سے پاکستان میں موجود طویل المعیاداحمدی۔مخالف قوانین کے تحت سلوک کیا جاتا رہا۔ 2013میں، انہیں بڑھتے ہوئے سماجی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا جب عسکری گروہوں نے انہیں غیر قانونی طور پر “مسلمانوں کا بھیس” دھارنے کا مرتکب ٹھہرایا، لاہور میں انہیں اپنی عبادت گاہوں کو استعمال کرنے سے روک دیا گیا، صوبہ پنجاب میں ان کی قبروں کو غارت کیا گیا، اور آزادی کے ساتھ ان کے خلاف نفرت آمیزکلمات کا استعمال کیا جاتا رہا۔ عسکریت پسند ان کے خلاف تشدد پہ اکسانے میں ملوث رہے جبکہ ارباب اختیار تصویر کا دوسرا رُخ دیکھتے رہے یا عسکریت پسندوں کی مدد کرتے رہے۔

خواتین اور لڑکیاں

لڑکیوں اور خواتین کے خلاف تشدد –بشمول زنا بالجبر، “غیرت کے نام” پہ قتل، تیزاب کے حملے، گھریلو تشدد اور زبردستی شادیاں - پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ رہا۔

پاکستان میں گزشتہ دہائی میں “غیرت” کے نام پہ کئی ہزار قتل ہوئے ہیں جن میں سینکڑوں صرف 2013میں ریکارڈ کیے گئے۔ اسلامی قصاص اور دعیت قوانین، جو کہ قریبی عزیز کو مالی تلافی کے عوض قاتل کو “معافی” دینے کا اختیار دیتا ہے، اپنی روح کے ساتھ نافذ رہے اور ملزمین کے جانب سے سزا سے بچ نکلنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے۔

گھریلو تشدد میں انتہائی اضافہ کے باوجود، 2013میں پارلیمان اس کی روک تھام اور اس سے متاثرہ خواتین کی حفاظت کے لیے قانون وضع کرنے میں ناکام رہی۔ شادی کی کم سے کم عمر کو 18سال تک بڑھانے کی کوششیں رُکی رہیں۔

عدالتی سرگرمی اور آزادی

پاکستان کی عدالتیں آزاد مگر متنازعہ رہیں۔  2009میں، قومی عدالتی پالیسی اپنانے کے باوجود انصاف تک رسائی کا عمل بہت بُرا رہا کیونکہ سارے ملک میں پُرانے مقدمات کی بھرمار رہی۔ بدعنوانی عدالتوں پہ غالب رہی۔

ججوں نے اکثر ازخود مقدمات(Suo Motu)کا استعمال کیا—عدالت کا خود اپنی نشاندہی سے حرکت میں آنا—تاکہ لوگوں کو انصاف میں مدد میسر ہوسکے۔ دیگر معاملات میں، عدالتوں نے ان مقدمات کا قانون ساز اور ایگزیکٹو طاقتوں میں مداخلت کے لیے استعمال کیا جو کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، حکومت اور فوج کے درمیان طاقت کے حصول کی جنگ کا حصہ تھا۔

2013میں،سپریم کورٹ بلوچستان میں ہونے والی جبری گمشدگیوں اور حکومتی مظالم کو عیاں کرنے میں سرگرم تھی ، لیکن کسی بھی اعلی سطحی فوجی اہلکار کو جوابدہ نہیں بنایا۔ اس سے اُس ریاست عدالتی آزادی کے حقوق کا پتہ چلتا ہے جہاں فوج کا کردار سب سے زیادہ طاقتور ہے۔

ججوں نے توہین عدالت مقدمات کی دھمکیوں کے ذریعے عدالتوں پہ ہونے والی میڈیا اور دیگرذرائع ابلاغ کی نکتہ چینی کا منہ بند کرنا بھی جاری رکھا۔ انتخابی مہم کے دوران عدالتوں کا رویہ اُس وقت شدید اعتراضات کا شکار ہوا جب ججوں نے سیاسی امیدواروں کو پاکستان کے بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزیوں کی بنا پہ نااہل قرار دینے کی کوشش کی۔ یہ ایک ایسا غیر واضح اور امتیازی قانون تھا جس کے تحت امیدواروں کا نیک مسلمان ہونا لازمی تھا۔ اگرچہ 2009میں اس قانون میں ترمیم کرکے اس اہلیت میں ترمیم کرکے اسے یونیورسٹی سے سند یافتہ اہلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ چیف جسٹس چوہدری، جنہوں نے عدالتوں پہ نکتہ چینی کرنے والوں کے خلاف اقدامات کرنے والوں میں مرکزی کردارادا کیا، دسمبر میں اپنے دفتر سے رخصتے ہوگئے۔

بلوچستان

معدنی دولت سے مالامال اس صوبے میں انسانی حقوق کا بحران بلاروک ٹوک جاری رہا۔ گزشتہ برسوں کی مانند 2013میں بھی مشتبہ بلوچی دہشت گردوں اور حزب اختلاف کے سرگرم کارکنان کی فوج، خفیہ اداروں اور پیرا ملٹری فرنٹئیر دستوں کی جانب سے جبری گمشدگی اور قتل کے واقعات دیکھے گئے۔ بلوچی قوم پرستوں اور دیگر دہشت گرد گروہوں نے غیر بلوچ شہریوں پہ حملوں کا آغاز کردیا۔

بلوچ قوم پرست رہنما ملک بلوچ  (Malik Baloch)کے وزیرِ اعلی منتخب ہونے کے بعد نواز شریف کی حکومت نے صوبہ میں مفاہمت کے حصول کی کوشش کی۔ اگرچہ، فوج حکومت کی مفاہمتی کوششوں اور نسلی بلوچوں کو، جو کہ “گمشدہ” قرار دئیے جاچکے تھے، تلاش کرنے کی جدوجہد کی مزاحمت کرتی رہی۔ یکے بعد دیگر پاکستانی حکومتیںدہشت گردوں اور فرقہ پرست و قوم پرست دونوں دہشت گرد گروہوں کے مظالم کی موجودگی میں باگ دوڑ سنبھالنے میں کمزرو نظر آئی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں دہشت گردوں کے حملے کی زد میں آنے والی ہزارہ برداری اور غیر بلوچ نسلی اقلیتیں صوبہ یا ملک سے بھاگ گئی جبکہ بلوچ قوم پرست اِن سنگین مظالم کے لئے فوج کو ذمہ دار ٹھہراتی رہے ہیں۔

انسداد دہشت گردی سے متعلق مظالم

سیکیورٹی فورسیز معمول کے مطابق انسداد دہشت گردی کی کاروائیوں کی مد میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی رہیں، جبکہ مشتبہ افراد کو بنا کسی مقدمہ کے قید کیا گیا یا انصاف پہ مبنی مقدمہ کے بغیر سزا سُنا دی گئی ہے۔ القاعدہ، طالبان اور دیگر اسلحہ بردار گروہوں کے ہزاروں مشتبہ ارکان –جن کو 2009میں قومی سطح پر کی جانے والی کاروائیوں کے دوران وادیٔ سوات اور قبائلی علاقوں سے سے پکڑا گیا تھا –تادمِ تحریر غیر قانونی فوجی قید میں تھے؛ کچھ لوگوں پر مقدمات دائر ہوئے اور عدالتوں میں لائے گئے۔

فوج، فوجی آپریشن کے دوران پکڑے اور قید میں ڈالے گئے افراد تک وکلا، عزیزواقارب، غیر جانبدار نگران اور انسانیت پرست ایجنسیوں کے اہلکاروں کی رسائی سے انکار کرتی رہی ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے جولائی میں اعتراف کیا کہ 500سے زائد “لاپتہ” افراد سیکیورٹی ایجنسی کی تحویل میں ہیں۔

2013میں، شمالی پاکستان کے علاقوں میں موجود القاعدہ اور طالبان کے مشتبہ ارکان پہ یو ایس کے ڈرون حملے جاری تو رہے لیکن 2012کی نسبت ان کی تعداد کم تھی۔ نومبر کے آخر تک تقریبا 25ڈرون حملے کیے جاچکے تھے۔ نومبر میں ایسے ہی ایک حملے میں پاکستانی طالبان کا رہنما حکیم اللہ محسود مارا گیا تھا۔ گزشتہ برسوں کی طرح ان میں سے بہت سارے حملے شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی ہلاکتوں سے منسلک تھے؛ 2013کی ایک امنیسٹی انٹرنیشنل رپورٹ نے متعدد حملوں میں شہریوں کی غیر قانونی ہلاکتوں کے واقعات قلم بند کیے، لیکن جنگ کے علاقوں تک رسائی نا ہونے کے باعث یہ غیر جانبدار انکوائریاں اپنی وسعت، نوعیت اور مجازیت کے معاملے میں بین الاقوامی قوانین کے معیار تک پہنچنے میں بڑی حد تک محروم رہیں۔

آزادیٔ اظہار

2013میں، کم ازم کم 6صحافی اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے یا دانستہ حملوں سے قتل کیے گئے۔ تین صحافی
مرزا اقبال حسین(Mirza Iqbal Husain)، سیف الرحمن(Saif ur Rehman)اور عمران شیخ(Imran Shaikh) 10جنوری کو ہزارہ برادری کو نشانہ بنانے والے خودکش حملے میں جاں بحق ہوئے۔ اپریل میں، اسلم دُرانی (Aslam Durrani)، مدیر برائے اردو ،انتخابی ریلی کے دوران ہونے والے خودکش حملہ میں جاں بحق ہوئے۔ اگست میں اردو زبان کے بلوچ قوم پرست اخبارکے ایک صحافی عبدالرزاق بلوچ  (Abdul Razzaq Baloch)کی مسخ شدہ لاشکراچی میں ملی۔ رزاق مارچ میں لاپتہ ہوا تھا۔ نومبر میں، ایک پروڈیوسر سالک علی جعفری(Salik Ali Jafri)، جو ایج نجی ٹی وی چینل جیو ٹی وی (Geo TV)کے ساتھ کام کرتا تھا، اُس بم حملہ میں مارا گیاجس کا نشانہ کراچی کے شیعہ مسلمان تھے۔

خوف کا ماحول ریاستی سیکیورٹی فورسیز اور دہشت گرد گروہوں، دونوں کی میڈیا کوریج سے باز رکھتا ہے۔ صحافی انسداد دہشت گردی کاروائیوں میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو شاذونادر ہی خبر کا حصہ بناتے ہیں، اور طالبان اور دیگر مسلح گروہ میڈیا کے اداروں کو ان کی خبروں کی بنا پہ باقاعدگی سے دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔ YouTube، جس پر “توہین رسالت سے متعلق مواد” کی موجودگی کی وجہ سے 2012ستمبر سے پابندی عائد تھی، 2013میں بھی اس پر پابندی قائم رہی۔

مئی میں، ایک طویل عرصے سےنیو یارک ٹائمز(New York Times)کے اسلام آباد کےبیوروچیف رہے ڈکلان والش(Declan Walsh) کوبلوچستان اوردہشت گرد گروہوں کی خبروں کے احاطہ کرنےکی بنا پہ فوج کے ایما پر ملک بدر کردیا گیا۔ پاکستانی اور بین الاقوامی صحافیوں نے اُن کی بے دخلی پہ احتجاج کیا۔ تادم تحریر، حکام نے والش کو واپسی کی اجازت نہیں دی ہے۔

اہم بین الاقوامی کردار

یو ایس پاکستان کو دی جانے والی ترقیاتی اور فوجی امداد کا سب سے بڑا عطا کنندہ رہا، لیکن اکتوبر میں امریکی صدر باراک اوباما اور وزیرِاعظم نواز شریف کی ملاقات کے باوجود 2013میں دونوں ممالک کے تعلقات غیر مستحکم ہی رہے۔ اس کی وجہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان میں بڑھتا ہوا عوامی غصہ اور امریکہ کا پاکستان پہ حقانی نیٹ ورک کی، ایک دہشت گرد گروہ جن پہ امریکی حکام افغانستان میں تعینات یو ایس دستوں پہ حملوں کا الزام عائد کرتے ہیں، مدد کرنے کا الزام لگانا ہے۔ پاکستان نے یو ایس ڈرون حملوں سے متعلق اپنے اعتراضات اقوام متحدہ میں اُٹھائے۔

ستمبر میں جنرل اسمبلی

2012کے ایک قانون کے باوجود، جس کے تحت قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کو مجاز قرار دیا گیا، پاکستان 2013میں کمیشن کی تشکیل میں ناکام رہا۔ مارچ میں، اپنی چہار سالہ “عالمگیر میعادی تجزیہ” کے تحت اقوام متحدہ کونسل برائے انسانی حقوق کے روبرو، پاکستان نے ان تجاویز کو قبول کیا کہ وہ مذہبی نفرت کے خلاف اقدامات ، مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی روک تھام اور ایسے تشدد کے ذمہ داروں کو جوابدہ بنائے گا۔ بہرحال تادم تحریر، حکومت نے ان اقدامات پہ عمل کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا تھا۔ ملک میں جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلہ کے باوجود، پاکستان نے جبری گمشدگی سے تمام افراد کی حفاظت کے بین الاقوامی کنونشن کی توثیق نہیں کی ہے۔

پاکستان اور اس کے نیوکلیائی حریف بھارت کے درمیان تاریخی اعتبار سے تناؤ آمیز تعلقات ستمبر میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کے باوجود 2013میں بُرے رہے۔ پاکستان اور چین نے پہلے سے پائیدار وسیع معاشی اور سیاسی اتحاد کی مضبوطی کو جاری رکھا۔